فکر و نظر

گراؤنڈ رپورٹ : جینت سنہا کا ماب لنچنگ کےمجرموں کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟

گراؤنڈ رپورٹ :جھارکھنڈ کے رام گڑھ میں  گزشتہ سال گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں ہوئے علیم الدین انصاری کے قتل کے ملزموں کو ‘انصاف ‘دلانے کی جینت سنہا کی مہم کے بیج ہزاری باغ میں سنہا فیملی کی سیاست میں چھپے ہیں۔

گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارے گئے علیم  الدین انصاری کے قتل کے  آٹھ ملزمین کو پچھلے ہفتے ضمانت ملی تھی۔ گزشتہ 4 جولائی کو ان کے جیل سے نکلنے پر مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان جینت سنہا نے ان کا استقبال کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارے گئے علیم  الدین انصاری کے قتل کے  آٹھ ملزمین کو پچھلے ہفتے ضمانت ملی تھی۔ گزشتہ 4 جولائی کو ان کے جیل سے نکلنے پر مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان جینت سنہا نے ان کا استقبال کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

تاریخ 29 جون،شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے۔  کہہ سکتے ہیں، ہزاری باغ سے بی جے پی کے رکن پارلیامان اور مرکزی وزیر جینت سنہا کے لئے یہ راحت کا وقت تھا۔  انہوں نے اپنی وال پر لکھا، ‘رام گڑھ کے  علیم الدین قتل معاملے میں8 ملزمین کو بیل(ضمانت) ملی ہے۔  تین اور ملزمین کی سماعت ہوگی۔  مکمل انصاف کے لئے سبھی لوگ پرامید ہیں۔  ملزم، ان کی فیملی کے لوگ، ہزاری باغ کی عوام انصاف کی اس جیت سے خوش ہیں۔  مکمل انصاف کے لئے پچھلے کئی مہینوں سے کوشش کی جا رہی ہے۔  ‘

رام گڑھ ماب  لنچنگ کے 8 ملزمین کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد جینت سنہا کا یہ فوری رد عمل تھا۔اور اس کی معنویت تب نظر آئی  جب جیل سے باہر نکلنے کے بعد کئی ملزم اپنی فیملی کے لوگوں اور بی جے پی کے رہنماؤں کے ساتھ جینت سنہا سے ملنے ان کے ہزاری باغ میں واقع رشبھ واٹیکا آواس پہنچے، جہاں مرکزی وزیر نے ان کو مالا پہنایا اور مٹھائی بھی کھلائی۔ظاہر ہے سنہا کے قد اور عہدے کے لحاظ سے اس کے سیاسی معنی بھی نکالے جانے لگے۔  دراصل جینت سنہا نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مقدمہ کے پیروکار کی کوششوں کے علاوہ ثبوتوں اور حقائق کی جانکاری لینے اور ملزمین کی فیملی والوں سے بات چیت کرکے  پورے معاملے پر نظر  بنائےرکھا ہوں۔

اس بیچ اچانک جینت سنہا کے والد اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کے ایک ٹوئٹ نے اس معاملے میں الگ بحث چھیڑ دی ہے۔یشونت سنہا نے ٹوئٹ میں لکھا تھا، پہلے میں لائق بیٹے کا نالائق باپ تھا، لیکن اب اس رول کی ادلا بدلی ہو گئی ہے۔  مجھے پتا ہے کہ اس بات کے لئے بھی میری تنقید ہوگی۔  آپ ان سے کبھی نہیں جیت سکتے۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 29 جون کی صبح رام گڑھ کے منوعہ بستی کے باشندہ  علیم الدین انصاری مبینہ طور پر ممنوعہ گوشت لےکر جا رہے تھے۔  رام گڑھ شہر میں واقع بازار ٹانڈ کے پاس ان کو پکڑا گیا۔  بھیڑ نے ان کی پٹائی کی اور وین میں آگ لگا دی۔ بعد میں  علیم الدین انصاری کی موت ہو گئی۔تب اس معاملے میں سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ کی تشکیل کی گئی۔  اس سال 21 مارچ کو رام گڑھ کی ایک عدالت نے 11 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ان میں بی جے پی اور ہندوتوادی تنظیموں سے جڑے کچھ لوگ بھی شامل ہیں۔

اسی معاملے میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے پچھلے مہینے 29 جون کو 8 ملزمین کو اور 8 جولائی کو ایک کو ضمانت ملی ہے۔ویسے بھی ماب  لنچنگ کا یہ معاملہ ملک بھر میں سرخیوں میں رہا ہے۔  جس دن اس واقعہ کو انجام دیا گیا تھا اسی دن ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اس طرح کے تشدد کی مذمت بھی کر رہے تھے۔فی الحال جینت سنہا نے ملزمین کا استقبال کیا تو اس معاملے کو جھارکھنڈ سے دہلی تک اپوزیشن جماعتوں اور کچھ تنظیموں نے تیزی سے لپک لیا ہے۔

jayant-scree-1

حالانکہ ملزمین کے استقبال کے بعد اٹھے تنازعہ پر مرکزی وزیر نے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ عوام کے نمائندہ ہیں۔اسی وجہ سے ملزم اور ان کی فیملی کے لوگ ملنے آئے تھے۔  اس معاملے میں قانون اور کورٹ اپنا کام کر رہی ہے۔  جو مجرم  ہوں‌گے ان کو سزا ضرور ملے‌گی۔رام گڑھ میں بی جے پی کے سینئر رہنما اور مانڈو اسمبلی سے انتخاب لڑتے رہے مہیش سنگھ کھل‌کر رکن پارلیامان اور مرکزی وزیر کی طرفداری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جینت سنہا بےحد سادہ شخصیت والے سیاستداں ہیں۔  ہارورڈ کے تعلیم یافتہ بھی۔ ہر چیز کی باریکی کو سمجھتے ہیں۔

ملزمین کی فیملی والے اور بی جے پی کے کئی رہنماؤں اور کارکنان نے ہی مرکزی وزیر کو بتایا تھا کہ اس معاملے میں پولیس نے غلط سمت میں کارروائی کی ہے۔  علاقے کے لوگ بھی کئی موقع پر کہتے رہے کہ عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے بےقصور لوگوں کی وہ مدد کریں۔عوامی جذبہ کے مدنظر ہی انہوں نے اس مقدمہ کا مطالعہ کیا ہے، دستاویزوں کو پڑھا ہے۔  تبھی تو ان کو لگا کہ اس معاملے میں مکمل انصاف کی ضرورت ہے۔مہیش سنگھ بتاتے ہیں کہ جیل سے باہر نکلنے کے بعد ملزم اور ان کے رشتہ داروں نے اپنے رکن پارلیامان سے ملنے کی خواہش جتائی تھی۔

اب اس معاملے میں اپوزیشن  جس طرح کی عیب جوئی کر رہا ہے اس سے جینت سنہا کے عہدہ اور شہرت اور زمینی گرفت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔لیکن عمر قید کی سزا پائے وہ ملزم جن پر بھیڑ کی شکل میں قتل کرنے کا الزام ہے، ان کو مالا پہنانے، مٹھائی کھلانے کے سوال پر بی جے پی رہنما کہتے ہیں کہ وزیر جی سے ملنے اور ملوانے میں بہت لوگ تھے۔ اسی بھیڑ میں کوئی  مالا لایا تھی جس کو انہوں نے پہنا دیا۔  کیا پتا تھا کہ بےوجہ اس کو طول دیا جائے‌گا۔  جینت سنہا نے نہ مالا منگوایا تھا نہ ہی مٹھائی۔

ہزاری باغ میں بی جے پی کے ضلع صدر ٹنّو گوپ کا کہنا ہے کہ جیل جانے والے کچھ لوگ بی جے پی کے نوجوان کارکن اور حامی تھے، جب ان کو ضمانت ملی، تو وہ لوگ مقامی عوامی نمائندوں کے ساتھ علاقے کے رکن پارلیامان سے ملنے چلے آئے، تو اس میں کیا غلط ہے۔ادھر سابق وزیراعلیٰ بابولال مرانڈی نے اس معاملے پر میڈیا سے بات چیت میں الزام لگایا ہے کہ سب کچھ واضح ہوتا دکھ رہا ہے کہ ریاست میں اس طرح کے واقعات حکومت اور بی جے پی کے ذریعے اسپانسرڈ ہیں۔  جبکہ حال ہی میں مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی حکومتوں سے کہا ہے کہ بھیڑ کے ذریعے تشدد پر ہر حال میں روک لگائیں۔

ریاست میں اہم اپوزیشن جماعت جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے رہنماؤں نے بھی اسی بہانے بی جے پی پر نشانے سادھے ہیں۔جےایم ایم کے مرکزی جنرل سکریٹری سپریو بھٹاچاریہ کہتے ہیں گوشت سے جڑے معاملے میں عمر قید کی سزا پائے ملزمین کا استقبال کرنا بی جے پی اور اس کی حکومتوں کے نظریہ کو صاف ظاہر کرتا ہے۔

جینت سنہا، راجناتھ سنگھ اور یشونت سنہا (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

جینت سنہا، راجناتھ سنگھ اور یشونت سنہا (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

اس سے پہلے جینت سنہا نے ذاتی طور پر ریاست کے وزیراعلیٰ داس سے معاملے میں سی بی آئی جانچ کرانے کی بھی درخواست کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ایک عوامی نمائندہ کے فرائض کو بجالاتے ہوئے اور معاملے کی سنجیدگی کے پیش نظر عوام کے توقعات کے مطابق یہ قدم اٹھائے ہیں۔  جبکہ ایک ملزم روہت ٹھاکر کی طبیعت خراب ہونے کے بعد اس کے مناسب علاج کے لئے پہل کی اور ملزمین کے پریواروں کو مکمل تعاون دیا ہے۔

غور طلب ہے کہ ماب لنچنگ کے اس معاملے میں رام گڑھ ضلع میں بی جے پی کے میڈیا انچارج نتیانند مہتو کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔  اب ان کو بھی ضمانت ملی ہے۔ان کے علاوہ کچھ لوگ ہندوتوادی تنظیموں سے جڑے ہیں۔  ظاہر ہے یہ لوگ بی جے پی کی حمایت میں انتخابات میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔  رام گڑھ میں بی جے پی کے ضلع صدر پپّو بنرجی اس سے انکار نہیں کرتے۔  وہ کہتے ہیں کہ انتخابات میں تو ہر کیڈر کو لگنا ہی ہوتا ہے۔

پپّو بنرجی بتاتے ہیں کہ جیل سے باہر آنے کے بعد کچھ ملزم کی فیملی والوں نے ہی اپروچ کیا تھا کہ وہ لوگ رکن پارلیامان اور مرکزی وزیر سے ملنا چاہتے ہیں۔ہم لوگ سیاسی آدمی ہیں، کیسے انکار کرتے۔  اس کے بعد ہم سبھی لوگ ہزاری باغ پہنچے تھے۔  اپوزیشن کے پاس کوئی ایجنڈہ نہیں ہے اس لئے طول دے رہا ہے۔پپّو بنرجی کا کہنا ہے کہ عدالتی نظام اور فیصلے پر ہم لوگوں کو پورا اعتماد ہے۔  لیکن آپ مقدمہ کے دستاویز پڑھیں‌گے، تو یہ ظاہر ہوگا کہ پولیس کی کارروائی ٹھیک نہیں تھی۔  تبھی تو مکمل انصاف کی بات کی جا رہی ہے۔

غور طلب ہے کہ ماب  لنچنگ کے اس معاملے میں 11 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد رام گڑھ کے سابق ایم ایل اے شنکر چودھری اور کئی تنظیموں نے   اٹل وچار منچ کے بینر تلے پچھلے اپریل اور مئی مہینے میں تحریک چھیڑ رکھی تھی۔جلوس، مظاہرہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شمولیت ہونے لگی اور کئی موقع پر بھگوا پرچم لہرائے گئے۔  نعرے بھی لگے۔اس دوران ماب  لنچنگ کو لےکر کئی سوال کھڑے کئے جاتے رہے۔  تب بی جے پی رہنماؤں اور تنظیموں کا زور تھا کہ  علیم الدین قتل معاملے کی جانچ سی بی آئی یا این اے آئی سے کرائی جائے کیونکہ پولیس کی پوری کارروائی یکطرفہ ہے۔

رہنمااورتنظیم اس بات پر بھی زور دیتے رہے کہ  علیم الدین کی موت پولیس کسٹڈی میں ہوئی اور پولیس نے ہی اس کو مارا ہے۔  اس لئے اعلیٰ سطح کی جانچ ضروری ہے۔اس تحریک میں ہزاری باغ سے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے دیوی دیال کشواہا اور بڑکاگاؤں سے سابق ایم ایل اے لوک ناتھ مہتو بھی شامل ہوئے تھے۔  تحریک کے تحت ایک مئی کو بلایا گیا رام گڑھ بند بنا ہوحجت کے کافی اثردار رہا تھا۔رام گڑھ، ہزاری باغ اور بڑکاگاؤں  یہ تینوں اسمبلی حلقہ  ووٹ کے لحاظ سے ہزاری باغ پارلیامانی حلقہ کا اہم حصہ رہا ہے۔

پچھلے انتخاب میں صرف رام گڑھ سے ہی جینت سنہا کو تقریباً 93 ہزار ووٹ ملے تھے۔حالانکہ گئورکشکوں کی حمایت میں تحریک کر رہے شنکر چودھری اس بنیاد پر جینت سنہا کی مخالفت کرتے رہے اور الزام لگاتے رہے کہ رکن پارلیامان ہونے کے ناطے لوگوں کے جذبہ کے مطابق مرکزی وزیر سی بی آئی جانچ کرانے کی پہل نہیں کر رہے۔  اور نا ہی علاقے کی عوام کے جذبے کا خیال رکھ رہے ہیں۔

 علیم الدین انصاری کی اہلیہ  اور فیملی کے دیگر ممبر(فوٹو:نیرج سنہا)

علیم الدین انصاری کی اہلیہ  اور فیملی کے دیگر ممبر(فوٹو:نیرج سنہا)

ہزاری باغ پارلیامانی حلقہ میں ووٹروں کا مزاج بھانپنے والے اس سے انکار نہیں کرتے کہ تحریک کے ذریعے ایک موڑ آیا، جہاں ہندو تواکی لہریں بل کھانے لگی تھیں۔  اور لوگوں کی ناراضگی رکن پارلیامان سے بڑھنے لگی۔اس بیچ ریاست میں ہوئے شہری بلدیاتی انتخاب میں رام گڑھ کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی کی ہار ہوئی اور اقتدار میں شامل آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین پارٹی نے بی جے پی کو ہرایا۔  تب اس کی سنجیدگی کو اسی  کے برعکس دیکھا جانے لگا۔

نزاکت سمجھتے ہوئے بی جے پی کے اہم عہدوں پر کام کرتے رہے رام گڑھ-ہزاری باغ ضلع کے اہلکار تب اس مزاج کو بھانپنے میں کوئی چوک کرنا نہیں چاہتے تھے۔حالانکہ بی جے پی کے اندر خانے میں یہ باتیں بھی چلنے لگی کہ شنکر چودھری اس تحریک کے ذریعے جینت سنہا کے خلاف مشکل کھڑا کرنے کی کوششوں میں جٹے ہیں۔تب جینت سنہا اور ان کے نزدیکیوں کے بھی کان کھڑے ہونے لگے کہ اس قتل معاملےکے بہانے ان کے خلاف سیاست کی دھارا موڑی جا سکتی ہے۔

اب ضمانت پر چھوٹے ملزمین کا استقبال کئے جانے کے سوال پر شنکر چودھری کہتے ہیں کہ دس مہینے تک تو جینت سنہا اس معاملے میں خاموش رہے اچانک ان کی محبت جاگ گئی۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے طول طویل د عمل بھی نہیں دینا۔  جینت سنہا کے والد نے ٹوئٹ کے ذریعے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔  شنکر چودھری اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ جینت سنہا کے خلاف انہوں نے ماحول کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔  وہ کہتے ہیں کہ رام گڑھ کی عوام سب کچھ جانتے اورسمجھتے ہیں۔

ادھر 29 جون کو ضمانت ملنے کے بعد شنکر چودھری بھی ملزمین سے ملتے رہے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تمام ملزمین کو ضمانت ملنے کے بعد جیت کا جلوس نکالا جا سکتا ہے۔سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی رجت کمار گپتا کہتے ہیں کہ بے شک جھارکھنڈ میں بی جے پی کے زیادہ تر رکن پارلیامان کو زمین کھٹکتی ہوئی دکھ رہی ہے۔اس سے جینت سنہا الگ نہیں ہو سکتے ہیں۔  کئی سطح پر سروے رپورٹ بھی بی جے پی کے بہت حق میں نہیں دکھتی۔ان حالات میں بی جے پی کو عوامی حمایت  چاہیے ہی۔ تب بی جے پی کے پاس مبینہ طور پر ایک ہی مضبوط بیس ہے، ہندو توا کا مسئلہ اچھالنا۔

گائے کا گوشت لے جانے کے شک میں بھیڑ نے  علیم الدین انصاری کا پیٹ-پیٹ‌کر قتل کرنے کے بعد ان کی گاڑی میں آگ لگا دی تھی۔  مرکزی وزیر جینت سنہا (فوٹو : ٹوئٹر / پی ٹی آئی)

گائے کا گوشت لے جانے کے شک میں بھیڑ نے  علیم الدین انصاری کا پیٹ-پیٹ‌کر قتل کرنے کے بعد ان کی گاڑی میں آگ لگا دی تھی۔  مرکزی وزیر جینت سنہا (فوٹو : ٹوئٹر / پی ٹی آئی)

پھر انتخابات سے ٹھیک پہلے ہزاری باغ پارلیامانی حلقہ کے تانابانا ان فارمولوں کے اردگرد زیادہ مرکوز ہوتا رہا ہے۔  گنجائش ہے کہ ماب  لنچنگ کے اس معاملے کے ذریعے جینت سنہا فارمولوں کو سادھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔  مجھے لگتا ہے کہ ان کی سیاسی مجبوریاں رہی ہوں‌گی۔ویسے بھی ہزاری باغ پارلیامانی حلقہ پر اس بار پورے ملک کی نظریں ٹکی ہیں۔

دراصل بی جے پی اور مرکزی حکومت کے کام کرنے کے طریقےاورپالیسیوں سے ناراض چل رہے یشونت سنہا نے پچھلے 21 اپریل کو بی جے پی سے اپنے تمام تعلقات کو ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ پارٹی کی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لیا ہے۔حالانکہ ریاست سے لےکر قومی سطح پر مبینہ طورپرنئی روایت کے تحت بی جے پی یہ احساس کرانے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ کسی رہنما یا شخص کے جانے یا ناراضگی سے پارٹی کی صحت پر فرق پڑنے والا نہیں ہے۔

سول سروس سے سیاست میں آنے کے بعد یشونت سنہا نے ہزاری باغ کو ہی کرم بھومی بنایا تھا۔ ان کے سخت مخالفین بھی مانتے ہیں کہ دو دہائیوں سے زیادہ وقت میں انہوں نے اپنا خاصا اثر جمایا ہے۔1998، 1999 اور 2009 کے پارلیامانی انتخابات میں یشونت سنہا نے ہزاری باغ پارلیامانی حلقہ سے جیت درج کی تھی۔  وہ ملک کے وزیر خزانہ  اور وزیر خارجہ بھی رہے۔  جبکہ 2004 کے انتخاب میں اپوزیشن کے متحد ہوکرلڑنے پر ہار گئے تھے۔بدلے حالات میں یہ سوال اٹھتے رہے ہیں کہ والد کی غیر موجودگی جینت سنہا کی انتخابی راہ مشکل ہو سکتی ہے۔

غور طلب ہے کہ 2014 میں جینت سنہا پہلی دفعہ ہزاری باغ سے انتخاب لڑے تھے۔  حالانکہ انتخاب میں والد یشونت سنہا ہی جینت کے رتھ بان تھے جبکہ نریندر مودی سب سے بڑے برانڈ۔  تب یشونت سنہا نے بیٹے کی جیت کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔لہذا سارے سیاسی فارمولے حق میں ہوتے چلے گئے اور جینت سنہا ایک لاکھ 59 ہزار 128 ووٹوں سے انتخاب جیتے۔پہلی دفعہ انتخاب جیتنے والے چہرے کو وزیر بنائے جانے میں جینت سنہا کو بھی شامل کیا گیا۔  ابھی وہ شہری پراوز ریاستی وزیر کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔

جینت سنہا۔  (فوٹو بشکریہ : فیس بک / جینت سنہا)

جینت سنہا۔  (فوٹو بشکریہ : فیس بک / جینت سنہا)

اب 2019 کے پارلیامانی انتخاب میں کچھ مہینے باقی ہیں اور بی جے پی کے اندر تیاریوں کو لےکر ہلچل تیز ہے۔یشونت سنہا کے بغاوتی رخ کے بعد جھارکھنڈ میں حکومت اور تنظیم سے جینت سنہا کے رشتے پہلے سے بہتر بنے ہیں، لیکن انتخاب جیتنے کے لئے عوام کی عدالت میں تولے وہی (جینت سنہا) جائیں‌گے۔رام گڑھ میں رکن پارلیامان کے ترجمان  رویندر شرما کہتے ہیں کہ پارٹی کا ہر کارکن ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔  ویسے چار سالوں میں رکن پارلیامان اور وزیر کے ناطے جینت سنہا نے بھی اپنی الگ پہچان بنائی ہے اور خود کو قائم کیا ہے۔

وزیر ہونے کے بعد بھی علاقے کو انہوں نے بھرپور وقت دیا ہے اور ترقیاتی اسکیموں کو لےکر ان کی سمجھ کا جوڑ نہیں ہو سکتا۔  یہ ٹھیک ہے کہ یشونت سنہا کا تجربہ بہت رہا ہے، لیکن جینت سنہا کم وقت میں ہر طبقے تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔غور طلب ہے کہ کچھ دنوں پہلے جینت سنہا نے ٹوئٹر کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ ہزاری باغ میں غیرمعمولی ترقی ہوئی ہے۔ہم نے ایک طرف اعلیٰ سطح کے پروجیکٹ شروع کئے اور دوسری طرف بنیادی سہولیات دی ہے۔

مرکزی وزیر نے ‘ ہیپی ہزاری باغ ‘ کا سلوگن دیا ہے جبکہ ان کے حامی ‘کہو دل سے جینت سنہا پھر سے ‘اس سلوگن کو اچھالنے میں جٹے ہیں۔سیاسی تجزیہ کار رجت کمار گپتا کہتے ہیں کہ جینت سنہا ایک مہذب، ہارورڈ سے پڑھے لکھے کئی موضوعات کے جان کار ہو سکتے ہیں، وہ وژنری بھی ہیں، لیکن انتخابی بساط پر مہرے بچھانے کا ان کا تجربہ اگلے انتخاب میں ہی پرکھا جانا ہے۔

ویسے جینت سنہا کے سلجھے ہونے، ان کی صلاحیت کی بنیاد پر فائدہ ان کو مل سکتا ہے، لیکن ہزاری باغ پارلیامانی حلقہ کے فارمولے الگ الگ اسمبلی حلقوں کے حساب سے طے ہوتے ہیں۔  جبکہ یشونت سنہا کو اپنے مخالفین کو سادھنے میں بھی قابلیت تھی۔ اس لئے اس انتخاب میں یشونت سنہا کے براہ راست طور پر سامنے نہیں آنے سے جینت کی مشکلیں بڑھنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

رام گڑھ میں بی جے پی کے رہنما پرکاش مشرا کہتے ہیں کہ پچھلے انتخاب میں ہی جینت سنہا نے علاقے کو سمجھ لیا تھا۔ انتخاب جیتنے اور وزیرکے عہدے کی ذمہ داری ملنے کے بعد ان کا قد بڑھا ہے اور ان کے کام کرنے کا ڈھنگ، نظریہ اوروں  سے ہٹ‌کر ہے۔  یہی وجہ ہے کہ کارکن اور ووٹر سے سیدھا رابطہ قائم کرنے میں جینت سنہا کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔  وہ بڑے فرق سے انتخاب جیتیں‌گے کیونکہ اس ملک نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت کوقبول‌کر لیا ہے۔

حالانکہ جینت سنہا کے خلاف حزب مخالف سے کون امیدوار ہوگا اور حزب مخالف جماعتوں کے اتحاد کی شکل کیا ہوگی اس بارے میں ابھی تصویر صاف نہیں ہے۔  ریاست میں ان کی حکومت کئی فرنٹ پر الگ ہی مخالفت کا سامنا کر رہی ہے۔ظاہر ہے اگلے کچھ مہینوں میں پانی کا کئی گھاٹ سے بہنا باقی ہے۔اور اس کی گہرائی ناپنے میں جینت سنہا کو کئی مشکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔)