خبریں

ہسدیو میں اڈانی کی چال: آدی واسیوں کے درمیان پھوٹ ڈالو کی پالیسی اپنا کر مزاحمت کو دبانے کی کوشش

چھتیس گڑھ میں کوئلے کی کانوں کے خلاف آدی واسیوں کی مزاحمت کو روکنے کے لیے اڈانی گروپ نے ان کے ہی علاقے کے لوگوں کو کوآرڈینیٹر بنا دیا ہے۔ وہ گاؤں والوں کے سامنے کمپنی کی بات رکھتے ہیں، گاؤں والوں کو بغیر احتجاج کے معاوضہ قبول کرنے اور مظاہرہ سے دور رہنے کے لیے راضی کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے قبائلی سماج کو تقسیم کر دیا ہے۔

چھتیس گڑھ میں جنگل کاٹنے اور کوئلے کی کانیں مختص کرنے کے خلاف ہوئے مختلف مظاہرے ۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/اسپیشل ارینجمنٹ)

چھتیس گڑھ میں جنگل کاٹنے اور کوئلے کی کانیں مختص کرنے کے خلاف ہوئے مختلف مظاہرے ۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/اسپیشل ارینجمنٹ)

سرگوجہ/سورج پور: چھتیس گڑھ کے ہسدیو علاقے میں اڈانی گروپ کے ذریعے چلائی جانے والی کوئلے کی کانوں میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ معاوضے کی متضاد تقسیم، گرام سبھا سے جعلی منظوری، ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی اور برسوں سے باز آبادی  کے جھوٹے وعدوں کے الزام اڈانی مائننگ پرائیویٹ لمیٹڈ پرلگتے رہے ہیں۔

اس کا ایک اور پہلو جس پر کم بحث ہوئی ہے،  وہ ہے اڈانی کی جانب سے مقامی قبائلیوں کی ان آفیشیل بھرتی، جس نے دیہی ثقافت  پرکاری ضرب لگائی ہے اور سماج کو تقسیم  کر دیا ہے۔

کون ہیں یہ کوآرڈینیٹر؟

ہسدیو کے علاقے میں جنگلات کی کٹائی، نقل مکانی اور معاوضے سے متعلق تضادات کو لے کر احتجاج کی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس زمین کے اندر پانچ ارب ٹن کوئلہ موجود ہے اور اس کے اوپر لاکھوں درختوں سے ڈھکے جنگلات ہیں۔

مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ان کی مزاحمت کو دبانے کے لیے اڈانی گروپ نے بالواسطہ طور پر مقامی قبائلیوں کو تعینات  کر دیا ہے، جنہیں کوآرڈینیٹر کہا جاتا ہے۔ بالواسطہ اس لیے کہ کمپنی انہیں براہ راست دس ہزار روپے تنخواہ نہیں دیتی، بلکہ کمپنی کے لیے کام کرنے والےوینڈرس انھیں یہ رقم دیتے ہیں، تاکہ نہ تو وہ نوکری کا دعویٰ کر سکیں اور نہ ہی اڈانی گروپ سے ان کی وابستگی ثابت کی جا سکے۔

ان کا مزید کہنا ہےکہ یہ کوآرڈینیٹرز گاؤں میں کمپنی کی بات رکھتے  ہیں، گاؤں والوں کو بغیر احتجاج کے معاوضہ قبول کرنے اور کسی بھی قسم کی ایجی ٹیشن سے دور رہنے پر آمادہ کرتے ہیں۔

مقامی لوگوں  کے مطابق، ان کوآرڈینیٹرز کی تعداد پورے ہسدیو علاقے میں 70 سے 200 کے درمیان ہے۔ اڈانی مائننگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے منصوبہ بند کام کرنے کے طریقے کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2025 کے حصول کے پیش نظر 2022 سے ہی ممکنہ علاقوں میں کوآرڈینیٹرز کو فعال کر دیا گیا تھا۔ جنوری-فروری 2025 کے مہینے میں ہسدیو علاقے کے پرسا کول بلاک کے لیے سورج پور ضلع کے فتح پور، گھاٹ برا، سالہی،جناردن پور کے کچھ حصوں میں زمین کا حصول اور معاوضے کی تقسیم کی جانی ہے۔ لیکن مستقبل کی مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوششیں تین سال پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ یہ کام کوآرڈینٹرز کے توسط سے کیا گیا۔

مئی 2022 میں رائے پور کے ہسدیوارنیہ میں درختوں کی کٹائی اور کوئلے کی کان کنی کو فروغ دینے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@SHAsdeo)

مئی 2022 میں رائے پور کے ہسدیوارنیہ میں درختوں کی کٹائی اور کوئلے کی کان کنی کو فروغ دینے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@SHAsdeo)

‘اڈانی کمپنی قانون اور قواعد کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہسدیو میں قدرتی وسائل کو لوٹ رہی ہے۔ یہاں گرام سبھا کے فرضی اور جعلی دستاویز تیار کیے گئے ہیں۔ کمپنی تحریک کو توڑنے اور بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا بھی کرتی  ہے،’ ہسدیو بچاؤ آندولن کے کنوینر آلوک شکلا کہتے ہیں۔ آلوک شکلا کو ہسدیو میں ان کی جدوجہد کے لیے اس سال کا گولڈمین انوائرمنٹل ایوارڈ ملا ہے، جسے ‘گرین نوبل’ بھی کہا جاتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں،’اڈانی گروپ کے اہلکار گاؤں کے ہی کچھ بااثر لوگوں کے ذریعے گاؤں میں اختلافات پیدا کر کے کان کنی کے لیے ماحول بناتے ہیں۔ ہسدیو میں کیٹے ایکسٹینشن کان کے لیے حال ہی میں منعقد ہونے والی جن شنوائی  اس کی ایک مثال ہے۔ شنوائی  سے ایک دن پہلے یہ کوآرڈینیٹر رات کے وقت لوگوں کو گاڑیوں میں لے کر آئے اور ان سے  کان کی حمایت کروائی۔’

آپ کو ان کوآرڈینیٹرز کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ متاثرہ دیہات میں داخل ہوتے ہی وہ آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ کے بارے میں  جاننے کی کوشش کرتے ہیں، گوگل پر آپ کا نام سرچ کرتے ہیں اور اگر ذرا سا بھی شک ہو تو وہ آپ کی اور آپ کی گاڑی کی تصویر لے کر کمپنی کے حکام کو بھیج سکتے ہیں۔

سورج پور ضلع کے فتح پور میں چار پانچ کوآرڈینیٹروں کے ایک گروپ نے دی وائر  کو بتایا کہ ان کا بنیادی کام گاؤں کے لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ احتجاج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، معاوضے کی رقم لے کر اپنی زمین دے دینا ہی منافع بخش سودا ہے۔

ہسدیو بچاؤ آندولن سے وابستہ فتح پور کی سنیتا پورتے نے بتایا، ‘کوآرڈینیٹر کو ٹھیکیدار کی طرف سے رکھا جاتا ہے اور انہیں  ہر ماہ تقریباً دس ہزار روپے ملتے ہیں۔ وہ مظاہرین  اور کان  مخالفین پر نظر رکھتے ہیں۔’

انہوں نے بتایا کہ جنگلات کی کٹائی کے وقت نئے لوگوں کو کوآرڈینیٹر کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ ‘2012 میں پرسا-کیٹے کان کھلنے کے وقت تقریباً 10-11 کوآرڈینیٹر رہے ہوں گے، اب 200 کے قریب ہیں۔’

(فائل فوٹو: Facebook/@alokshuklacg)

(فائل فوٹو: Facebook/@alokshuklacg)

سنیتا پورتے نے کہا کہ کوآرڈینیٹر کو سرکاری تحفظ بھی حاصل ہے۔ ‘جب اکتوبر میں درخت کاٹے گئے تو ہم درختوں کو بچانے کے لیے رات کو جنگل میں سوتے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے کوآرڈینیٹر پولیس کی موجودگی میں ہم پر پتھر پھینک رہے تھے۔’

فتح پور کے منیشور کا کہنا ہے کہ ‘جنگلات کی کٹائی کے وقت کوآرڈینیٹر حکومت اور صحافیوں کے سامنے ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ ہر کوئی جنگلات کی کٹائی کے لیے راضی ہے۔ انہیں چوراہے پر بیٹھ کر بولنا کہ کان صحیح ہے۔ یہ لوگ ہماری جاسوسی کرتے ہیں۔ اگر ہم فیس بک اور ٹوئٹر پر کان کنی  یا زمینوں پر قبضے کے خلاف لکھتے ہیں تو یہ اس کو کاؤنٹر بھی کرتے ہیں۔’

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کوآرڈینیٹر کوئلے کی کھدائی کے حق میں بالکل ایک جیسی دلیل  دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں باقاعدہ اس کی ٹریننگ دی  گئی ہے۔

(فائل فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

(فائل فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

دلچسپ بات یہ ہے کہ دی وائر سے ایک کوآرڈینیٹر نے کہا، ‘یہ (مظاہرین) لوگ جان بوجھ کر زیادہ بولنے والی  تیز عورتوں  کو آگے کر کے احتجاج چلا رہے ہیں جوجتنا زیادہ بولنا جانتا ہے ، اس کو اتنا ہی زیادہ پیسہ ملتا ہے۔ تمام (مائن مخالف لوگ) تنخواہ پر ہیں۔’

منقسم معاشرہ

ان کوآرڈینیٹرز نے دیہی  معاشرے اور ثقافت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور خاندانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ گونڈ برادری کے فتح پور گاؤں میں کوآرڈینیٹر کی وجہ سے بگڑتی صورتحال کو اس مثال سے سمجھیں۔ ایک بااثر شخص اس گاؤں کا کوآرڈینیٹر ہے۔ اس گاؤں کی دیوی ڈئی ہارین دائی کے مقدس مقام پر کوآرڈینیٹراور اس کے خاندان کا کنٹرول میں ہے۔ چونکہ یہ سب کان کنی  کے حامی ہیں، اس لیے کچھ عرصہ قبل کان مخالف برادری کے ساتھ ان کا جھگڑا اس قدر بڑھ گیا کہ مخالف گروہ اپنی الگ دیوی  قائم کرنے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔

اگرچہ بالآخر ایسا نہیں ہوا، لیکن قبائلی گاؤں میں دیو استھان  کو الگ کرنا ایک بہت سنگین واقعہ  ہے اور ایسی کوئی بھی کوشش گہری اندرونی تقسیم کو ظاہر کرتی ہے۔

اڈانی گروپ کی کھدائی سے متعلق ااامور پر گہری نظر رکھنے والے مقامی صحافی کرانتی کمار راوت نے کہا کہ ‘علاقے کے کچھ لوگ اپنے پانی، جنگل، زمین کو بچانے کے لیے کام کر رہے ہیں اور کچھ کان کی حمایت کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھائی بھائی میں ہی  اختلاف پیداہو گیا ہے۔’

سنیتا پورتے کہتی ہیں، ‘ان کی حکمت عملی پھوٹ ڈالنے کی ہے۔ وہ ہمیں معاشرے کے سامنے بھی بدنام کرتے ہیں کہ ہمیں بیرون ملک سے پیسہ آتا ہے۔’

پیسہ مزاحمت کو کند کردیتا ہے

سرگوجہ علاقے کے قبائلی عام طور پر مستقبل کے لیے بچت نہیں کرتے۔ اس لیے وہ پیدائش، موت، شادی، بیماری، تہوار وغیرہ جیسے مواقع پر قرض لیتے ہیں۔ جب سے اڈانی کمپنی اس علاقے میں آئی ہے، قبائلی ان کوآرڈینیٹرز کے ذریعے کمپنی کے اہلکاروں سے چند ہزار روپے لیتے ہیں۔ چونکہ یہ اہلکار اس رقم کو واپس لینے میں دلچسپی نہیں دکھاتے، اس لیے اس احسان کے بوجھ تلے رہنے والے قبائلیوں کا مزاحمتی شعور آہستہ آہستہ ماند پڑ جاتا ہے۔

اس میں ایک اور پہلو جوڑتے ہوئے ادے پور گاؤں کے صحافی للن نے کہا کہ کان شروع ہونے سے پہلے کان کے حمایتی افراد کی تعداد کم ہوتی ہے لیکن جب یقین ہو جاتا ہے کہ کان کھلے گی تو حمایتی بڑھتے جاتے ہیں اور کان کے مخالفین آہستہ آہستہ اپنی تعداد بڑھاتے ہیں۔ ذاتی مالی فوائد دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔’

پرسا کول بلاک کے حوالے سے مقامی لوگوں کا مظاہرہ۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: Facebook/@alokshuklacg)

پرسا کول بلاک کے حوالے سے مقامی لوگوں کا مظاہرہ۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: Facebook/@alokshuklacg)

اندرونی تضاد

دی وائر سے بات کرتے ہوئے کوآرڈینیٹر کے تضادات اور عدم اطمینان بھی سامنے آئے۔ ایک کوآرڈینیٹر نے کہا، ‘جن باہر کے لوگوں نے ان کے گاؤں میں زمین خریدی تھی انہیں نوکریاں مل رہی ہیں اور ہم جو پہلے ہی کمپنی کے لیے کام کر رہے ہیں ان کے پاس ان کی نوکریوں کے لیے کچھ بھی صاف نہیں ہے۔ اس لیے تمام کوآرڈینیٹرکمپنی  کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرنے کا سوچ رہے ہیں۔’

اس کے علاوہ کچھ کوآرڈینیٹر ماہانہ دس ہزار روپے وصول کر کے شراب کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اس علاقے میں دس ہزار ایک بڑی رقم ہے۔ مہوا شراب کی ایک بوتل 100 روپے میں دستیاب ہے۔

جب دی وائر نے اڈانی گروپ کے ایک اہلکار سے رابطہ کیا تو انہوں  نے صاف صاف انکار کر دیا، اور نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ان کی کمپنی میں ‘کوئی تنخواہ دار کوآرڈینیٹر’ نہیں ہیں۔ جو لوگ روزگار، تعلیم اور ترقی کے حق میں ہیں وہ خود بخود کان کی حمایت کر رہے ہیں۔’

مجھے اپنے ایک صحافی دوست کی یاد آئی ، جسے اڈانی کے اہلکاروں نے اپنے باغات دکھاتے ہوئے بیچ میں ٹھٹھک کر ایک گرگٹ اور دو پرندوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا، ‘دیکھیے یہ چرندپرند بھی آہستہ آہستہ جنگل میں آنے لگے ہیں۔ آہستہ آہستہ  بھالو بندر بھی آئیں گے۔ حیاتیاتی تنوع کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے جیسا آپ لوگ بتاتے ہیں۔’

(مہیش ورما بنیادی طور پر شاعر ہیں، سرگوجہ میں رہتے ہیں۔)