گراؤنڈ رپورٹ : بہار کے بکسر ضلع کے کوران سرائے گاؤں میں دھنا دیوی کے دو بچوں گووندا اور اتوریا کی گزشتہ دنوں موت ہو گئی۔ دھنا دیوی کا کہنا ہے کہ دونوں کی موت بھوک کی وجہ سے ہوئی ہے، لیکن انتظامیہ اس دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ بھوک نہیں بیماری کی وجہ سے وہ مرے ہیں۔
‘ گھر میں دانہ نہیں تھا۔ کسی دن کھاتے، تو کسی دن بھوکے رہنا پڑتا۔ دونوں (پانچ سال کا بیٹا اور دو سال کی بیٹی) بہت کمزور ہو گئے تھے۔ گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ بستر پر پڑے رہتے۔ پوچھتے کہ کچھ ہو رہا ہے، تو بولتے کہ نہیں… کچھ نہیں ہوا…پھر باری باری دونوں کی موت ہو گئی۔ ‘ بھوجپوری زبان میں اتنا کہہکر دھنا دیوی کہیں دور دیکھنے لگتی ہیں۔ پچھلے دس دنوں میں یہ جملہ وہ اتنی بار دوہرا چکی ہیں کہ اب یہ سب بولتے ہوئے ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرتا ہے۔
دھنا دیوی بکسر ضلع کے ڈمراؤں بلاک کے تحت کوران سرائے گاؤں میں رہتی ہیں۔ ڈمراؤں اسٹیشن سے کوران سرائے گاؤں کی دوری قریب 15 کلومیٹر ہے۔ کوران سرائے چوک سے دائیں طرف کالی پڑ چکی کیچڑ سے بجبجاتی ایک پکی سڑک گاؤں تک جاتی ہے۔ گاؤں میں مُسہروں (مہادلت) کی 150 فیملی رہتی ہیں۔ انہی میں ایک ہیں دھنا دیوی۔ جس ایک کمرے کے گھر میں وہ رہتی ہیں، وہ بالکل بوسیدہ حالت میں ہے۔ کمرے میں بنی اکلوتی کھڑکی میں کوئی راڈ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دروازہ۔
کمرے کے ایک کونے میں مٹی کا چولہا ہے، جس میں ٹھنڈی راکھ پڑی ہوئی ہے۔ پاس میں ہی کچھ لکڑیاں رکھی ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر دھوئیں کی وجہ سے جگہ جگہ کالے دھبے پڑ چکے ہیں۔ کمرے کے دوسرے کونے میں ساڑی سے بندھی ہوئی ایک گٹھری پڑی ہوئی ہے۔ کمرے میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ دھنا دیوی کے دو بچوں گووندا (پانچ سال) اور اتوریا (دو سال) کی گزشتہ دنوں موت ہو گئی۔
26 اگست کو گووند کی موت ہوئی اور اس کے تین چار دن بعد ہی اتوریا کی۔ دھنا دیوی کا دعویٰ ہے کہ دونوں کی موت بھوک کی وجہ سے ہوئی ہے، لیکن انتظامیہ اس دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ بھوک نہیں بیماری کی وجہ سے وہ مرے ہیں۔ حالانکہ، انتظامیہ جس بنیاد پر بھوک سے موت کے دعویٰ کو جھٹلا رہی ہے، وہ دھنا دیوی کا مبینہ بیان ہی ہے۔ کوران سرائے میں جہاں دھنا دیوی رہتی ہیں، وہاں چاروں طرف گندگی کا عالم ہے۔ جگہ جگہ کالے رنگ کا کیچڑ ہے، جہاں سے عجیب سی سڑاندھ آتی رہتی ہے۔ سڑاندھ ایسی کہ گھنٹے بھر بھی وہاں رہنا مشکل لگتا ہے۔ لیکن 150 مسہر فیملی اسی سڑاندھ کے درمیان اٹھتی بیٹھتی ، کھاتی پیتی اور سوتی ہے۔
یہاں سرکاری اسکیموں کے نعرے تو دکھتے ہیں، لیکن یہ اسکیمیں اب تک محلے میں نہیں پہنچ سکی ہیں۔ جبکہ یہ گاؤں این ایچ120 سے بالکل سٹا ہوا ہے۔ یہاں کی زیادہ تر فیملیوں کے پاس ایل پی جی کنیکشن نہیں ہے۔ ٹوائلٹ بھی کسی گھر میں نہیں۔ بہت سارے لوگ اب بھی آدھار کارڈ سے محروم ہیں۔ منریگا جاب کارڈ کچھ لوگوں کے پاس ہے بھی، تو ان کو کام نہیں ملتا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ 150 فیملیوں کے لئے محض تین چاپاکل ہیں، جہاں پانی کے لئے خوب بھیڑ لگتی ہے۔
ضلع انتظامیہ کے ریکارڈ کے مطابق، دھنا دیوی کا نام انتیودے فیملی میں شامل ہے۔ انتیودے اناج اسکیم کے تحت ان کو ہر مہینے 35 کلوگرام اناج (2 روپے فی کلو کی شرح سے گیہوں اور 3 روپے کلو کی شرح سے چاول) ملنا ہے۔ دھنا دیوی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دونوں بچوں کی جان بھوک کی وجہ سے گئی ہے۔ وہ اس کی وجہ بھی گنواتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘ پچھلے8-7 مہینے سے ڈیلر راشن نہیں دے رہا تھا۔ جب راشن مانگنے جاتے، تو ڈیلر کہتا کہ آدھار کارڈ اور پرچی لے آؤ، تب راشن ملےگا۔ میرے پاس نہ آدھار کارڈ ہے نہ پرچی۔ ‘
اس کے شوہر شیو کمار مسہر مزدوری کیا کرتے ہیں۔ روڈ جام کرنے کے معاملے میں وہ پچھلے 3 مہینے سے جیل میں ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق، 2 مئی کو ایک مہادلت بچے کی سڑک حادثے میں موت ہو گئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد مقامی لوگوں نے روڈ جام کیا تھا۔ مظاہرین نے ایک گاڑی کو آگ کے حوالے بھی کر دیا تھا۔ اس واقعہ کو لےکر تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں شیو کمار مسہر سمیت 25 لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا۔ ان میں سے 23 لوگوں کو ضمانت مل گئی۔ مگر پیسے کے فقدان میں شیو کمار اور بگن مسہر کو ضمانت نہیں مل پائی۔
دھنا دیوی کہتی ہیں، ‘ شوہر مزدوری کرتے تھے، جس سے روز انہ150 سے 200 روپے کی کمائی ہوتی تھی۔ اسی سے کسی طرح کھاکر جی رہے تھے۔ جیل جانے کے بعد پیسے کا ذریعہ ہی ختم ہو گیا۔ گھر میں کچھ تھا بھی نہیں۔ کسی شام کھاتے، تو کسی شام بھوکے پیٹ سونا پڑتا تھا۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ کئی شام تو آس پڑوس سے مانگکر کھایا، لیکن کوئی روز روز کتنا دیتا۔ ‘ مانگکر کھانے والی بات کی حمایت آس پاس کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی دفعہ انہوں نے کھانا دیا۔
دھنا دیوی کے گھر کے پاس رہنے والے دھیراج مسہر کہتے ہیں، ‘ ایک بار میرے گھر چاول بنا تھا، تو ہم نے دھنا دیوی کو بھی اسی میں سے تھوڑا سا دے دیا تھا۔ ہم خود مزدوری کرتے ہیں اور گھر میں کھانے کی کمی رہتی ہے، پھر بھی دیے کہ چلو ہم لوگ دو کور کم ہی کھا لیںگے، لیکن ان کے (دھنا دیوی) بچے تو بھوکے نہیں رہیںگے نا! ‘
دھیراج مسہر کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے یہ منظور کیا کہ انہوں نے دھنا دیوی کو اپنے حصے سے کھانا دیا تھا۔ یہاں تک کہ دونوں بچوں کی موت کے بعد دفنانے کے لئے دھنا دیوی کے پاس کفن کے بھی پیسے نہیں تھے۔ لاشوں کی آخری رسومات ادا کرانے والے مقامی باشندہ موتی لال ڈوم نے کہا، ‘ کفن دےکے ہم نے ہی دونوں کو دفنایا۔ ‘ واقعہ کی جانکاری کے بعد موقع پر پہنچی سی پی آئی (ایم ایل) کی ٹیم کے گھمڑی پاسوان نے کہا، ‘ دونوں بچوں کی موت کی خبر جب ہمیں ملی، تو ہم خاتون کے کمرے میں گئے تھے۔ وہاں ہمیں اناج کا ایک دانہ نہیں دکھا تھا۔ ‘
بچوں کی بھوک سے موت کو لےکر ضلع انتظامیہ کی طرف سے جانچکے حکم دئے گئے تھے۔ اس حکم کے بعد ایس ڈی او نے اپنی سطح پر جانچ کرکے رپورٹ سونپی۔ رپورٹ میں بھوک سے دونوں بچوں کی موت کے دعویٰ کو خارج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شرارتی عناصر کے ذریعے بھوک سے مرنے کی افواہ اڑائی گئی ہے۔ ضلع انتظامیہ کی طرف سے بھوک سے موتیں نہیں ہونے کی حمایت میں ایک عجیب و غریب دلیل دی جا رہی ہے کہ دھنا دیوی کے باقی بچوں (جو زندہ ہیں) کی جانچ کی گئی جس میں ان کو صحت یاب پایا گیا، اس لئے دونوں بچے بھوک سے نہیں مرے ہیں۔
بکسر کے ڈی ایم راگھویندر سنگھ بھی ایس ڈی او کی جانچ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بھوک سے دونوں بچوں کی موت کی بات کو خارج کرتے ہیں۔ لیکن، سارے دعوے اور دعووں کو خارج صرف اور صرف بیانات کے بل پر ہی کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کے پاس اپنے دعویٰ کو پختہ کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہے۔راگھویندر سنگھ کہتے ہیں، ‘ میڈکلی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کی موت بھوک کی وجہ سے ہی ہوئی ہے کیونکہ ان کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا ہے۔ لیکن، ان کے دوسرے بچوں کی صحت کی جانچ ہوئی ہے، جس میں وہ صحت یاب پائے گئے ہیں۔ ‘
دوسری طرف، انتظامیہ کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دونوں بچوں کو کوئی بیماری تھی اور دھنا دیوی نے دوائیاں دی تھیں۔ ڈی ایم نے کہا، ‘ وہ علاقہ پانی کے جماؤ والا ہے۔ جانچ میں علاقے میں دماغی بخار کی بات سامنے آئی ہے۔ خاتون نے بھی افسروں کے سامنے یہ منظور کیا تھا کہ ان کو بخار تھا اور دوائیاں اور انجکشن دئے گئے تھے، لیکن ابھی انہوں نے بیان بدل دیا ہے۔ ‘ اس تعلق سے دھنا دیوی کا صاف طور پر کہنا ہے کہ انہوں نے کسی طرح کی کوئی دوائی ان کو نہیں دی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘ میں نے کوئی دوائی ان کو نہیں دی تھی۔ کئی بار پوچھا بھی کہ کوئی تکلیف ہے، لیکن انہوں نے کبھی کچھ نہیں بتایا۔ اندرونی طور پر کوئی بیماری بھی رہی ہوگی، تو وہ میں نہیں کہہ سکتی۔ ‘ ویسے موت کے بعد دونوں بچوں کو دفنایا گیا ہے، ایسے میں انتظامیہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ دونوں لاشوں کو نکالکر پوسٹ مارٹم کرا سکتی ہے۔ اس سے پورا معاملہ صاف ہو جائےگا۔ لیکن، انتظامی افسروں کا کہنا ہے کہ لاشوں کو نکالکر پوسٹ مارٹم کرانا ٹھیک نہیں ہوگا۔
حالانکہ، ایسے تمام معاملے ملک بھر میں ہوئے ہیں جن میں لاشوں کو نکالکر جانچ ہوئی ہے اور سچ سامنے آیا ہے۔ جہاں تک باقاعدہ راشن دینے کا سوال ہے، تو انتظامی افسروں کے دعووں کے الٹ دھنا دیوی کا کہنا ہے آدھارڈ کارڈ یا پرچی لانے کا بہانہ بناکر8-7 مہینوں سے ان کو راشن نہیں دیا جا رہا تھا۔
ایسا ہی الزام اور بھی کئی لوگوں نے لگایا ہے۔ مقامی مسہر ذات کے زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کوئی آدھار کارڈ نہیں ہے۔ حالانکہ ڈی ایم اور ڈیلر کے رشتہ دار نے ان الزامات کو بھی خارج کیا ہے۔ ڈی ایم نے کہا کہ راشن تقسیم کرنے والے رجسٹر میں ان کے انگوٹھے کے نشان ملے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ ان کو باقاعدہ راشن دیا گیا ہے۔ راشن ڈیلر مجیٹر پاسوان کے بھائی نے کہا کہ اس مہینے 3 تاریخ کو راشن دیا گیا اور اس کے پہلے بھی باقاعدہ راشن ملتا تھا۔
راشن تقسیم کرنے والے رجسٹر میں انگوٹھے کا نشان ہونے کے سوال پر دھنا دیوی نے کہا کہ دونوں بچوں کی موت کے بعد ہنگامہ ہوا، تو ڈیلر آئے اور جلدی بازی کرتے ہوئے کئی جگہوں پر انگوٹھے کا نشان لے لیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اسی دوران انہوں نے سارے کاغذات پر نشان لگوا لیا ہوگا اور اب بتا رہے ہیں کہ باقاعدہ راشن ملتا تھا۔ کئی دفعہ پوچھے جانے کے باوجود دھنا دیوی اپنی بات پر قائم رہیں کہ ان کو8-7مہینے سے راشن نہیں مل رہا تھا۔
مقامی مکھیا اندراوتی دیوی بھوک سے بچوں کے مرنے کے واقعہ کو نہ تو پوری طرح منظور کرتی ہیں اور نہ ہی خارج۔ لیکن ان کا اتنا ضرور کہنا ہے کہ شوہر کے جیل جانے کے بعد دھنا دیوی اور اس کے بچوں پر کھانے کا بحران آ گیا تھا۔ ان سب کے درمیان یہ افواہ بھی اڑی کہ دھنا دیوی کا ایک اور بیٹا ہے، جس کی شادی ہو چکی ہے۔ وہ اپنی ماں سے الگ رہتا ہے۔ ڈی ایم نے بھی اس بات کا ذکر کیا۔ اور تو اور ایس ڈی او کی جانچ رپورٹ میں بھی یہ لکھا گیا ہے۔
اگر اس کو مان بھی لیا جائے، تو یہ بالکل سمجھ سے پرے ہے کہ اس سے یہ دعویٰ کیسے خارج ہو جاتا ہے کہ بچوں کی موت بھوک سے نہیں ہوئی ہوگی۔ حالانکہ، دھنا دیوی سے جب اس بابت پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ ان کے چار بچے ہی ہیں اور انتظامیہ جس پانچویں بیٹے کا ذکر کر رہا ہے، وہ ان کی گوتنی کا لڑکا ہے۔ ڈی ایم سے اس تعلق سے بات کی گئی، تو انہوں نے ووٹر لسٹ کو دیکھکر تصدیق کروانے کی بات کہی۔ادھر، معاملے کے سامنے آنے کے بعد آناً فاناً میں متاثرہ فیملی کو بھرپور اناج مہیا کراکے حکومت اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئی ہے۔ لیکن بے وقت موت کے منھ میں سما گئے دو معصوموں کے گنہ گاروں کی شناخت ابھی باقی ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہے اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔ )
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ