ویڈیو: کچھ دن پہلے آر ایس ایس نے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں پتھ سنچالن کا ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔ اس پر کئی طلبہ تنظیموں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ جے این یو کے بعد اب آر ایس ایس نے دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں بھی مارچ نکالا ہے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے 20 اکتوبر کو دہلی یونیورسٹی سے منسلک سوامی شردھانند کالج میں طالبعلموں کے درمیان نظریات کی تشہیر کے لیے ایک شاکھا کا اہتمام کیا تھا۔ لکشمی بائی کالج کے ایک فیکلٹی ممبر نے بتایا ہے کہ ستمبر سے ان کے کیمپس میں آر ایس ایس نے کئی شاکھائیں کی ہیں۔
کیرالہ کے تراونکور دیواسووم بورڈ نے ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مندروں کے تہواروں اور رسومات کے علاوہ اس کے احاطے کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور جو اہلکار اس حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہیں گے، انہیں سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے صدر اور کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد نے کہا تھا کہ ہندوستان میں تمام مسلمان اصل میں ہندو تھے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ آزاد کے تبصرے خطرناک اور تفرقہ انگیز ہیں۔
راہل گاندھی نے کہا کہ جب ملک کو تکلیف ہوتی ہے،کسی شہری کو تکلیف ہوتی ہےتوآپ کا دل بھی دکھتا ہے، لیکن بی جے پی-آر ایس ایس کے لوگوں کوکوئی دکھ نہیں، کیونکہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا منی پور سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے نظریے نے منی پور کو جلایا ہے۔
گزشتہ جون میں جلگاؤں ضلع کلکٹر کی جانب سے من مانے ڈھنگ سے ایک حکم نامہ جاری کرنے کے کچھ دنوں بعدمسلم کمیونٹی کو 800 سال پرانی جمعہ مسجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
الزام ہے کہ 10 جولائی کو ہری دوار میں کانوڑیوں کے ایک گروپ نے ایک کار میں توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ہی اس کے ڈرائیور کے ساتھ مارپیٹ بھی کی، کیونکہ ان کی کار غلطی سےایک کانوڑ سے ٹکرا گئی تھی۔ کار ڈرائیور نے بتایا کہ وہ بی جے پی آر اور ایس ایس کے ممبر ہیں اور کالی ٹوپی پہننے کی وجہ سے حملہ آوروں نے انہیں مسلمان سمجھ لیا تھا۔
مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے ایرنڈول تعلقہ میں واقع جمعہ مسجدوقف بورڈ کی جائیدادکے طور پررجسٹرڈ ہے، جس کے بارے میں دائیں بازو کے شکایت کنندہ کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو عبادت گاہ کی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ کلکٹر کی جانب سے دفعہ 144لاگو کرتے ہوئے احاطے میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کرنے کے احکامات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس کثیر لسانی اورکثیر المذاہب ملک میں صلح، مفاہمت،ہم آہنگی اور امن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،اس اہم نکتے کو اکبر کے زمانے میں یعنی سولہویں صدی میں ہی سمجھ لیا گیا تھا، پھر اس کو آج کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد شائع ہونے والے ایک شمارے میں آر ایس ایس سے وابستہ میگزین ‘دی آرگنائزر’ نے کہا ہے کہ بی جے پی کے لیے اپنی صورتحال کا جائزہ لینے کا یہ صحیح وقت ہے۔ علاقائی سطح پرمضبوط قیادت اور مؤثر کام کے بغیر وزیر اعظم مودی کا کرشمہ اور ہندوتوا الیکشن جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
ویڈیو: 28 مئی کو دہلی کے شہباز ڈیری علاقے میں ایک لڑکی کو سرعام قتل کر دیا گیا۔ ملزم ساحل کو پولیس نے اگلے دن یوپی سے گرفتار کیا تھا۔ اب علاقے کے لوگوں اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں نے علاقے کے لوگوں کو فرقہ وارانہ طور پر اکسانے کی کوشش کی۔
جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے سال 2019 میں پلوامہ حملے کو لے کر ایک بار پھر مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کی جانچ ہوئی ہوتی تو اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو استعفیٰ دینا پڑتا۔
جموں و کشمیر میں ریلائنس انشورنس اسکیم میں رشوت ستانی اور بدعنوانی سےمتعلق سابق گورنر ستیہ پال ملک کے الزامات کے سلسلے میں سی بی آئی نے نو مقامات پر چھاپے مارے ہیں، جس کے دائرے میں ملک سے وابستہ افرادبھی شامل ہیں۔ ملک کا کہنا ہے کہ جن کی شکایت کی،ان سے کچھ نہیں پوچھ رہے ہیں۔ وہ ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں۔
ٹیبلائڈ ‘ڈیلی میل’ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگست 2022 میں لیسٹر شہر میں بھڑکے دنگوں میں برطانوی ہندوؤں کو مسلم نوجوانوں سے الجھنے کے لیے اکسانے کا شبہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریبی عناصر پر ہے۔ اس وقت مسلمانوں اور ان کے گھروں پر حملوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے مندروں اور گھروں پر حملے اور توڑ پھوڑ کی خبریں آئی تھیں۔
ویڈیو: جموں و کشمیر کے گورنر کے طور پر اپنے دور میں ستیہ پال ملک نے الزام لگایا تھا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ امبانی اور آر ایس ایس سے وابستہ ایک شخص کی دو فائلوں کو منظوری دے دیں تو انہیں 300 کروڑ روپے رشوت کے طور پر ملیں گے، لیکن انہوں نے سودوں کو رد کر دیا تھا۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے انہیں سمن جاری کیا ہے۔
آڈیو: اسکول کی نصابی کتابوں میں این سی ای آر ٹی کی طرف سے کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں سینئر مؤرخ مردلا مکھرجی نے کہا کہ ہندوتوادی حکومت نے مختلف تعلیمی اداروں میں ایسے لوگوں کی تقرری کی ہے، جو اس کے نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھا سکیں۔
اکتوبر 2021 میں ستیہ پال ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ جب وہ جموں و کشمیر کے گورنر تھے، تب آر ایس ایس کے ایک سینئرعہدیدار نے انہیں ‘امبانی’ سے متعلق دو فائلوں کومنظوری دینے کے لیے 300 کروڑ روپے کی رشوت کی پیشکش کی تھی۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے آر ایس ایس کے اس عہدیدار کا نام رام مادھو بتایا تھا۔
این سی ای آر ٹی نے مہاتما گاندھی، ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے اور آر ایس ایس پر 1948 میں لگی پابندی سے متعلق مواد کوبارہویں جماعت کی سیاسیات اور تاریخ کی کتابوں سے ہٹا دیا ہے۔ اس پر مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے کہا کہ کتابوں سے اس طرح کے مواد کو ہٹانے سے ‘سنگھ پریوار کی غلط معلومات کی مہم’ کو مزید قبولیت ملے گی۔
نیشنل الائنس آف جرنلسٹس اور دہلی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ ‘ہندوستان سماچار’ سےآکاش وانی اور دوردرشن کو خبریں فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ یہ قدم حکمراں جماعت کے حساب سے ہندوستان میں خبروں کا بھگوا کرن کر ے گا اور آزاد صحافت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا نے کہا ہے کہ گزشتہ تین دنوں میں لوک سبھا اسپیکر اوم بڑلا نے صرف بی جے پی کے وزراء کو بولنے کی اجازت دی اور پھر پارلیامنٹ کو ملتوی کردیا، انہوں نے اپوزیشن کے کسی بھی رکن کو بولنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح کے الزامات لگاتے ہوئے کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے بھی بڑلا کو خط لکھا ہے۔
مغربی دنیا بشمول امریکہ کو احساس ہے کہ ہندوستان میں جمہوری قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے، مگر یہ اس وقت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم مہرا ہے، اس لیے اس کو پریشانی سے بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے بڑی حد تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ویڈیو: کانگریس لیڈر راہل گاندھی اس وقت برطانیہ کے دورے پر ہیں اور انہوں نے وہاں مختلف پروگراموں میں مودی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کے بیانات کو لے کر ملک میں بی جے پی لیڈر کانگریس پر حملہ آور ہیں۔ ان الزام تراشیوں کے بارے میں تفصیل سے بتا رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے لندن میں منعقدہ ایک پروگرام میں آر ایس ایس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں جمہوری مسابقت کامزاج پوری طرح سے بدل چکا ہے۔ اس کی وجہ آر ایس ایس نامی آرگنائزیشن ہے۔ اس انتہا پسند اورفسطائی تنظیم نے ہندوستان کے تقریباً تمام اداروں پر قبضہ کر لیاہے۔ پریس، عدلیہ، پارلیامنٹ اور الیکشن کمیشن سب خطرے میں ہیں۔
آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس پانچ جنیہ کے اداریے میں مدیر ہتیش شنکر نے سپریم کورٹ پر حملہ کرتے ہوئےلکھا ہے کہ سپریم کورٹ ہندوستان کی ہے جو ہندوستان کے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے چلتی ہے۔ اس سہولت کی تشکیل ہم نے اپنے ملکی مفاد کے لیے کی ہے، لیکن یہ ہندوستان مخالف قوتوں کے اپنا راستہ صاف کرنے کی کوششوں میں ایک اوزار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل پولیس اور انسپکٹر جنرل کی میٹنگ میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے بھی شرکت کی تھی۔ یہاں ریاستوں کے سب سے بڑے پولیس افسران خبردار کر رہے تھے کہ ہندوتوا دی ریڈیکل تنظیمیں ملک کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ تاہم جیسے ہی یہ خبر باہر آئی، اس رپورٹ کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے معاملے کو عدالتی کارروائی پر چھوڑنا مناسب ہے۔لیکن تاریخ نگاری ان کے قتل کے پیچھے چھپے نظریہ کو پکڑنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں سنگھ کے ماؤتھ پیس‘آرگنائزر’ اور ‘پانچ جنیہ’ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایل جی بی ٹی کیو + کمیونٹی کی حمایت میں مہابھارت کے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئےتبصرہ کیا تھا۔ اسے ہندو مخالف بتاتے ہوئے بھاگوت کے خلاف مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہندو سماج جنگ میں ہے، اس لڑائی میں لوگوں میں شدت پسندی دیکھنے کو ملے گی۔ان کے اس بیان پردہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہندوستان ، ہندوستان بنا رہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ رہنا چاہتے ہیں، رہیں۔ آباؤ اجداد کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں، آئیں۔ انہیں بس یہ سوچ ترک کرنی ہوگی کہ ہم کبھی بادشاہ تھے، پھر سے بادشاہ بنیں۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ اس طرح کے رجحان والے لوگ ہمیشہ سےتھے، جب سے بنی نوع انسان کاوجود ہے۔ یہ حیاتیاتی ہے، زندگی کا ایک طریقہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی پرائیویسی کا حق حاصل ہو اور وہ محسوس کریں کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔
مغلوں اور سکھ رہنماؤں کے درمیان تصادم ہوا، لیکن سکھوں نے آج اس حقیقت کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی سیاست کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ بات آر ایس ایس اور بی جے پی کو پریشان کرتی رہی ہے۔ وہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ گرو گوبند سنگھ یا گرو تیغ بہادر کو یاد کرتے ہیں۔ ارادہ انہیں یاد کرنے کا جتنا نہیں، اتنا مغلوں کی’ بربریت’ کی یاد کو زندہ رکھنے کا ہے۔
بجرنگ دل کے ارکان نے جمعہ کے روز ہریانہ کے گڑگاؤں کے سیکٹر- 69 میں کھلے میں ہو رہے نماز میں خلل ڈالا، جس کی وجہ سے نماز ادا کر رہے 100لوگوں کے ایک گروپ کو وہاں سے جانے پر مجبور ہونا پڑا۔ سال 2021 میں ضلع انتظامیہ نے اس جگہ کو نماز کی ادائیگی کے لیے چھ کھلے مقامات میں سے ایک کے طور پر نشان زد کیا تھا۔
ویڈیو: 400 سال پرانی بابری مسجد کا انہدام ملک کی سیاست کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے۔ اس انہدام کے 30 سال مکمل ہونے پر اس بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
آر ایس ایس، ایچ ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اب 48 ممالک میں سرگرم ہیں۔ امریکہ میں ایچ ایس ایس نے 32 ریاستوں میں 222 شاکھائیں قائم کی ہیں۔کیا وقت نہیں آیا ہے کہ مغرب کو بتایا جائے کہ جس فاشزم کو انہوں نے شکست دی تھی، وہ کس طرح ا ن کی چھتر چھایا میں دوبارہ پنپ رہا ہے اور جلد ہی امن عالم کے لیے ایک شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ میگزین آرگنائزرنے اپنے تازے شمارے کی کور اسٹوری میں ای– کامرس کمپنی ایمیزون پر ہندوستان کی شمال–مشرقی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے فنڈنگ مہیاکرنے کا الزام لگایا ہے۔ کمپنی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے آر ایس ایس لیڈروں کی زبان بدلی بدلی سی نظر آ رہی ہے، لیکن تبدیلی سنگھ کے ایجنڈے کا حصہ کبھی نہیں رہی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سنگھ نے ‘غیر سیاسی ہونے کی سیاست’ کرتے ہوئے اپنے سویم سیوکوں کو اقتدار کی چوٹی تک پہنچایا ہے اور کیسے وہ جمہوری اور آئینی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
ہندوستانی تارکین وطن کی سیاست اب ہندوستانی صورت حال کا ہی عکس ہے۔ وہی پولرائزیشن، وہی سوشل میڈیا مہم، وہی سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور وہی تشدد۔ اختلاف تو دور کی بات ، کسی دوسرےنظریے کو برداشت بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔
سال 1995 کے بعد 2020 میں تمام برادریوں میں مسلم خواتین کی برتھ ریٹ میں سب سے تیز گراوٹ درج کی گئی۔ نتیجتاً ان کی آبادی میں اضافے کی شرح میں بھی کمی آئی۔ ایک سیاسی پروپیگنڈہ کے تحت مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی بات کرتے ہوئے خوف اور اندیشہ پیدا کر کے ہندوؤں کو پولرائزکیا جا رہا ہے۔
موہن بھاگوت نے کسی بھی برادری کا نام لیے بغیر ملک میں برادریوں کے درمیان آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن پرتشویش کا اظہارکیا۔ سنگھ شروع سے ہی اشاروں میں بات کرتا رہا ہے۔ اس سے وہ قانون کی گرفت سے بچتا رہا ہے۔ ساتھ ہی اشاروں کی زبان کی وجہ سے دانشور حضرات بھی ان کے دفاع میں کود پڑتے ہیں، جیسا کہ اس وقت سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کر رہے ہیں۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوس بولے نے کہا کہ ہمیں اس بات کا دکھ ہونا چاہیے کہ 20 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے ہیں اور 23 کروڑ لوگ یومیہ 375 روپے سے بھی کم کما رہے ہیں۔ غریبی ہمارے سامنے ایک قوی ہیکل دیو کی طرح چیلنج بن کر کھڑی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس شیطان کو ختم کیا جائے۔