خبریں

ممتاز ادیب اور مترجم محمد عمر میمن لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں یقین رکھتے تھے

گزشتہ سال شائع ہونے والی ان کی کتاب The Greatest Urdu Stories Ever Told  انگریزی حلقوں میں کافی پسند کی گئی تھی۔

Muhammad Memon, professor of Urdu language and editor of the Annual of Urdu Studies, in his Van Hise office. Memon reads from the book Divan-e Ghalib, a collection of 19th century Persian poet Mirza Ghalib's poetry in Urdu. ©UW-Madison University Communications 608/262-0067 Photo by: Michael Forster Rothbart Date: 01/02 File#: 0201-05c-06

فوٹو : بہ شکریہ وسکانسن یونیورسٹی

نئی دہلی: اردو  کے معروف  اسکالر ، مترجم ،شاعر ،فکشن رائٹر اور The Annual of Urdu Studiesکے  مدیر محمد عمر میمن کا سوموار کو 79 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔وہ یونیورسٹی آف وسکانسن میڈیسن (Wisconsin–Madison)میں 38 سالوں تک  اردو اور اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر رہے ۔ انھوں نے اس یونیورسٹی میں اردو، اسلامی مطالعات کے ساتھ ساتھ عربی  اور فارسی  پڑھائی۔ریٹائرمینٹ کے بعد بھی وہ لکھنے پڑھنے  کام کرتے رہے اور یہ سلسلہ انھوں نے تا حیات جاری رکھا۔

عمر میمن علی گڑھ میں 1939 میں پیدا ہوئے تھے۔6بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان کا بچپن کافی تنہا اور بے کیف  گزرا ہے‘۔ ان کا خاندان 1954 میں کراچی منتقل ہو گیا ،  جہاں انہوں نے بی اے اور ایم اے کی تعلیم مکمل کی۔انھوں نے سچل سرمست کالج اور سندھ یونیورسٹی میں بھی پڑھایا پھر 1964 میں فل برائٹ  اسکالرشپ ملنے پر امریکا چلے گئے وہاں ہارورڈ یونیورسٹی سے انھوں نے ماسٹرز  کی ڈگری حاصل کی۔عمر  میمن نے اسلامک اسٹدیز میں،University of California, Los Angeles سے ڈاکٹریٹ  کی ڈگری حاصل کی اور 1970 میں وسکانسن میڈیسن سے وابستہ ہو گئے۔

1989 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ تاریک گلی کے نام سے شائع ہوا۔ افسانے لکھنے کے علاوہ میمن نے تراجم کے کام خوب کیے ،جن میں انتظار حسین اور نیر مسعود کے انگریزی تراجم شامل ہیں۔ ان کی بیش بہا ادبی خدمات کو یاد کرتے ہوئے ایک بات کا ذکر یہاں ضروری ہے کہ  انھوں نے جس تواتر سے اینول  آف اردو  اسٹڈیز شائع کیا اور اس کے معیار کو برقرار رکھا ، وہ لائق تقلید ہے۔

ویڈیو : اینول اردو اسٹڈیز پر ایک تبصرہ

انگریزی داں طبقے میں   اردو ادب کو پیش کرنے کا جو اہتمام عمر میمن نے کیا ،اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ان کے تراجم فن فکشن نگاری کے نام سے ، 3 جلدوں میں موجود ہیں ۔انور سین رائے کے بقول ؛

ان تین جلدوں میں شامل انٹرویوز صرف اردو میں فکشن یا فکشن کی تنقید لکھنے والوں کے لیے ہی نہیں ادبی انٹرویو کرنے والوں کے لیے بھی بہت کام کے ہو سکتے ہیں اگر وہ پڑھنے پر بھی یقین رکھتے ہوں۔

اس میں بین الاقوامی سطح پر مشہور ادیبوں سے کیے گئے انٹرویوز کے تراجم شامل ہیں۔ آخری جلد میں انتظار حسین کا انٹرویو  بھی موجود  ہے ۔ ادب میں مترجم ، کہانی کار اور دانشور کے طور پر معروف ہیں۔ ان کے ترجموں کی فہرست طویل ہے ،اورکئی معنوں میں ترجمے کے میدان میں اردو دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ محمد عمر میمن لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں یقین رکھتے تھے۔

گزشتہ سال شائع ہونے والی ان کی کتاب The Greatest Urdu Stories Ever Told انگریزی حلقوں میں کافی پسند کی گئی ۔ اس کتاب میں میمن لکھتے ہیں کہ ؛

میں نے جب اپنے ایک دوست کو کہا کہ میں اردو کی خدمت کر رہا ہوں تو اس نے  مجھے کہا کہ یہ تمہاری خام خیالی ہے ۔اس نے کہا کہ میں صرف اپنی خدمت کر رہا ہوں ۔یہ سننا تلخ تھا لیکن یہ سچائی تھی ۔ہو سکتا ہے کہ میں دوسرو ں کی نظر میں اردو کی خدمت کر رہا ہوں لیکن میری سمجھ میں، میں صرف وہی کر رہا ہوں جو کرنے میں مجھے مسرت حاصل ہو رہی ہے۔

عمر میمن کی رحلت سے علمی اور ادبی حلقہ سوگوار ہے،معروف فکشن رائٹر حمید شاہد نے کہا ہے کہ ؛محمد عمر میمن ہمیشہ یاد رہیں گے۔انہوں نے میمن کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ؛بہت دکھی ہوں کہ امریکہ میں مقیم ممتاز سکالر، مترجم اور افسانہ نگار محمد عمر میمن، جن سے میرا بہت محبت کا رشتہ تھا،ہم میں نہیں رہے۔ممتاز فکشن نویس خورشید اکرم نے کہا ہے کہ؛بہت افسوس ناک خبر۔ مرحوم ابھی تو جوانوں کی طرح کام کر رہے تھے۔ جانے انہیں جانے کی کیا جلدی تھی۔ جانے خدا کو بلانے کی کیا جلدی تھی۔