خبریں

ماہرین تعلیم نے غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے ’مسلم مخالف‘ جے این یو سیمینار کو تنقید کا نشانہ بنایا

اس مہینے11 نومبر کو جے این یو کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں ممبئی میں غیر قانونی امیگریشن کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی نتائج کا تجزیہ کیا گیا۔ جے این یو ٹی اے کا الزام ہے کہ یہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات سے قبل مسلم مخالف تعصبات کو تقویت بخشنے کی کوشش تھی۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/GS Meena/CC BY-SA 3.0)

جواہر لال نہرو یونیورسٹی۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/GS Meena/CC BY-SA 3.0)

نئی دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن (جے این یو ٹی اے) نے ‘ممبئی میں غیر قانونی تارکین وطن’ پر ایک سیمینار منعقد کرنے کے یونیورسٹی (جے این یو) کے فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔ جے این یو ٹی اے نے اسے نظریاتی مقاصد کے لیے تعلیمی اداروں  کا صریح غلط استعمال قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، رواں ماہ 11 نومبر کو منعقد سیمینار میں ‘غیر قانونی امیگریشن کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی نتائج’ کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ جے این یو ٹی اے نے الزام لگایا ہے کہ یہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات سے قبل مسلم مخالف تعصبات کو تقویت بخشنے کی کوشش تھی۔

جے این یو ٹی اے نے سیمینار میں وائس چانسلر شانتی سری دھولیپوڑی پنڈت کی شرکت پر بھی تنقید کی، جنہوں نے 5 نومبر کو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (ٹس) میں اس سلسلے میں جاری ایک رپورٹ کے اجرا میں شرکت کی تھی۔

اس رپورٹ میں ٹیچرس یونین نے ممبئی میں تمام تارکین وطن کو ‘غیر قانونی’ قرار دینے کا الزام لگایا ہے ، جبکہ حقائق بتاتے ہیں کہ ممبئی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہی بین الاقوامی مہاجرین پر مشتمل ہے۔ جے این یو ٹی اے نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ تعلیمی آزادی کو دبانے کے ایک بڑے پیٹرن  کا حصہ ہے۔

ملک بھر کے ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور سماجی کارکنوں کے گروپ میڈیکو فرینڈ سرکل (ایم ایف سی) نے بھی اس حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے اور اسے ‘تعلیم کی آڑ میں سیاسی سرگرمی’ قرار دیا ہے۔

ایم ایف سی نے کہا، ‘مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات کے وقت منصوبہ بند طریقے سے میل کھانے والےغیر اخلاقی ‘مطالعہ’ کی اس نامکمل اور شدیدجانبدار والی عبوری رپورٹ کو جاری کرنا کوئی اکیڈمک مشق نہیں ہے، بلکہ سیاسی مداخلت کا ایک سوچاسمجھا عمل ہے۔’

گروپ نے بیان میں مزید کہا، ‘یہ ووٹرز کو پولرائز کرنے، پسماندہ کمیونٹیز کو بدنام کرنے اور ممبئی میں تارکین وطن کے خلاف تشدد کو بھڑکانے کی دانستہ کوشش ہے۔ ماہرین تعلیم کا ایسا طرز عمل درس وتدریس کی بنیادی اخلاقیات کے ساتھ فراڈہے۔ علم کی ترسیل میں اپنے کردار کو تفرقہ انگیز نظریات کا آلہ بنا کر اس ‘مطالعہ’ سے وابستہ ماہرین تعلیم نےاساتذہ اور ماہرین تعلیم کو شرمسار کر دیا ہے۔’

اس کے علاوہ ایم ایف سی نے بتایا کہ اس مطالعے میں ‘انتہائی نامناسب اور متضاد ڈیٹا ویژولائزیشن’ کا استعمال کیا گیا ہے، جو کہ دائیں بازو کی جانب سےڈیموگرافک الارمزم اور آبادیاتی تبدیلی کے حوالے سے کے خوف کو پھیلانے اور فرقہ وارانہ تعصب کی ایک اہم مثال ہے۔’

ایم ایف سی نے یہ بھی کہا کہ اس مطالعے کے طریقہ کار اور اخلاقی خامیاں سنگین ہیں۔ 3000 میں سے صرف 300 شرکاء کےسیمپل کی بنیاد پر، یہ تمام کمیونٹیز، خاص طور پر ممبئی میں رہنے والے مسلمان تارکین وطن، جنہیں بنگلہ دیشی اور روہنگیا بتایا گیاہے، کے بارے میں وسیع نتائج اخذ کرتا ہے۔

ایم ایف سی نے مزید کہا کہ کوئی قابل اعتماد ثبوت فراہم کیے بغیر، رپورٹ ان تارکین وطن کو دہشت گردی، اسمگلنگ اور منظم جرائم سے جوڑتی ہے اور خطرناک دقیانوسی تصورات کو فروغ دیتی ہے جو نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف طریقہ کار کے لحاظ سے غلط ہے بلکہ کمزور آبادی کے وقار اور حقوق پر بھی براہ راست حملہ ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل اکتوبر کے مہینے میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نے ‘ناگزیر حالات’ کا حوالہ دیتے ہوئے الگ الگ مواقع پر ہندوستان میں ایرانی، فلسطینی اور لبنانی سفیروں کے ذریعے خطاب کیے جانے والے تین سیمینار رد کر دیے تھے۔

سیمینارمغربی ایشیائی ممالک میں جاری تشدد کو ایڈریس کرنے کے لیے تھے  اور ان کا اہتمام سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز نے کیا تھا، جو یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز (ایس آئی ایس) کے تحت آتے  ہیں۔ ایونٹ کے حوالے سے، سینئر فیکلٹی ممبران نے مبینہ طور پر سیمینار کے لیے منتخب کیے گئے موضوعات کی پولرائزنگ نوعیت کی وجہ سے کیمپس میں ممکنہ احتجاج پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اس کے علاوہ ہریانہ کے گروگرام یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور عوامی پالیسی کی جانب سے  12 نومبر کو ایک مذاکرہ منعقد کیا جانا تھا، جس کا ایجنڈا ‘مساوی حقوق کے لیے فلسطینی جدوجہد: ہندوستان اور عالمی ردعمل’ سے منسلک تھا۔ اس پروگرام میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سینٹر فار پالیٹکل اسٹڈیز کی ممتاز پروفیسر زویا حسن کو خطاب کرنا تھا، جسے رد کر دیا گیا تھا۔