فکر و نظر

کیا پرنب مکھر جی ہیرو بن گئے ہیں ؟

آر ایس ایس کے پروگرام میں پرنب مکھرجی کا حاضر ہو جانا ہی’ سب کچھ‘ ہے۔انہوں نے کیا بولا اور کیا نہیں ، اسکا کوئی مطلب نہیں۔سنگھ کوبس ان کی حاضری سے سروکار تھا۔سنگھ کو جو چاہئے تھا، اس نے حاصل کر لیا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

کل شام کو جب پرنب مکھرجی آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں تقریر کر رہے تھے، تب ہم میں سے بہتوں کو لگا ہوگا کہ دا دا ہیرو بن گئے۔کانگریس کو بھی ایسا ہی لگا ہوگا۔اور تو اور شاید پرنب مکھرجی کو بھی یہی گمان ہوا ہوگا کہ انہوں نے سب کا منہ بند کر دیا ،اور ہیرو بن گئے۔

تقریر سنتے ہوئے مجھے بھی ایک لمحے کے لئے لگا کہ دادا نے کمال کردیا۔ شاید آپ کو بھی یہی لگا ہوگا کہ دادا نے آر ایس ایس کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔ اور وہ بھی ا س کے گھر میں گھس کر۔ مگر…،اس اگر مگر کی کہانی میں بھی شاید سوال ہی رہ گئے ہیں جن کو ٹٹول کر ہم کچھ سنجیدہ باتیں کر سکتے ہیں۔

لہذا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مکھرجی نے واقعی ہیرو والا کام کیا ہے؟ شاید نہیں،آر ایس ایس کی محفل میں جاکر نیشنلزم پر لیکچر دینا ایک چیلنجنگ کام ضرور ہو سکتا ہے، مگر ایسا کر کے کوئی ہیرو نہیں بن سکتا۔آر ایس ایس کے کل والے پروگرام میں پرنب مکھرجی کا حاضر ہو جانا ہی’ سب کچھ‘ ہے۔انہوں نے کیا بولا اور کیا نہیں ، اسکا کوئی مطلب نہیں۔سنگھ کوبس مکھرجی کی حاضری سے سروکار تھا۔سنگھ کو جو چاہئے تھا، اس نے حاصل کر لیا۔

 گر چہ یہ بات سنگھ کے لوگ قبول نہیں کرتے ، مگر یہی سچائی ہے کہ آج بھی وہ crisis of legitimacy سے جوجھ رہے ہیں۔ دادا کی حاضری انہیں اس سے ابھرنے میں بہت مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ پرنب مکھرجی کو سنگھ کے پروگرام میں جانا چاہئے تھا یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں ہر گز نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ہندوستانیت کا تقاضا یہ ہےکہ ہم ’ڈائیلاگ‘ کو زندہ رکھیں۔بائیکاٹ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔میں بھی یہ مانتا ہوں کہ بات چیت بند نہیں ہونی چاہئے۔ مگر اس ضمن میں اس دلیل کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

آرایس ایس کے پروگرام میں پرنب مکھرجی کی شرکت کو اس دلیل کے سہارے جائز ٹھہرا نا چالاکی ہے، اور کچھ نہیں۔ ایسی آئیڈیا لوجی جو سرے سے ہمارے آئین میں یقین نہیں رکھتی ہو، ہم اس سے ڈائیلاگ تو کر سکتے ہیں، مگر اسے کسی بھی صورت میں ’جواز‘ فراہم نہیں کرسکتے۔ پرنب مکھرجی نے اپنی شرکت سے سنگھ کو یہی انعام بخشا ہے۔

دادا نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں، وہ بلا شبہ سنگھ کی آئیڈیا لوجی سے میل نہیں کھاتی۔آپ انکی باتوں کا کچھ حصہ ملاحضہ کریں:

’’ہندوستان کی روح تکثیریت (pluralism) میں پنہاں ہے۔ رواداری ہماری طاقت ہے۔ ہم اپنی تکثیریت کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ ہمارے لئے یہ قابل احترام بھی ہے۔اگر ہم اپنی قومیت کومذہبی یا علاقائی پہچان کے چشمے سے دیکھتے ہیں، تو اسکا مطلب ہو ا ہم اپنی قومی شناخت کو مجروح کر رہے ہیں۔ اگر ہماری قومیت میں نفرت اورعدم رواداری کا ذرہ برابر بھی عنصر ہے، تو اسکا مطلب ہوا ہم اپنی قومی شناخت کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ہندوستانی نیشنلزم ایک زبان اور ایک مذہب کا نام نہیں ہے۔پورے ملک میں 122زبانیں اور1600بولیاں بولنے اور لکھنے پڑھنے والے لوگ رہتے ہیں۔یہاں سات بڑے مذاہب کے ماننے والے لوگ بستے ہیں۔مگر سب ایک مجموعی شناخت کے دھاگے میں بندھے ہیں۔‘‘

پرنب مکھرجی کی یہ باتیں سننا سنگھ کے عہدہ داروں کے لئے کتنا مشکل رہا ہوگا، سمجھنا آسان ہے۔ مگر یہی بات غور کرنے کی ہےکہ کیا انہیں اس بات کا اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ مکھرجی انکے پروگرام میں ایسی باتیں بول سکتے ہیں، اور انہیں شرمندگی کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ٹھہر کے سوچئے، سب سمجھ آ جا ئے گا۔مکھر جی کی مندرجہ بالا باتیں کتنی جلدی آئی گئی ہو جائیں گی آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ دادا نے سب کچھ بول کر بھی ہیڈگیوار کو ’بھارت کا مہان سپوت‘ کہہ دیا۔ اس سے زیادہ سنگھ کو اور کیا چاہئے تھا۔ دادا سنگھ کے گان اور جھنڈا تولن کے وقت با ادب کھڑے رہے۔وہ گیت جس میں ہندو راشٹرا کی بات ہے۔دادا نے اپنی شرکت سے ان سیکڑوں کارکنوں کی عزت افزائی بھی کی کی جنہوں نے اپنی ’ٹریننگ‘ پوری کی تھی۔

ایسی صورت میں سنگھ کے خلاف جو لڑائی ہے، اس میں ہمارے ’ہندو لبرلز ‘ کی ایمانداری پر شک کرنا اب  لازمی ہوگیاہے۔ایسا معلوم پڑتا ہے، مذہب کہیں نہ کہیں بیچ میں آ ڑے آ رہا ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ہندوتوا کا مقابلہ سیکولرزم سے نہیں سافٹ ہندوتوا سے کیا جا تا ہے۔ آ پ نے دیکھا ہی ہوگا، جب مودی مندر جاتے ہیں تو  راہل گاندھی بھی پیچھے لگ جاتے ہیں۔ سیاسی لڑائی میں مذہب کا موہ ہمیں کھائے جا رہا ہے۔ پرنب دا بھی شاید اسی موہ کے شکار ہو گئے۔