فکر و نظر

سدھا بھاردواج کی بیٹی کا خط ؛ مما سہی کہتی تھیں کہ’بیٹا میں نے پیسے نہیں کمائے لوگ کمائے ہیں‘

گزشتہ دنوں حقوق انسانی کی وکیل اور ٹریڈ یونین ایکٹیوسٹ سدھا بھاردواج  کو پونے پولیس نے ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں ان کے گھر فریدآباد سے گرفتار کیا تھا ۔پڑھیے ان کی بیٹی مائشہ کا خط۔

سدھا بھاردواج، فوٹو: دی وائر

سدھا بھاردواج، فوٹو: دی وائر

صبح کے سات بجے تھے۔ممی نے مجھے اٹھایا سرچ کرنے آئے ہیں گھر کو،اٹھ جاؤ۔پھر اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ سب مما کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔میں نے سوچا میں بھی لکھ دوں (ہاہاہا)…میری اور مما کی سوچ میں ہمیشہ سے تھوڑا فرق رہا ہے۔ اس بارے میں شاید ہماری بحث بھی ہوئی ہوگی۔میں ہمیشہ مما کو کہتی تھی کہ، ” ممّا ہم ایسی لائف کیوں لیڈ کرتے ہیں بالکل نارمل سی، ہم کیوں اچھے سے نہیں رہتے۔ “

مما کہتی تھی کہ بیٹا مجھے ایسے ہی غریبوں کے بیچ میں رہ‌کر کام کرنا اچھا لگتا ہے۔  باقی جب تم بڑی ہو جاؤ‌گی تم اپنے حساب سے رہنا۔پھر بھی مجھے برا لگتا تھا۔ میں کہتی تھی کہ آپ نے بہت سال دئے ہیں تمام لوگوں کو اب اپنے لئے ٹائم نکالو اور اچھے سے رہو۔میری ناراضگی یہ بھی تھی کہ مما نے مجھے وقت نہیں دیا کام کی وجہ سے۔ان کا زیادہ وقت لوگوں کے لئے ہوتا تھا میرے لئے نہیں۔

بچپن میں یونین کے ایک چچا کی فیملی کے ساتھ رہتی تھی۔ان کے بچّے تھے، وہ ساتھ رہتے تھے۔پر مما کی یاد آتی تھی تو میں مما کی ساڑی پکڑ‌کر روتی تھی۔  مجھے آج بھی یاد ہے میں بیمار تھی اور چاچی نے میرے پاس آکر میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔میں نے سوچا مما ہوگی۔  اچانک میں بول پڑی ‘ ماں ‘ پھر آنکھ کھولی تو دیکھا چاچی تھی۔بچپن کا کم وقت ہی میں نے مما کے ساتھ گزارا ہے۔

جب میں چھٹی کلاس میں آئی تب پراپر مما کے ساتھ رہنا شروع کیا، شاید اسی لئے ہم ایک دوسرے کو آج بھی کم سمجھ پاتے ہیں۔میں نے ان کو دیکھا ہے پورے دن کام کرتے ہوئے، بنا نہائے بنا خود کا خیال رکھے، بغیر کھائے، بغیر سوئے۔  دوسروں کے لئے لڑتے ہوئے، دوسروں کے لئے کرتے ہوئے۔مجھے برا لگتا ہے جب مما اپنا خیال نہیں رکھتی، ان کے پاس جب مقدمہ آتا تھا تو مما کافی اپ سیٹ ہوتی تھیں۔

ان کے لئے میں سوچتی تھی کہ یہ ان کا پروفیشن ہے، WHY SHE IS GETTING UPSET ABOUT IT۔  بولا بھی ہے میں نے ان کو۔وہ کہتی تھی کہ ہم نہیں سوچیں‌گے تو کون سوچے‌گا۔I HAVE HEARD ON NEWS THAT کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ ایسے لوگ آدیواسیوں کے لئے کام کرتے ہیں۔  کہتے ہیں پر یہ دکھاوا کرتے ہیں، ان کے بچّے تو USA میں جاکر پڑھتے ہیں۔

شاید ان کو میرے بارے میں نہیں پتا کہ میں ایک بستی کے سرکاری اسکول میں پڑھی ہوں، ہندی میڈیم میں۔اور میں ہمیشہ ممّا سے لڑتی تھی کہ خود انگلش میڈیم میں پڑھی اور مجھے ہندی میں پڑھائی۔  BUT وہ الگ ہے کہ انگلش بولنا اور پڑھنا میں نے خود سے سیکھا کیونکہ میرا INTEREST تھا۔ہاں، 12ویں میں  آکر میں ممّا سے ضد کرکے NIOS کے انگلش میڈیم سے پڑھائی کی کیونکہ میرا من تھا۔

ممّا کو بولا جا رہا ہے کہ نکسلی ہے، مجھے برا نہیں لگتا بس یہی سوچتی ہوں کہ لوگ پاگل ہو چکے ہیں بنا کسی کی اصلیت جانے ان کو کچھ بھی کہنے کی عادت پڑ گئی ہے لوگوں کو۔مجھے ان کی باتوں سے، پولیس کی باتوں سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ مجھ سے اچھا میری ماں کو کون جانتا ہوگا۔اگر آدیواسیوں کے حق کے لئے لڑنا، مزدور-کسانوں کے لئے لڑنا،ظلم وزیادتی کے خلاف لڑنا اور اپنی پوری زندگی ان کے لئے دے دینا، اگر ایسے لوگ نکسلی ہوتے ہیں تو I GUESS نکسلی کافی اچھے ہیں۔

کوئی کچھ بھی کہے I AM PROUD TO BE HER DAUGHTER۔ممّا مجھے ہمیشہ کہتی ہیں، بیٹے میں نے پیسے نہیں لوگوں کو کمایا ہے AND YES SHE IS RIGHT، I CAN SEE THAT

LOVE YOU MOM

MAAYSHA