دلتوں کا غصہ اس بنیاد پر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ لمبی جد و جہد کے بعد ان کو جو آئینی اور قانونی حقوق ملے ہیں، حکمراں بی جے پی اور اس کی مادری تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ان کو چھیننا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ذریعے 1989 میں بنائے گئے ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں فوراً گرفتاری کے جوازکو نرم کر دینے کے خلاف ‘ بھارت بند ‘ کے طور پر دلتوں کی جو ناراضگی پھوٹی ہے اور جس میں ہوئے تشدد میں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی ہیں، مرکزی حکومت اس کا سارا ذمہ سپریم کورٹ پر ڈالکر کنارے نہیں کھڑی ہو سکتی کیونکہ یہ سارا ہنگامہ دلتوں اور محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اس کے ذریعے حکمت عملی کے طور پر ‘ دانشمندی سے ‘ اپنائی گئی سرد مہری نے ہی پیدا کیا ہے۔
بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی سمیت کئی سینئر دلت رہنما یوں ہی نہیں کہہ رہے کہ دلتوں کا غصہ اس بنیاد پر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ لمبی جدو جہد کے بعد ان کو جو آئینی اور قانونی حقوق ملے ہیں، حکمراں بی جے پی اور اس کی مادری تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ان کو جیسے بھی بنے چھیننا چاہتی ہیں۔اس کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ نے دس دن پہلے مذکورہ قانون کے تحت ملزم کی فوراً گرفتاری کے بجائے معاملے کی تفتیش اور پیشگی ضمانت کا اہتمام کیا، تو نریندر مودی حکومت نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے کوئی خاص بات ہوئی ہی نہیں۔
اس کا یہ رویہ تب تھا، جب نہ صرف دلت تنظیم بلکہ بی جے پی اور اس کی معاون جماعتوں کے دلت رکن پارلیامان اور وزیر بھی اس کو لےکر سخت مایوسی اور عدم اتفاق ظاہرکر رہے تھے۔سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کرنے کی مانگ کرتے ہوئے وہ پوچھ رہے تھے کہ حکومت کی نگاہ میں کس کی قانونی حفاظت زیادہ ضروری ہے، دلتوں کی یا ان کی جو شکایت کرتے ہیں کہ اس قانون کی معرفت ان کو ناحق ستایا جاتا ہے۔
یہاں سمجھنا چاہئے کہ بعد میں پانی سر سے اوپر ہوتا دیکھ کر مودی حکومت نے جو ریویو پٹیشن دائر کی اور جس پر سماعت میں دلتوں کو سپریم کورٹ سے فوراً کوئی راحت دلانے میں ناکام رہی، اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اگر اس نے شروع سےہی سیاسی ٹیڑھےپن کا اظہار کرنے کے بجائے مسئلے کو ایمانداری سے سنجیدگی سے لیا ہوتا۔ آخرکار عدالت کے متنازع فیصلے سے پہلے اٹارنی جنرل کو کس نے روک رکھا تھا کہ وہ حکومت کی طرفداری کرتے ہوئے وہ باتیں نہ کہیں، جو اب عرضی میں کہہ رہے ہیں؟ وہ کہتے تو دلت تنظیموں کو بھی اپنی طرف سے فوراً سماعت کی وہ درخواست بھی نہیں کرنی پڑتی، جس کو عدالت نے نامنظور کردیا۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت بند:’ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا…‘
ان باتوں کے پیش نظر دلت تنظیموں نے ‘ بھارت بند ‘ کی آواز دی توبھی حکومت نے ان سے بات چیت کی راہ نہیں اختیار کی۔ الٹے اس کےاشرافیہ ذہنیت کے حمایتی بندکو بےوجہ کا سیاسی اسٹنٹ ٹھہرانے پر اتر آئے۔ان کی مانیں تو چونکہ عدالت نے ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے غلط استعمال کوروکنے کے لئے اس میں یہ تبدیلی کی تھی، اس لئے اس پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے۔
آگے، دلتوں کے ذریعے ‘ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فرمان ‘ کی مخالفت کے جرم کی رو سے ان کو یہ یاد رکھنا بھی گوارا نہیں ہوا کہ ابھی ‘ پدماوت ‘ کی ریلیز کے تنازع میں کرنی سینا نے عدالت کے احکام کی کیسی ‘ عزّت ‘ کی تھی! اس حوالہ سے، یہ کرنی سینا ‘ بھارت بند ‘ کے دوران راجستھان کے باڑمیر میں دلتوں کے مظاہرہ کے خلاف سڑک پر اتر آئی اور ٹکراؤ پر آمادہ ہو گئی۔ راجستھان حکومت کو اس کا پہلے سے اندیشہ تھا، پھر بھی اس نے ایسے انتظام نہیں کئے کہ دلت پر امن طریقے سے اپنی مخالفت درج کرا لیں۔
دلتوں کا الزام ہے کہ اس نے جان بوجھ کر انتشار کی حالت پیدا ہونے دی، تاکہ اس کو لےکر دلتوں کو الزام دیا جا سکے۔کوڑھ میں خارش یہ کہ پہلے سے اعلان شدہ ‘ بھارت بند ‘ کے ایسے باہمی طور پر عدم اعتماد بڑھانے اور اس بھروسے کو، دلتوں سے جس کو حاصل کرنے کی حکومت کی طرف سے رسمی کوششیں بھی نہیں کی گئیں اور توڑنے کی کچھ طاقتوں کی سرگرمیوں کے درمیان مودی حکومت ‘ چت بھی میری، پٹ بھی میری اور انٹا میرے بابا کا ‘ کی راہ پر چلتی رہی۔ ایسے میں اس کی وابستگی پر سوال اٹھنا ہی تھا۔
وہ اٹھے اور ‘ بھارت بند ‘ کے الگ اس سوال تک جا پہنچے کہ ابھی کچھ مہینے پہلے جب مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڑے نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی آئین بدلنے کے لئے اقتدار میں آئی ہے، تو بی جے پی نے صرف ان کے بیان سے خود کو الگ کرکےالٹے ہی اپنی ذمہ داری سے کنارہ کشی کیوں کی تھی؟ ان کو وزیر کے عہدے سے کیوں نہیں ہٹایا تھا؟
کرناٹک کے ناراض دلتوں نے بی جے پی صدر امت شاہ سے یہ سوال پوچھا تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکے۔ شاید اسی لئے ادھر اترپردیش میں بہرائچ کی بی جے پی کی دلت رکن پارلیامان ساوتری بائی پھولے کو بھی ‘ آئین بچاؤ، ریزرویشن بچاؤ ‘ ریلی کی ضرورت محسوس ہوئی، تاکہ بابا صاحب آمبیڈکر کے نام میں ‘ رام جی ‘ جوڑنے اور ان کے مجسموں کے ساتھ توڑ پھوڑ کے واقعات کی معنی خیز مخالفت کر سکیں۔
بہر حال، دلتوں میں بڑھتے عدم تحفظ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سیاق میںنہیں شروع ہوتا۔ وہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے ہوم اسٹیٹ سے لےکر پورے ملک میں روزانہ بڑھتا گیا ہے کیونکہ نہ صرف ‘ منواسمرتی ‘ کے ذریعے حکومت ہندو اسٹیٹ کی تمنا اس کی اسلافی تنظیم بلکہ معاونوں کا ایک بڑا طبقہ بھی دلتوں کو برابری کے حقوق کی مخالف ہے۔
عام لوگ آندھر پردیش میں روہت بیمولا کی مشہور خودکشی کے ساتھ گجرات کے مشہور اونا شرمناک واقعہ کو ابھی بھولے بھی نہیں ہیں کہ اتر پردیش کے ہاتھ رس میں ایک دلت جوان کو اپنی بارات کے راستے کے لئے دہائی لگانی پڑی ہے۔اپنے گاؤں کے اشرافیہ کی اس ضد کے خلاف کہ جو راستہ دلتوں کی باراتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کی بارات اسی سے جانی چاہئے۔
گجرات میں گزشتہ سال مونچھ رکھنے پر دلتوں پر جان لیوا حملے ہوئے اور ابھی حال میں بھاونگر میں ایک دلت جوان کو اس لئے مار دیا گیا کہ اس نے گھوڑ سواری کا شوق پورا کرنے کے لئے گھوڑا خریدا اور تمام دھمکیوں کے باوجود اس پر بیٹھکر گھومتا رہا۔سوال ہے کہ کیا ایسی درد انگیز حالت میں ہونے کے باوجود دلت کسی قانون کا غلط استعمال کرنے کی حالت میں ہو سکتے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ قانون کا فائدہ ہمیشہ انہی طاقتوں کو ملتا ہے جو اس کو اپنی مرضی کے مطابق تعمیل کرانے کی حالت میں ہوں۔
دلت ابھی اتنے قابل نہیں ہیں، اس لئے ان کے ظلم وستم کے معاملے یا تو درج ہی نہیں ہوتے یا پھر انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ دونوں ہی کام ریاست کی مشینری کے ہیں اور اسے اس کو ترمیم کرنے میں ناکام ہونے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔لیکن گنتی کے معاملوں میں ‘صاحب ثروت ‘دلتوں نے اس قانون کا غلط استعمال بھی کیا ہو تو کیا اس کی آڑ میں اس کے اہتمام کو نرم کرکے سارے دلتوں کی حفاظت داؤں پر لگائی جا سکتی ہے، سو بھی جب وہ قانون ایک ساتھ ان کی ڈھال بھی ہو اور یقین دہانی بھی؟
اس کا جواب ویسے ہی ‘ نہیں ‘ میں دینا ہوگا جیسے اس کا کہ کیا کسی بھی قانون کو اتنا بےلگام ہونا چاہئے کہ اس کے تحت درج جھوٹے معاملوں میں بھی ضمانت نہ دی جا سکے؟بدقسمتی سے ادھر ہم لگاتار دیکھ رہے ہیں کہ طالب علم ہوں، کسان، تقرری میں دھاندلی سے دہشت زدہ بےروزگار، نوجوان، امتحانوں میں پرچے لیک کے خلاف مشتعل امتحان دہندگان یا دلت، جو بھی کمیونٹی اپنی مانگوں کے ساتھ سڑک پر اترتی اور حکومت کو اس کے فرائض یاد دلاتی ہے، اس کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ جیسے اس نظام میں کسی کو بھی اپنی آواز اٹھانے کا حق نہیں ہے۔ اس کو منظور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے ملک کی جمہوریت پر سوال کھڑا ہوتا ہے۔
آگے ملک میں ‘ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ‘ کے حقیقی حالات بنیں اور بات سب سے رواداری اور سب کی عزّت تک پہنچے تو ناقابل اعتماد ویوز سے متعلق سوالات کے بجائے، ان سے مکالمہ شروع کرنا اور ان کے غصے کو سمجھنا ہوگا-جتنا ممکن ہو جتنا جلد ممکن ہو۔ حکومت اس کام میں جتنی دیر کرےگی، پیچیدگیاں اور مسائل اتنے ہی بڑھتے جائیںگے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر