کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤوادی)کے ذریعے مبینہ طور پر جاری ایک ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گڑھ چرولی کی اندراوتی ندی میں ‘ انکاؤنٹر ‘ کے بعد ملی 40 لاشوں میں سے صرف 22 لاشیں اس گروہ کے لوگوں کی ہیں۔
گڑھ چرولی میں اندراوتی ندی کے کنارے سی60 کمانڈو کی کارروائی کے قریب 3ہفتے بعد ممنوعہ تنظیم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤوادی) نےمذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔حالانکہ اس بیان کے ذرائع کی سچائی کی تفتیش ابھی نہیں ہوئی ہے۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ بیان Dandakaranya خصوصی زونل کمیٹی کے مغربی نائب منڈل بیورو کے سکریٹری شری نواس نے جاری کیا ہے۔ گڑھ چرولی میں ہوئے اس حملے میں 40 لوگ مارے گئے تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مارے گئے لوگوں میں سے 22 ہتھیاربند باغی گروہ کے لوگ تھے۔ اگر جاری کئے گئے بیان کے ہی مطابق دیکھیں تو پولیس کو باغیوں کے اس دعویٰ کا جواب دینا ہوگا کہ مارے گئے لوگوں میں سے کم سے کم 3 لوگ ‘ عام شہری ‘ تھے اور ان کا کسی بھی گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔پولیس فائرنگ میں مارے گئے باقی 15 لوگوں کی شناخت کے بارے میں بھی خط میں کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ سول رائٹس گروپ اور مقامی لوگ پہلے ہی اپنے تحفظ میں گولی باری کرنے کے پولیس کے دعوے کو خارج کر چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا پولیس کا یہ ایک سوچاسمجھا حملہ تھا۔ دی وائر کی رپورٹ میں بھی پولیس کے بیان پر گہرا شک جتایا گیا ہے۔
ڈر ہے کہ گٹےپلی گاؤں کے 8 لوگ جس میں سے زیادہ تر بچے ہیں، پولیس کے اس حملے میں مارے گئے ہیں۔ ان کی فیملی والوں کے دعووں اور جس طرح ان کی فائرنگ کی جگہ پر پہنچنے کے حالات بتاتے ہیں، ان کا کسی تحریک سے منسلک ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ سبھی ایک شادی میں شریک ہونے گئے تھے۔ ان 8 بچوں میں سے پانچ لڑکیاں ہیں اور تین لڑکے تھے۔ 26 اپریل کو ہی جاری کیے گئے 4 صفحات کے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤوادی) کی یہ پریس ریلیز ابھی سامنے آئی ہے۔ اس میں قتل کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ مارے گئے لوگوں کی تصویر دی گئی ہے۔
ایک پورے صفحے پر باغی گروہ کے 22 ممبروں کی ان کی رینک کے ساتھ فہرست دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مارے گئے 3 ‘ عام شہریوں ‘ کا بھی نام اس میں دیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں سے ایک کو زبردستی فوجی کپڑے پہنائے گئے تھے۔
فہرست کے مطابق مارے گئے لوگوں میں 32 سال کے سائی ناتھ عرف دولیش مادھی آترم، شرینو عرف شری ناتھ اور نندو اہم ممبر تھے۔ سائی ناتھ پیرمیلی دالم کے مبینہ طور پر کمانڈر تھے (پولیس کے مطابق ان کو حال ہی میں ڈویزنل کمیٹی ممبر کے طور پر پرموٹ کیا گیا تھا۔) شرینو عرف شری ناتھ اور نندو ڈویزن کمیٹی (جس کو ڈی وی سی کے نام سے جانا جاتا ہے) رینک کے ممبر تھے۔ان کے علاوہ مارے گئے ممبروں میں 6 اسسٹنٹ کمانڈنٹ، 4 پارٹی کمیٹی ممبر اور باقی پارٹی ممبر تھے۔ شرینو 45 سال کے تھے اور مارے گئے لوگوں میں سب سے عمر دراز تھے۔ سب سے کم عمر کی 18 سال کی بجی پونیم عرف کرانتی تھی۔ وہ چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلعےکے کورساگوڈیم سے تھی۔
خط کے مطابق یہ 22 مبینہ نکسلی اہیری پیری میلی علاقے سے Tactical counter-offensive campaign (ٹی سی او سی) کی کارروائی کو انجام دینے کے لئے اکٹھا ہوئے تھے۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ گزشتہ 38 سالوں میں گڑھ چرولی علاقے میں ان کی تحریک کو پہنچا سب سے بڑا نقصان ہے۔ضلع پولیس انسپیکٹر ابھینو دیش مکھ کا کہنا ہے کہ فہرست کے ماخذ کو لےکر ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن اس فہرست میں اور بھی نام منسلک ہو سکتے ہیں جس کے بارے میں پولیس کو پہلے سے نہیں پتا تھا۔
انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘ کچھ نام اور تصویریں میل نہیں کھا رہی ہیں اور کچھ نئے نام فہرست میں شامل دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم ان کی جانچکر رہے ہیں۔ ہماری تفتیش نئے ثبوت سامنے آنے سی تھوڑی لڑکھڑا گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہاں موقع پر 60 نکسلی موجود تھے۔ ‘اب تک پولیس نے 19 مرنےوالوں کی شناخت کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور لاش ان کی فیملی والوں کو سونپ دی گئی ہے۔ ابھینو دیش مکھ کا کہنا ہے کہ ان کے افسر چار دوسرے مرنےوالے کی شناخت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ بچی ہوئی لاشوں کی شناخت کے لئے ڈی این اے تفتیش کی مدد لی جا رہی ہے۔ یہ لمبا عمل ہے۔ ‘
Maoists’ statement by The Wire on Scribd
ابتدائی رپورٹوں میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پولیس نے تصادم میں 40 ‘ نکسلی ‘ کو مار گرایا ہے۔ اس مبینہ ‘ تصادم ‘ میں کوئی بھی پولیس والا زخمی نہیں ہوا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ 150 سے زیادہ سی60 کمانڈو 22 اپریل کو کسن سر کے جنگلات میں ایٹاپلی بلاک کی طرف سے گھسے تھے۔ اس وقت اندراوتی ندی کے کنارے نکسلی بنا ہتھیاروں کے اکٹھا ہوئے تھے۔ تبھی ان پر گولی باری شروع کی گئی۔
اب تک پولیس نے ایک لڑکی کی لاش ملنے کی تصدیق کی ہے اور لاش فیملی والوں کو سونپا ہے۔ 22 اپریل کو ہی 16 لاشیں بر آمد کر لی گئی تھیں اور اس کے بعد اگلے دن 18 لاشیں بر آمد کی گئیں۔ دوسری 6 لاشیں 23 اپریل کو راجارام کھانڈلا کے جنگل میں کاپےوانچا کے قریب مارے گئے تھے۔ ان میں نندو بھی شامل تھا۔جن لاشوں پر ابتک کسی نے دعویٰ نہیں کیا ہے، پولیس نے ان کے آخری رسوم کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔ ابھینو دیش مکھ نے دی وائر کو بتایا، ‘ ہم نے ان کے ڈی این اے سیمپل اکٹھا کر لئے ہیں اور اب تک ایڈیشنل ڈویزنل مجسٹریٹ کی اجازت سے 20 لاشوں کو دفنایاجا چکا ہے۔ کب تک کسی مردہ کے جسم کو محفوظ رکھنا ہے، اس کو لےکر کوئی اصول نہیں ہے۔ ان کو دفنائے جانے کے عمل کی ویڈیوگرافی کی گئی ہے۔ تمام لاشوں کو دفنایا گیا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کو پھر سے نکالا جا سکے۔ ‘
واضح ہو کہ دو الگ الگ معاملوں میں دو الگ الگ مجسٹریٹ جانچکے حکم دئے گئے ہیں۔ موجودہ حکم کے مطابق عدالتی مجسٹریٹ کی جگہ ایگزیکٹو مجسٹریٹ سی آر پی سی کے 176 (1ے)کے تحت معاملے کی تفتیش کرےگا۔ Non judicial قتلوں کے معاملے میں تفتیشی عمل کو لےکر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے واضح گائیڈلائن دئے گئے ہیں۔ سال 2016 میں ممبئی ہائی کورٹ نے جیل میں ہوئی اموات کے معاملوں میں تفتیشی عمل کی پابندی نہیں کرنے کو لےکر جیل محکمے کو کڑی پھٹکار لگائی تھی۔ حالانکہ انکاؤنٹر کے معاملے عموماً کورٹ کی جانکاری سے باہر ہی رہتے ہیں اور زیادہ تر ان کے بارے میں کوئی سوال و جواب نہیں ہوتا۔
3 مئی کو گڑھ چرولی پولیس نے ایک انگریزی اخبار میں پورے صفحے کا اشتہار دیا تھا جس میں پانچ لوگوں کے اوپر انعام دینے کا اعلان کیا گیاا تھا۔ اشتہار کا عنوان تھا، ‘ اطلاع دیجئے، لاکھوں کمائیے۔ ‘ دیش مکھ کا کہنا ہے کہ یہ اشتہار ‘ باقاعدہ طور پر ہونے والا عوامی اعلان ‘ تھا۔جن پانچ لوگوں پر انعام کا اعلان کیا گیا تھا، ان کے نام ہیں؛آندھرپردیش کے کریم نگر کے یداپلی پوسٹ کے مالوجولا وینو گوپال عرف بھوپتی، یوتمال ضلع کے وانی تعلقہ کے راج پور پوسٹ کے چراغ عرف ملند تیل تنبڈے، گنٹور ضلع کے نرمدا اکا، گنٹور ضلع کے رام گنڈم پوسٹ کے جوگنّا عرف چمالا نرسیّا اور چھتیس گڑھ کے راج نندگاؤں ضلع کے چھریا تعلقہ کے پہاڑ سنگھ عرف بابو راؤ ٹوپھا۔
ان کے اوپر 16 لاکھ سے لےکر 60 لاکھ تک کے انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ابھینو دیش مکھ کا کہنا ہے، ‘ ہم عام طور پر علاقائی اخباروں میں اشتہار دیتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی مہینے پہلے ہم نے کئی مراٹھی اخباروں میں ایسی اپیل جاری کی تھی۔ یہ پہلی بار ہے جب ہم نے ایک انگریزی اخبار میں اشتہار دینے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ شہری لوگوں تک یہ اشتہار پہنچ پائے۔ ان وانٹیڈ نکسلیوں کی عمر 50 کے قریب ہیں اور یہ اکثر شہروں کے ہسپتالوں اور شہر میں اپنے دوسرے ٹھکانوں پر آیا کرتے ہیں۔ اس لئے ہم نے یہ اشتہار دیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کو پہنچایا جا سکے۔
Categories: فکر و نظر