ادبستان

ناگپوری بولی کے مقبول گلوکار عزیز انصاری، مفلسی کے شکار

 عزیز انصاری نے ناگپوری بولی میں تقریباً 4ہزار  نغمے لکھے اور گائے۔ان کے ٹھیٹ اور قدیم ناگپوری نغمات میں گاؤں کا دردوغم ہے تو مقامی تہذیب کی خوشبو بھی ہے۔ خیرسگالی کے پیغام ہیں تو سماجی برائیوں پر طنز بھی۔

فوٹو: محمد اصغر خان

فوٹو: محمد اصغر خان

ناگپوری بولی میں آج بھی جب عزیز انصاری کی آواز رانچی کے آکاش وانی پر سنائی دیتی ہے تو گاؤں قصبوں میں لوگوں کی آنکھیں ڈبڈباجاتی ہیں۔  ساتویں پاس 65 سالہ عزیز انصاری ناگپوری نغمہ نگار اور گلوکار  ہیں ۔قابل ذکر بات یہ کہ انہوں نے آج تک دوسروں کے لکھے ہوئے گانے نہیں گائے ۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے عزیزانصاری اپنے لکھے مقبول رخصتی  کے بارے میں کہتے ہیں؛

گیت میں ماں اور بیٹی کے درمیان سوال جواب ہو رہا ہے۔بیٹی روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ آج میں سسرال چلی جاؤں‌گی، اور آج سے ہی میرا میکے چھوٹ جائے‌گا۔ اس پر ماں کہتی ہے کہ پوس پال‌کر اتنا بڑا کیا۔اپنا پیٹ کاٹ‌کر تم کو کھلایا۔آج تم میری نظروں سے دور جا رہی ہو۔

عزیز انصاری آگے بتاتے ہیں کہ ؛

ان کو اس طرح کے نغمے کا خیال گاؤں کی شادیوں میں رخصتی یعنی وداعی والے لمحے کو دیکھ‌کر آیا تھا۔

انہوں نے ناگپوری زبان میں اسی طرح کے تقریباً 4ہزار گانے لکھے اور گائے۔غور طلب ہے کہ خدا داد صلاحیت کے مالک  عزیز انصاری نے ناگپوری میں نغمہ لکھنا اور گانا کسی سے نہیں سیکھا۔  گاؤں میں باپ اور دو بھائیوں  کے ساتھ جو مفلسی اور غریبی جھیلی اور دیکھی اس کو قلمبند کرتے گئے اور ہندی میں ناگپوری بول سے فضا میں مٹھاس گھولتے گئے۔ان کے ٹھیٹ اور قدیم ناگپوری نغمات میں گاؤں کا دردوغم ہے تو مقامی تہذیب کی خوشبو بھی ہے۔ خیرسگالی کے پیغام ہیں تو سماجی برائیوں پر طنز بھی۔

ویڈیو : عزیز انصاری کی کہانی ، خود ان کی زبانی 

ساتھ میں کئی پروگرام کر چکے ہیں شہاب الدین انصاری بتاتے ہیں کہ عزیزانصاری نے جھارکھنڈ کے بننے پر جو نغمہ لکھا اور گایا تھا اس پرآج بھی آکاشوانی میں باتیں ہوتی ہیں۔شہاب الدین مزید کہتے ہیں کہ ؛اس طرح کے گانوں میں انہوں نے ریاست کی معدنیاتی ثروت مندی ،خیرسگالی ، تہذیب اور انقلاب کی جدوجہد کو ایک ساتھ سمیٹا ہے۔ان کا یہ خاص نغمہ آج بھی آل انڈیا ریڈیو پر بجتا ہے۔

28 سال کی عمر میں ہی عزیزکی سریلی آواز نے 80 کی دہائی میں گاؤں سے ریڈیو-ٹی وی تک کا سفر طے کر لیا۔لوگوں نے ریڈیو پر  36 راگوں میں ان کے سینکڑوں گیت سنے۔ عزیز کی اس صلاحیت کو دیکھ کر حکومت ہند کے وزارتِ اطلاعات و نشریات نے 1998 ان کو رجسٹرڈ لوک گایک کا درجہ دیا۔لیکن ان کی پہچان آج تک گاؤں کے کھپریل گھر کی حد تک ہی سمٹی رہی۔اس پر اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے عزیز کہتے ہیں؛

ان سب کے باوجود بھی مجھے ریاستی حکومت کا انعام نظرانداز کرنے والے رویےکے طور پر ملا۔یہی وجہ رہی کہ میں نے 2012 کے بعد ریڈیو-ٹی وی پر گانے-بجانے کو الوداع کہہ دیا ہے۔

فوٹو: محمد اصغر خان

فوٹو: محمد اصغر خان

جھارکھنڈی عوامی گلوکار عزیز انصاری گزشتہ کئی سالوں سے رانچی سے 20 کلومیٹر دور رانچی ضلع کے راتو بلاک کے ہرہری گاؤں اپنی فیملی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کو اس بات کا افسوس آج بھی ہے کہ سینکڑوں نغمہ گانے کے باوجود بھی ان کو پہچان نہیں مل پائی۔

عزیز انصاری کی آواز اور ان کی صلاحیت کے قائل پدم شری عوامی گلوکار-رقاص مکُند نایک اور مدھو منصوری جیسے مقبول عام فنکار بھی ہیں۔  مُکند نایک، عزیز انصاری کو بےمثال بتاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں؛

ان کے گائے ناگپوری نغمات پر آج بھی گاؤں میں لوگ جھوم اٹھتے ہیں۔ ان کے ساتھ میں نے کئی پروگرام کیا ہے جو میرے لیے خوشگوار لمحوں میں سے ہے۔

وہیں عزیز انصاری اپنی بات-چیت میں بتاتے ہیں کہ ؛

میں مکند نایک سے پہلی بار 1987 میں ایک پروگرام کے دوران ملا تھا۔انہوں نے اساڑھ سے متعلق میرے  نغمے کی نے بہت پذیرائی کی تھی۔اس کے بعد سے اکثر ان سے رانچی ناگپوری کلا سنگم میں ملاقات ہونے لگی۔

قلمکاراشونی پنکج عزیز  انصاری کے  بارے میں  کہتے ہیں کہ؛

یہ جھارکھنڈ کی وراثت ہیں۔مہاویر نایک، مدھو منصوری اور عزیز  انصاری جیسے فنکار ویڈیو البم اور نئی ٹکنالوجی کی وجہ سے سمٹتے جا رہے ہیں۔  ان کے میٹھے بول کو تاریخ کے صفحات میں سنجوئے رکھنے کی ضرورت ہے۔

رانچی کانکے بلاک کے گاگی گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر میں جب کبھی والد غلام رسول انصاری لوگوں کے ساتھ غزل یا شاعری پڑھا کرتے، تب 13 سال کے عزیز انصاری ان کی جماعت میں شامل ہو جاتے۔ان کو سن‌کی ان لائنیں دوہرانے لگتے۔بچپن سے ہی نغمہ و موسیقی کی طرف جھکاؤ دیکھ کروالد، عزیز کو اکثر پروگرام میں ساتھ لے جاتے۔بات 74-1972کی ہے اور اب عزیز کی عمر قریب 17، وہ شادی بیاہ میں بجنے والے ناگپوری نغمہ پورے دل سے سنتے اور گنگناتے۔  عزیز  اپنی کہانی سناتے ہوئے آگے کہتے ہیں؛

ان کو بچپن سے ہی ناگپوری گیت گانے اور لکھنے کا کابھی شوق تھا۔ایک بار بچپن میں دوستوں کے ساتھ مڈھما میلہ میں گیا تو وہاں ناگپوری گانوں کی کتاب کو دکاندار گاکر بیچ رہا تھا۔  دل کیا کہ ڈھیر ساری کتابیں خرید لوں۔لیکن پاس میں ایک کتاب کا بھی پیسہ نہیں تھا۔اس دن سے میرا دل ناگپوری گیتوں کی طرف اور مضبوطی سے مائل ہو گیا۔اس کے بعد سے ہی دل ہی دل جیسےتیسے اپنے ہی بول بناکر گانے لگا۔

فوٹو: محمد اصغر خان

فوٹو: محمد اصغر خان

عزیز کے لکھنے اور گانے میں آہستہ آہستہ کچھ اصلاح ہوا تو گاؤں میں ان کا ذکر ہونے لگا۔ اب وہ گاؤں، اسکول میں بےجھجک گاتے تھے۔ایک بار گاؤں میں نگڑی ہائی اسکول کے استاد آئے ہوئے تھے،جنہوں نے عزیز کو گاتے سن کر اپنے اسکولی بچوں کو تربیت دینے کی دعوت  دی۔عزیز انصاری کہتے ہیں کہ ؛

اسی ٹیچر کی مدد سے پہلی بار ایمرجنسی میں (1977) میں، میں نے دو کتاب لکھی اور اس کی1000 کاپیاں چھپوائیں۔17 روپے کے اس چھپائی سے مجھے پانچ سو روپے کی آمدنی ہوئی۔ نام، شہرت اور پہچان الگ۔  حالانکہ بعد میں میں نے ناگپوری نغمے پر ایک کتاب بھی لکھی جو کافی مقبول ہوئی۔

ان سب کے درمیان عزیز انصاری کو لوگ عوامی گلوکار کے روپ میں جاننے لگے تھے۔  انصاری بتاتے ہیں کہ اسی دوران ڈرامہ نگار اور گلوکار شہاب الدین انصاری سے میری ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے آل انڈیا ریڈیو رانچی میں درخواست دیا۔آڈیشن کے بعد ہم لوگوں کا انتخاب ہو گیا۔ اور اس طرح 1983 میں، میں نے پہلی بار آل انڈیا ریڈیو میں اپنا ہی لکھا ہوا نغمہ گایا۔

لیکن یہ سب تو گزرے ہوئے کل کی داستانیں ہیں آج کی سچائی یہی ہے کہ یہ فن کار مفلسی اور گمنامی کی زندگی بسر کررہا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ریاستی حکومت اور لوک ورثے میں دلچسپی رکھنے والے ادارے ان کی خبر لیں تاکہ مستقبل کے کسی عزیز انصاری کو گمنامی میں جینا نہ پڑے اور ان کا فن زندہ رہے۔