فکر و نظر

این آر سی کی جڑیں آسام کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں

آسام ملک کی واحد ریاست ہے، جہاں این آر سی بنایا جا رہا ہے۔  این آر سی کیا ہے؟  آسام میں ہی اس کو کیوں نافذ کیا گیا ہے اور اس کو لےکر تنازعہ کیوں ہے؟

ناگاؤں میں این آر سی سروس سینٹرپر فائنل ڈرافٹ میں اپنا نام دکھاتیں خواتین (فوٹو : پی ٹی آئی)

ناگاؤں میں این آر سی سروس سینٹرپر فائنل ڈرافٹ میں اپنا نام دکھاتیں خواتین (فوٹو : پی ٹی آئی)

نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس (این آر سی)کا دوسرا اور آخری مسودہ جاری کر دیا گیا ہے۔  این آر سی میں شامل ہونے کے لئے درخواست دینے والے3.29 کروڑ لوگوں میں سے 2.89 کروڑ لوگوں کے نام شامل ہیں اور اس میں 40-41 لاکھ لوگوں کے نام نہیں ہیں۔آسام حکومت کا کہنا ہے کہ جن کے نام رجسٹر میں نہیں ہے ان کو اپنی بات رکھنے کے لئے ایک مہینے کا وقت دیا جائے‌گا۔  بتا دیں کہ ابھی صرف ڈرافٹ جاری ہوا ہے، آخری لسٹ31 دسمبر 2018 کو آئے‌گی۔  این آر سی کا پہلا مسودہ گزشتہ 31 دسمبر اور ایک جنوری کو جاری کیا گیا تھا، جس میں 1.9 کروڑ لوگوں کے نام تھے۔

غور طلب ہے کہ این آر سی کے آخری ڈرافٹ کے سامنے آنے کے بعد سے آسام اور پورے ملک میں سیاسی زلزلہ آ گیا ہے۔  اس مسئلے کو لےکر حزب مخالف اور حکمراں جماعت ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے بی جے پی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ آسام میں این آر سی میں 40 لاکھ لوگوں کو شامل نہیں کئے جانے سے ملک میں خون خرابہ اور خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔

آسام واحد ریاست ہے جہاں این آر سی بنایا جا رہا ہے۔  ایسے میں یہ جاننا دلچسپ ہے کہ این آر سی کیا ہے؟  آسام میں ہی اس کو کیوں نافذ کیا گیا ہے؟  اور اس کو  لےکر تنازعہ کیوں ہیں؟آسان زبان میں کہیں تو این آر سی وہ عمل ہے جس سے ملک میں غیر قانونی طور پر رہ رہے غیر ملکی لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  آسام میں آزادی کے بعد 1951 میں پہلی بار نیشنل رجسٹر آف سٹیزن بناتھا۔

فوٹو:این آر سی اے ایس ایس اے ایم ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان

فوٹو:این آر سی اے ایس ایس اے ایم ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان

یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ 1905 میں جب انگریزوں نے بنگال کی تقسیم کی، تب مشرقی بنگال اور آسام کے طور پر ایک نئی ریاست بنائی گئی تھی، تب آسام کو مشرقی بنگال سے جوڑا گیا تھا۔  جب ملک کا بٹوارا ہوا تو یہ ڈر بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ مشرقی پاکستان کے ساتھ جوڑ‌کر ہندوستان سے الگ نہ کر دیا جائے۔تب گوپی ناتھ بورڈولی کی رہنمائی میں آسام انقلاب شروع ہوا۔ آسام اپنی حفاظت کرنے میں کامیاب رہا۔  لیکن سلہٹ مشرقی پاکستان میں چلا گیا۔  1950 میں آسام ملک کی ریاست بنی۔یہ رجسٹر 1951 کی مردم شماری کے بعد تیار ہوا تھا اور اس میں تب کے آسام کے رہنے والے لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔

دراصل انگریزوں کے زمانے میں چائے کے باغات میں کام کرنے اورخالی پڑی زمین پر زراعت کرنے کے لئے بہار اور بنگال کے لوگ آسام جاتے رہتے تھے، اس لئے وہاں کے مقامی لوگوں کی ایک مخالفت باہری لوگوں سے رہتی تھی۔50 کی دہائی میں ہی باہری لوگوں کا آسام آنا سیاسی مدعا بننے لگا تھا۔  لیکن آزادی کے بعد بھی اس وقت کے مشرقی پاکستان اور بعدکے بنگلہ دیش سے آسام میں لوگوں کے غیر قانونی طریقے سے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔  جس کو لےکر  تھوڑی بہت آواز اٹھتی رہی لیکن اس مدعے نے خاص طول نہیں پکڑا۔

حالات تب زیادہ خراب ہوئی جب تب کے مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش میں لسانی تنازعہ کو لےکر اندرونی جدو جہد شروع ہو گئی۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں اتنی تشدد آمیز حالتیں ہو گئی تھیں کہ وہاں رہنے والے ہندو اور مسلم دونوں ہی طبقوں کی ایک بڑی آبادی نے ہندوستان کا رخ کیا۔مانا جاتا ہے کہ 1971 میں جب مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے جابرانہ کارروائی شروع کی تو تقریباً 10 لاکھ لوگوں نے بنگلہ دیش کی سرحد پارکرکے  آسام میں پناہ لی۔ حالانکہ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ پناہ گزین چاہے کسی بھی مذہب کے ہوں ان کو واپس جانا ہوگا۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

1971 میں ایک غیر ملکی صحافی کے سوال کہ لاکھوں غیر قانونی مہاجروں کا آپ کیا کریں‌گی؟  ان کو کتنے دنوں تک رکھیں‌گی، کے جواب میں اندرا گاندھی نے کہا، ‘ ہم تو ان کو ابھی ہی نہیں رکھ سکتے ہیں کچھ مہینوں میں پانی سچ مچ سر کے اوپر چلا گیا ہے ہمیں کچھ کرنا پڑے‌گا ایک چیز میں ضرور کہوں‌گی میں نے یہ طے کیا ہے کہ تمام مذہبوں کے رفیوجی کو ہر حال میں جانا ہوگا ان کو ہم اپنی آبادی میں نہیں ملانے والے ہیں۔  ‘

نومبر 1971 میں ہی امریکی دورے پر کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علموں کو خطاب کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے کہا کہ مشرقی پاکستان سے آئے رفیوجییوں نے ہندوستان پر سنگین بوجھ ڈالا ہے۔  اندرا نے کہا کہ یہ رفیوجی ہندوستان کی سیاسی رکاوٹ اور آزادی کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔حالانکہ 16 دسمبر 1971 کو جب بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک بنا دیا گیا، اس کے کچھ دن کے بعد وہاں پر تشدد میں کمی آئی۔ تشدد کم ہونے پر بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے بہت سارے لوگ اپنے وطن لوٹ گئے، لیکن لاکھوں کی تعداد میں لوگ آسام میں بھی رک گئے۔

حالانکہ1971 کے بعد بھی بڑے پیمانے پر بنگلہ دیشیوں کا آسام میں آنا جاری رہا۔  آبادی میں ہونے والی اس تبدیلی نے مقامی باشندوں میں لسانی، ثقافتی اور سیاسی عدم تحفظ کا جذبہ پیدا کر دیا۔1978 کے آس پاس یہاں آسامی کے مسئلے کو  لےکر ایک طاقتور تحریک کا جنم ہوا، جس کی رہنمائی وہاں کے نوجوانوں اور طالب علموں نے کی۔ اسی بیچ دو تنظیم تحریک کے علمبردار کے طور پر ابھرے۔  یہ آل آسام اسٹوڈنٹ یونین اورآل آسام گن سنگرام پریشد تھے۔

ابھی یہ تحریک اپنے عروج  پر تھی کہ 1978 میں ہی آسام کے مانگلوڈی لوک سبھا حلقہ کے رکن پارلیامان ہیرا لال پٹواری کی موت ہو گئی۔  اس کے بعد وہاں ضمنی انتخاب کا اعلان ہوا۔اس دوران الیکشن  افسر نے پایا کہ رائےدہندگان کی تعداد میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس نے مقامی سطح پر غصہ پیدا کیا۔  مانا گیا کہ باہری لوگوں، خاص طورپر بنگلہ دیشیوں کے آنے کی وجہ سے ہی اس علاقے میں رائےدہندگان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔حالانکہ مقامی مخالفت کو درکنار کرتے ہوئے حکومت نے ان سارے لوگوں کو ووٹر لسٹ میں شامل کر لیا۔  مرکزی قیادت کے اس برتاؤ سے مقامی لوگوں میں غصہ پھیل گیا۔  آل آسام اسٹوڈنٹس یونین اور آسام گن سنگرام پریشد کی قیادت میں لوگ سڑکوں پر اتر گئے۔

آسام تحریک (فوٹو بشکریہ : وکپیڈیا)

آسام تحریک (فوٹو بشکریہ : وکپیڈیا)

غور طلب ہے کہ ایک طلبہ تنظیم کے طور میں  آسو انگریزوں کے زمانے سے ہی موجود تھا۔  اس وقت اس کا نام تھا  اہوم چھاتر سملن۔  1940 میں اہوم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، لیکن 1967 میں دونوں آپس میں مل گئے اور تنظیم کا نام رکھا گیا     آل آسام سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن۔  بعد میں اس کا نام بدل‌کر آل آسام اسٹوڈنٹ یونین یا  آسو کر دیا گیا۔وہیں    آسام گن سنگرام پریشد علاقائی سیاسی، ادبی اور ثقافتی تنظیموں کے لوگوں کا ایک گروپ تھا، جو آسام میں باہری لوگوں کے خلاف جارحانہ ہو رہا تھا۔  آسو اور    آسام گن سنگرام پریشد کی تحریک کو آسامی زبان بولنے والے ہندوؤں، مسلمانوں اور بہت سے بنگالیوں نے حمایت کی۔

تحریک کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ ریاست کی آبادی کا 31 سے 34 فیصد حصہ باہر سے آئے لوگوں کا ہے۔  انہوں نے مرکزی حکومت سے مانگ کی کہ وہ آسام کی سرحدودں کو سیل کرے، باہری لوگوں کی پہچان کرے اور ان کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹایا جائے۔  جب تک ایسا نہیں ہوتا ہے، آسام میں کوئی انتخاب نہ کروایا جائے۔اس کے علاوہ تحریک کرنے والوں نے یہ بھی مانگ رکھی کہ 1961 کے بعد ریاست میں جو بھی لوگ آئے ہیں، ان کو ان کی اصل ریاست میں واپس بھیج دیا جائے۔  ایسے لوگوں میں بنگلہ دیشیوں کے علاوہ بہار اور بنگال سے آئے لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔

جب مرکزی حکومت نے 1983 میں آسام میں اسمبلی انتخاب کروانے کا فیصلہ کیا، تو تحریک سے جڑی تنظیموں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔  حالانکہ انتخاب ہوئے، لیکن جن علاقوں میں آسامی زبان کے لوگوں کی اکثریت تھی، وہاں تین فیصد سے بھی کم ووٹ پڑے۔  ریاست میں آدیواسی، لسانی اور فرقہ وارانہ پہچان کے نام پر زبردست تشدد ہوا جس میں تین ہزار سے بھی زیادہ لوگ مارے گئے۔

اس تشدد میں آسام کے مورے گاؤں قصبہ کے نیلی کا ذکر ضروری ہے۔تحریک کے دوران فروری 1983 میں ہزاروں آدیواسیوں نے نیلی علاقے کے بانگلابھاشی مسلمانوں کے درجنوں گاؤں کو گھیر لیا اور سات گھنٹے کے اندر دو ہزار سے زیادہ بنگالی مسلمانوں کو مار دیا گیا۔غیر سرکاری طور پر یہ تعداد تین ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔  نیلی کے اس قتل عام میں ریاست کی پولیس اور سرکاری مشینری کے بھی شامل ہونے کا الزام لگا تھا۔  حملہ آور قبائلی بنگالی مسلمانوں سے ناراض تھے کیونکہ انہوں نے انتخاب کے بائیکاٹ کا نعرہ دیا تھا اور بنگالی نے انتخاب میں ووٹ ڈالا تھا۔

یہ آزاد ہندوستان کا  سب سے بڑا قتل عام تھا۔  سرکاری طور پر مرنے والوں  کے رشتہ داروں کو معاوضہ کے طور پر پانچ پانچ ہزار روپے دئے گئے تھے۔  نیلی قتل عام کے لئے شروع میں کئی سو رپورٹ درج کی گئی تھی۔  کچھ لوگ گرفتار بھی ہوئے لیکن ملک کے سب سے گھناؤنے قتل عام کے مجرموں کو سزا تو ایک طرف ان کے خلاف مقدمہ تک نہیں چلا۔

15 اگست 1985 کو مرکز کی اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت اور آسام تحریک کے رہنماؤں کے درمیان سمجھوتہ ہوا، جس کو آسام سمجھوتہ کے نام سے جانا گیا۔  (فائل فوٹو،بشکریہ ،ٹائم 8ڈاٹ ان )

15 اگست 1985 کو مرکز کی اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت اور آسام تحریک کے رہنماؤں کے درمیان سمجھوتہ ہوا، جس کو آسام سمجھوتہ کے نام سے جانا گیا۔  (فائل فوٹو،بشکریہ ،ٹائم 8ڈاٹ ان )

واپس لوٹتے ہیں اسمبلی انتخابات کی طرف۔ ان انتخابات کے بعد کانگریس پارٹی کی حکومت ضرور بنی، لیکن اس کو کوئی جمہوری‎ جواز حاصل نہیں تھا۔  1983 کے تشدد کے بعد دونوں فرقی  میں پھر سے مذاکرہ شروع ہوا۔لمبے وقت تک  مذاکرہ چلنے کے باوجود تحریک کے رہنماؤں اور مرکزی حکومت کے درمیان کوئی رضامندی نہیں بن سکی، کیونکہ یہ بہت ہی پیچیدہ مدعا تھا۔  یہ طے کرنا آسان نہیں تھا کہ کون’باہری ‘یا غیر ملکی ہے اور ایسے لوگوں کو کہاں بھیجا جانا چاہیے۔

اسی طرح 1984 میں یہاں کے 16 پارلیامانی علاقوں سے 14 پارلیامانی علاقوں میں انتخاب نہیں ہو پایا۔  1979 سے 1985 کے درمیان ریاست میں سیاسی عدم استحکام رہا۔  صدر راج بھی نافذ ہوا۔  لگاتار تحریک ہوتے رہے اور کئی بار ان تحریکوں نے تشدد آمیز شکل اختیار کی۔  ریاست میں بے مثال ذاتی تشدد کی حالت پیدا ہو گئی۔حالانکہ اس دوران تحریک کاروں اور مرکزی حکومت کے درمیان بات چیت چلتی رہی جس کے نتیجے کے طورپر  15 اگست 1985 کو مرکز کی اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت اور تحریک کے رہنماؤں کے درمیان سمجھوتہ ہوا جس کو آسام سمجھوتہ کے نام سے جانا گیا۔

آسام سمجھوتہ کے نام سے بنے دستاویز پر حکومت ہند اور آسام تحریک کے رہنماؤں نے دستخط کئے۔  اس میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کی طرف سے اس کے صدر پرفل کمار مہنت، جنرل سکریٹری بھرگو کمار فوکن اور آل    آسام گن سنگرام پریشد کے جنرل سکریٹری براج شرما شامل ہوئے۔ساتھ ہی ہندوستان اور آسام کے نمائندوں نے شرکت کی۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی اس دوران موجود رہے۔  15 اگست 1985 کو لال قلعہ کی فصیل سے راجیو گاندھی نے اپنی تقریر میں آسام سمجھوتہ کا اعلان کیا۔اس کے تحت 1951 سے 1961 کے درمیان آئے تمام لوگوں کو مکمل شہریت اور ووٹ دینے کا حق دینے کا فیصلہ کیا گیا۔  طے کیا کہ جو لوگ 1971 کے بعد آسام میں آئے تھے، ان کو واپس بھیج دیا جائے‌گا۔

1961 سے 1971 کے درمیان آنے والے لوگوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، لیکن ان کو شہریت کے دیگر تمام حق دئے گئے۔  آسام کی اقتصادی ترقی کے لئے پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا اور وہاں تیل رفائنری،پیپر مل اور تکنیکی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مرکزی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ وہ آسامی بھاشائی لوگوں کے ثقافتی، سماجی اور لسانی پہچان کی حفاظت کے لئے خاص قانون اورانتظامی اقدامات کرے‌گی۔ اس کے بعد، اس سمجھوتہ کی بنیاد پر رائےدہندگان کی فہرست میں ترمیم کی گئی۔  اسمبلی کو تحلیل کرکے 1985 میں ہی انتخاب کرائے گئے۔

اس انتخاب میں تحریک کی قیادت کرنے والے آسام اسٹوڈنٹ یونین یا  آسو اور    آسام گن سنگرام پریشد کے رہنماؤں نے مل‌کر ایک نئی پارٹی بنائی آسام گن پریشد۔  اس کے صدر  آسو کے صدر رہے پرفل کمار مہنت کو بنایا گیا اور پارٹی انتخابی میدان میں اتر گئی۔  آسام گن پریشد نے انتخاب میں اسمبلی کی 126 میں سے 67 سیٹیں جیت لیں اور ان کو اکثریت مل گئی۔  اس کے بعد پرفل کمار مہنت کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔اس حکومت کی مدت 1990 میں ختم ہونی تھی، جس کے بعد انتخابات ہونے تھے۔  لیکن حکومت کی مدت ختم ہونے سے ایک مہینے پہلے ہی جنتا دل کی قیادت میں بنی وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی مرکزی حکومت نے آسام میں صدر حکومت نافذ کردی۔

سابق وزیراعلیٰ اور     آسام گن پریشد کے رہنما پرفل مہنت (فوٹو : پی ٹی آئی)

سابق وزیراعلیٰ اور     آسام گن پریشد کے رہنما پرفل مہنت (فوٹو : پی ٹی آئی)

وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور چندرشیکھر کے بعد 1991 میں جب مرکز میں نرسمہا راؤ کی حکومت بنی تو ایک بار پھر آسام میں انتخاب ہوئے اور ہتیشور سیکیا کی قیادت میں کانگریس کی حکومت بنی۔22 اپریل 1996 کو ہتیشور سیکیا کی موت ہو گئی، جس کے بعد بھومی دھر وزیراعلیٰ بنے۔  حالانکہ 1996 کے انتخابات میں ایک بار پھر     آسام گن پریشد نے بازی مار لی اور پرفل کمار مہنت کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔

2001 کے انتخاب میں بازی پھر کانگریس کے ہاتھ لگی اور ترن گگوئی وزیراعلیٰ بنے۔  لگاتار تین بار وزیراعلیٰ رہے ترن گگوئی کے خلاف 2016 کے انتخاب میں بی جے پی نے جیت حاصل کی اور سربانند سونووال وزیراعلی ہیں۔یہ تو ہو گئی آسام کے وزیراعلیٰ کی بات اب واپس لوٹتے ہیں این آر سی کی طرف۔  1985 میں آسام میں راجیو گاندھی کے ساتھ جو سمجھوتہ نافذ ہوا تھا، اس کے تجزیہ کا کام 1999 میں مرکز کی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے شروع کیا۔

17 نومبر 1999 کو مرکزی حکومت نے طے کیا کہ آسام سمجھوتہ کے تحت این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنا چاہیے۔  اس کے لئے مرکزی حکومت کی طرف سے 20 لاکھ روپے کا فنڈ رکھا گیا اور پانچ لاکھ روپے جاری بھی کر دئے گئے۔  حالانکہ یہ پہل ٹھنڈے بستے میں چلی گئی۔اس کے بعد 5 مئی 2005 کو وزیر اعظم منموہن سنگھ نے فیصلہ لیا کہ این آر سی کو اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔  اور اس پر عمل شروع ہوا۔  گگوئی حکومت نے آسام کے بارپیٹا اور چائے گاؤں جیسے کچھ ضلعوں میں پائلٹ منصوبہ کے طور پر این آر سی اپ ڈیٹ کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن ریاست کے کچھ حصوں میں تشدد کے بعد یہ روک دیا گیا۔

اس کے بعد ریاست کی گگوئی حکومت نے وزراء کے ایک گروپ  تشکیل کی۔  اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ آسام کی کئی تنظیموں سے بات چیت کرکے این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے میں مدد کریں۔  حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور عمل ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔بعد میں آسام پبلک ورک نام کے این جی او سمیت کئی دیگر تنظیموں نے 2013 میں اس مدعے کو  لےکر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی۔2013 سے 2017 تک کے چار سال کے دوران آسام کے شہریوں کے مدعے پر سپریم کورٹ میں کل 40 سماعتیں ہوئیں، جس کے بعد نومبر 2017 میں آسام حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ 31 دسمبر 2017 تک وہ این آر سی کو اپ ڈیٹ کر دیں‌گے۔

حالانکہ بعد میں اس میں اور وقت کی مانگ کی گئی۔  فی الحال 2015 میں سپریم کورٹ کی ہدایت اور نگرانی میں یہ کام شروع ہوا اور 2018 جولائی میں فائنل ڈرافٹ پیش کیا گیا۔  حالانکہ سپریم کورٹ نے، جن 40 لاکھ لوگوں کے نام لسٹ میں نہیں ہیں، ان پر کسی طرح کی سختی برتنے پر فی الحال روک لگائی ہے۔وہیں انتخابی کمیشن نے بھی واضح کیا ہے کہ این آر سی سے نام ہٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رائےدہندگان کی فہرست سے بھی یہ نام ہٹ جائیں‌گے۔  انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندگی قانون 1950 کے تحت رائےدہندگان کی نامزدگی کے لئے تین ضروری واجبات میں امید وار کاہندوستان کا شہری ہونا، کم از کم عمر 18 سال ہونا اور وابستہ حلقہ انتخاب کا باشندہ ہونا شامل ہے۔