فکر و نظر

رویش کا بلاگ : اقتصادی ناکامی کو سیاسی ناکامی سے کیسے الگ کیا جا سکتا ہے؟

کوئی جوان بتا دے کہ اس کی ریاست میں کون سی یونیورسٹی بہتر ہوئی ہے، مگر ان میں سے زیادہ تر کی پسند پوچھیں تو وہ بنا کسی کنفیوژن کے بی جے پی کا نام لیں‌گے۔  نوکری نہیں مل رہی ہے مگر پھر بھی ان کا نظریاتی لگاؤ بی جے پی سے ہے۔

Modi-AmitShah

پنجاب نیشنل کا نقصان ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑا بیکنگ نقصان بن گیا ہے۔  2017-18 کی چوتھی سہ ماہی میں گھوٹالہ سے جوجھ رہے اس بینک کو 13417 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔  بینک نے جتنے بھی لون دیے ہیں اب اس کا این پی اے 18.38 فیصد ہو گیا ہے۔  ایک سال پہلے 12.5 فیصد تھا یعنی 6 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

الہ آباد بینک کی سی ای او اوشا انن تھاسبرامنیم کے سارے اختیارات لے لئے گئے ہیں کیونکہ سی بی آئی کی چارج شیٹ میں ان کا بھی نام ہے۔محترمہ مارچ 2017 تک پنجاب نیشنل بینک میں چیئر مین اورمعاون مینجمنٹ ڈائریکٹر تھیں۔  نیرو مودی اسکینڈل کے بعد سے یہ سب ہو رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے پروبیشنری آفیسر کے لئے 2000 بھرتیاں نکالی ہیں۔  اس کے لئے تقریباً دس لاکھ درخواستیں آئی ہیں۔  8300 کلرک کے لئے 16.6 لاکھ درخواستیں آئی ہیں۔  کلرک کے لئے درخواست دینے والوں میں انجینئر اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں پی جی کئے طالب علموں کا حصہ 70 فیصد کے قریب ہے۔  بینکنگ کے امتحان کی تیاری کرنے والے کسی بھی طالب علم سے پوچھ لیجئے کہ پچھلے چار سال میں بھرتیوں کی تعداد میں کتنی گراوٹ آئی ہے۔  بہت کم نوکریاں آنے لگی ہیں۔

15 مئی کو ڈالر کے مقابلے میں ہندوستانی روپے کی قیمت 68.23 ہو گئی۔  جنوری 2017 کے بعد اب تک کی یہ سب سے بڑی گراوٹ ہے۔  اس سال ایشیا بھر میں سب سے خراب مظاہرہ ہندوستانی روپے کا ہی ہے۔  چین، جاپان، ملیشیا کی کرنسیاں مضبوط ہوئی ہیں۔  ہندوستانی روپے میں اب تک 6.2 فیصد کی گراوٹ آ چکی ہے۔  روسی روبل ان سے نیچے ہے۔

ملیشیا میں بھلےہی جی ایس ٹی ختم ہونے والی ہو، اس کی وجہ سے ساٹھ سال سے اقتدار میں جمی پارٹی کی وداعی ہو گئی مگر ہندوستان میں کاروباریوں نے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے بعد بھی بی جے پی کا استقبال کیا ہے۔  صرف ہندوستان میں یہ ٹرینڈ نیا دیکھنے کو مل رہا ہے۔  سورت کے کاروباری نوٹ بندی کے بعد جی ایس ٹی سے کافی تباہ ہوئے لیکن انہوں نے بی جے پی اور وزیر اعظم مودی میں اپنا اٹوٹ عقیدہ بنائے رکھا۔  اس تھیوری کو غلط ثابت کر دیا کہ جی ایس ٹی کے بعد ہونے والے انتخابات میں نافذ کرنے والی پارٹی ہار جاتی ہے۔  سورت سیاسی طور پر الگ سوچتا ہے۔  اقتصادی تباہی کو سیاست سے نہیں جوڑتا ہے۔  یہ دنیا کے ماہِر سماجیات کے لئے مطالعے کا موضوع ہونا چاہئے۔

بزنس اسٹینڈرڈ میں راجیش بھیانی نے لکھا ہے کہ سورت کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔  پولیسٹر  یارن کی قیمت میں 12 سے 15 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔  کمائی کم ہونے کی وجہ سے وہاں کے پاور لوم اور مزدوروں کے درمیان میٹنگ ہوئی ہے۔طے ہوا ہے کہ مشینیں اب تین شفٹ میں نہیں، دو شفٹ میں چلیں‌گی۔  ایک کمپنی کے افسر نے بتایا ہے کہ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد پیداوار میں 33 فیصدی  گراوٹ آئی ہے۔  ظاہر ہے مزدوروں کو کم کام مل رہا ہوگا۔  مزدور اور کاروباری دونوں پریشان ہوں‌گے۔

کانگریس کو جاکر وہاں نوٹس بنانی چاہئے۔  میں اس پر کئی بار لکھ چکا ہوں۔  گجرات انتخابات میں کئی صحافی سورت کی تباہی کو لےکر لکھنے لگے کہ یہ ناراضگی بی جے پی کو بھاری پڑے‌گی۔  کچھ سے کہتا رہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ تباہ ہو چکے ہیں مگر یہ غلط ہے کہ بی جے پی کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دیں‌گے۔  میں گجرات انتخابات میں تو نہیں گیا لیکن میری ہی بات صحیح نکلی۔ سورت دنیا کی پہلی مثال ہے جہاں اقتصادی تباہی کا سیاسی ووٹ میں تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  صحافیوں کو میری بات پر حیرانی ہوتی تھی، مجھے کاروباریوں نے ہی کہا تھا کہ وہ ووٹ کسی اور کو نہیں دے سکتے۔  بھلےہی جی ایس ٹی کے خلاف چاہیں جتنی ریلی کر لیں۔

دہلی میں پچھلے دو دنوں میں پیٹرول کی قیمتوں میں 32 پیسے کا اضافہ ہوا ہے۔  ڈیزل کے دام میں 43 پیسے کا۔  دہلی میں پانچ سال میں پیٹرول کبھی اتنا مہنگا نہیں ہوا تھا۔  دہلی میں پیٹرول 74.95 ر وپے فی لیٹر مل رہا ہے۔  کولکاتہ میں 77.65 روپے فی لیٹر، ممبئی میں 82.79 روپے فی لیٹر، چینئی میں 77.77 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔

کبھی پیٹرول سیاسی مدعا ہوا کرتا تھا۔  آج حزب اختلاف اس کو اٹھاتا بھی ہے تو پبلک اف نہیں کرتی۔  یہ بھی ایک پیمانہ ہے دیکھنے کا کہ سیاست پہلے سے کتنی بدلی ہے۔  یہ بھی صحیح ہے کہ ایک وقت میں دام بڑھنے پر نریندر مودی ٹوئٹ کیا کرتے تھے اور مدعا بھی بنتا تھا۔  اب وہ وزیر اعظم ہیں، دام بڑھتے ہی جا رہے ہیں، پھر بھی مدعا نہیں بنتا ہے۔  کرناٹک انتخابات کی وجہ سے 19 دن دام نہیں بڑھے۔  انتخاب ختم ہوتے ہی دام بڑھنے لگے۔  کیا یہ مدعا ہے، دعوے کے ساتھ کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔

ٹیلی کام سیکٹر سے کئی ہزار شاید لاکھوں میں نوجوان بےروزگار ہو گئے مگر کہیں کوئی اف تک سنائی نہیں دی۔  اب ہم یہ نہیں جانتے کہ ان کو پھر کام مل گیا یا پھر کیا ہوا۔  اعداد و شمار تک پہنچنا واقعی مشکل کام ہے۔  کچھ چیزوں کا تو پتا ہی نہیں چلتا ہے۔  کوئی جوان بتا دے کہ اس کی ریاست میں کون سی یونیورسٹی بہتر ہوئی ہے، مگر ان میں سے زیادہ تر کی پسند پوچھیں تو وہ بنا کسی کنفیوژن کے بی جے پی کا نام لیں‌گے۔  نوکری نہیں مل رہی ہے مگر پھر بھی ان کا نظریاتی لگاؤ بی جے پی سے ہے۔  حزب اختلاف کی جماعتوں کو یہی سیکھنا چاہئے جو ہمیشہ انتخاب کو اتحاد کے سہارے جیتنے ہارنے کے جگاڑمیں رہتے ہیں۔  سیاسی اور اقتصادی تعلق اتنے الگ کبھی نہیں ہوئے تھے۔  یہی نریندر مودی اور امت شاہ کی بڑی کامیابی ہے۔  دونوں نے اقتصادی ناکامی کو سیاسی ناکامی سے الگ کر دیا ہے۔  ان کے مخالفین اقتصادی مدعے اٹھاتے رہ جائیں‌گے مگر عوام مودی شاہ کے پیچھے چلے جائیں گے۔

(بہ شکریہ قصبہ)