فکر و نظر

رویش کا بلاگ : لگتا ہے سری سری روی شکر نے اقتصادیات میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا ہے

اب تک ہندوستانی روپے کا ریکارڈ 28 اگست 2013 کا بتایا جاتا ہے جب ایک ڈالر کی قیمت 68 روپے 83 پیسے ہو گئی تھی۔  بدھ کو یہ 68 روپیے 63 پیسے ہو گئی۔  آج 69 روپیہ ہو گیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔  (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

شری شری روی شنکر کا ایک پرانا ٹوئٹ انٹرنیٹ پر گھومتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ جان‌کر ہی تازگی آ جاتی ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ایک ڈالر کی قیمت 40 روپے ہو جائے‌گی۔  نریندر مودی کے وزیر اعظم بنے 4 سال سے زیادہ ہو رہے ہیں اور روپیہ کبھی 40 کے آس پاس نہیں پہنچا۔اس بات کو لےکر کسی کو افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔  یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ آپ عوام سے جھوٹ بھی بولیں اور کرکے بھی دکھا دیں۔  بس اتنا دھیان میں رکھیں کہ انتخابی سال میں لوگ کیسی-کیسی حماقت بھری باتیں کرتے ہیں اور لوگوں کو الو بھی بنا لیتے ہیں۔  ویسے اگر روی شنکر کچھ کر سکتے ہیں تو ان کو کرنا چاہیے تاکہ امریکہ اور چین کے چکر میں ہندوستانی روپیہ اور نہ لڑھک جائے۔

ابھی تک ہندوستانی روپے کا ریکارڈ 28 اگست 2013 کا بتایا جاتا ہے جب ایک ڈالر کی قیمت 68 روپے 83 پیسے ہو گئی تھی۔  بدھ کو 68 روپے 63 پیسے ہو گئی۔  آج 69 روپیہ ہو گیا ہے۔اس طرح سے مودی کی حکومت میں روپیہ منموہن کی حکومت سے بھی کمزور ہو چکا ہے۔  امکان ہے کہ رام دیو اور روی شنکر کو شرمندہ ہونا پڑ رہا ہوگا۔ اس لئے دونوں کو بولنا چاہیے کہ وزیر اعظم مودی کی وجہ سے ان کی زبان خالی جا رہی ہے۔

تب دونوں اقتصادی معاملے میں کتنی دلچسپی لیتے تھے، بحران تو وہی ہے، پھر اچانک سے کیوں منھ موڑ لیا ہے، یہ ملک کی معیشت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔’ وزیر اعظم بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ ہم ایران کو لےکر کہاں کھڑے ہیں۔  ان کو اس پر سوال نہیں کیا نہ اس کی تنقید کی۔ وہ سمجھ گئے ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلق مضبوط ہیں اور اہم ہیں اور ان کو بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔  ‘

وزیر اعظم مودی کے بارے میں اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی کا بیان توجہ سے پڑھیے۔  کتنے پیار سے خبردار  کر رہی ہیں۔  ہندوستان کے دورے پر آئیں ہیلی نے صاف صاف کہا ہے کہ ہندوستان کو ایران سے تیل کی در آمد بند کرنا پڑے‌گی۔ہندوستان ایران سے کافی مقدار میں کچے تیل کی در آمد کرتا ہے۔  سستا بھی پڑتا ہے۔  چابہار میں بندرگاہ بھی بنا رہا ہے جو ہندوستان کے لئے اہم ہے۔ امریکہ نے اتنا کہا ہے کہ وہ یہ دیکھے‌گا کہ چابہار پورٹ کو استعمال کر سکتا ہے مگر نومبر کے بعد سے امریکہ ایران پر پابندی کو لےکر سنجیدہ ہو جائے‌گا۔  اگر ایسا ہوا تو ہندوستان کے لئے نیا چیلنج کھڑا ہوگا۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

انڈین ریزرو بینک کی مالی رپورٹ (FSR) آئی ہے۔  اس میں بینکوں کے لون کے این پی اے میں بدلنے کو لےکر پھر سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اگر سب کچھ ایسا ہی چلتا رہا تو مارچ 2019 تک تمام بینکوں کا این پی اے ان کے دئے گئے لون کا 12.2 فیصد ہو جائے‌گا۔اگر ایسا ہوا تو 2000 کے بعد یہ سب سے زیادہ ہوگا۔  ویسے عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے این پی اے 13.3 فیصد تک بھی جا سکتا ہے۔

بزنس اسٹینڈرڈ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اس کو دیکھ‌کر نہیں لگتا کہ این پی اے کو کم کرنے کے جو بھی تدابیر کئے گئے ہیں ان کا کچھ اثر ہوا ہے۔  آپ کو یاد ہو کہ وزیر خزانہ نے بینکوں کو بچانے کے لئے کئی ہزار کروڑ کے پیکیج دینے کی بات کہی تھی اور دیا بھی گیا ہے۔دیوالیہ اور انضمام کو لےکر جو نیا قانون بنا ہے اس کا بھی اس بحران کو کم کرنے میں بہت شاندار ریکارڈ نہیں ہے۔  نیشنل کمپنی لا ٹریبونل میں706 معاملے ہیں جن میں سے ابھی تک 176 کا ہی حل ہوا ہے۔  جس اسکیل کا یہ بحران ہے اس کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا ہے کہ یہ سب قدم کافی ہوں‌گے۔  ایسا بزنس اسٹینڈرڈ نے لکھا ہے۔

27 جون کے بزنس اسٹینڈرڈ میں ایک خبر چھپی ہے جس پر دھیان جانا چاہیے۔  چین نے لنکا کو قرض دے دےکر وہاں اپنی گھس پیٹھ  بنا لی ہے۔  چین نے لنکا کے ہمبن توتا میں بندرگاہ بنانے کے لئے قرض دیا ہے۔ہندوستان کو اس کے عملیات پر شک تھا اس لئے قرض نہیں دیا تھا۔  چین اب لنکا پر قرض چکانے کا دباؤ بنانے لگا۔  یہ حالت ہو گئی کہ لنکا نے 99 سال کے لئے بندرگاہ اور 15000 ایکڑ زمین لیز پر دے دی ہے۔تاریخ میں انہی راستوں سے ملکوں پر قبضے ہوئے تھے۔  بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔  اب اس بندرگاہ پر چین کا اختیار ہو گیا ہے۔  ظاہر ہے لنکا کے سامنے ہندوستان ہے تو ہندوستان کو فکر کرنی پڑے‌گی۔