فکر و نظر

مسلمانوں کی’گھر واپسی‘کی وجہ کیا ہے؟

گزشتہ ماہ ایک معاملہ میں ہریانہ میں پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔اس کے علاہ یہ بھی حکم دیاکہ وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے۔

اختر علی سے دھرم سنگھ بنےاور فیملی کے ممبر (فوٹو : اے این آئی ٹوئٹر)

اختر علی سے دھرم سنگھ بنےاور فیملی کے ممبر (فوٹو : اے این آئی ٹوئٹر)

ہندوستان  جیسے  سیکولر ملک میں مذہب یا اس کا انتخاب کسی شخص کی ذاتی پسندہے اور آئین کے بنیادی اصولوں کے مطابق حکومت کا اس میں کوئی عمل و دخل نہیں ہے۔ اسی طرح مذہب کی تبدیلی کی بھی پوری آزادی ہے بشرطیکہ اس میں جبر و لالچ شامل نہ ہو۔ اس کے باوجود تبدیلی مذہب کو سخت بنانے اور اسکو کئی پیچیدہ شرائط کے  تابع کرنے کی غرض سے ملک کی 8 صوبائی حکومتوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، اروناچل پردیش، چھتیس گڈھ، گجرات، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ ااور جھارکھنڈ نے ابھی تک اسمبلیوں سے باضابطہ قوانین منظور کروائے ہیں۔

ان کا ہدف خاص طور پر دلت ہیں، جن کے متعلق اونچی ذات کے ہندوؤں کو ہمیشہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ وہ کہیں ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان یا عیسائی نہ بن جائیں۔ گو کہ تبدیلی مذہب بھی ذاتی فعل کے زمرے میں آتا ہے، مگر اگر اسکا جواز یہ بتایا جائے کہ موجودہ مذہب میں رہتے ہوئے حکومت سے انصاف ملنے کی امید نہیں ہے، تو یہ کسی بھی معاشرہ کیلئے ایک نہایت ہی تشویش کن صورت حال ہے۔حال ہی میں ہندوستانی دارلحکومت دہلی سے متصل اترپردیش صوبہ کے باغپت ضلع کے تحصیل بڑوت کے بدرکھا گاوٗں میں ایک ہی مسلم خاندان کے درجن بھر سے زائد افراد نے ہندو مذہب اختیار کرنے کا اعلان کیا۔

گو کہ اگلے دن 13افراد نے ہی ایک باضابط تقریب میں مذہب تبدیل کیا، مگر 20افراد نے ایس ڈی ایم کے سامنے مذہب تبدیل کرنے کی عرضی دی تھی۔ اپنے نوجوان بیٹے گلشن عرف گلزار کے قتل کے معاملے میں پولیس کے رویے سے تنگ آکر اخترعلی کے اہل خانہ جس میں اختر علی، نفیسہ، ذاکر، دلشاد، نوشاد، ارشاد، ثانیہ، ارمان، سہانہ، انس، شائستہ، سنا، شارکہ، زویا، منشو، شہابرا، ناہید، رقیہ، موہنی، اور موہنی کی چھوٹی بہن نے مذہب تبدیل کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔

ان افراد نے ایس ڈی ایم بڑوت کو حلفیہ بیان دیکر اپنی مرضی سے اسلام مذہب چھوڑ کر ہندو دھرم اپنانے کی اجازت طلب کی تھی۔اس کے اگلے دن ہندو رواج کے مطابق ہون ، بھجن و منتروں کے بعد گاؤں کے شیو مندر میں اپنا نام کرن اور مذہب تبدیل کرلیا۔ اس دوران ہندو یوا واہنی کے ریاستی صدر شوکیندر کھوکھر اور ضلع صدر یوگیندر تومر سمیت کئی لوگ بھی موجود تھے۔ہون اور ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیاگیا اور قانونی طور طریقے سے ان کو ہندو مذہب میں داخل کرا دیا گیا۔ اس دوران اس علاقہ میں سیکورٹی کا سخت انتظام کیا گیا تھا اور اب اس خاندان کو بھی سیکورٹی حصار فراہم کیا گیا ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ جوگی خاندان کےاختر علی کا بیٹا گلشن علی کپڑے کی تجارت کرتا تھا۔ جولائی میں گلشن علی کی لاش ان کی ہی دکان میں کھونٹی سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔ اہل خانہ کا الزام تھا کہ اس کا قتل کرکے اس کی لاش لٹکا دی تھی لیکن پولیس نے ان کی ایک نہ سنی اور قتل کو خودکشی بتاتی رہی اور خودکشی کا کیس درج کرنے کے بعد جبراً اس کی لاش دفنا دی گئی۔ اس کی شکایت متاثرہ خاندان نے ضلع کے اعلیٰ افسران سے کی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ معاملے کی جانچ کررہے اے ایس پی راجیش کمار شریواستو نے کہاکہ اہل خانہ پولیس کو لے کر کسی بھی طرح سے ناراض نہیں ہے انہوں نے اپنے ہی سماج کے لوگوں سے ناراض ہوکر تبدیلی مذہب کیا ہے۔

مگر اختر علی اور ان کے اہل خانہ نے راقم کو فون پر بتایا ؛

مذہب اسلام میں رہ کر وہ اپنے بیٹے کو انصاف نہیں دلا سکتے کیو ں کہ پولیس شاید ہی مسلمانوں کی سنتی ہے۔ان کو شکوہ تھا کہ گاؤں اور اس کے آس پاس کے مسلمان بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ مسلمان ہمارا ساتھ دے رہے ہیں اور نہ ہی پولیس تعاون نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے ہم لوگوں نے مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ حکومت داد رسی کرسکے۔

2017میں اترپریش کے اسمبلی انتخابات کور کرتے ہوئے احساس ہوا کہ ووٹر بجلی، سٹرک، پانی سے زیادہ انصاف اور دادرسی کوترجیح دے رہا ہے۔ دیوبند کے قریب ایک گاؤں میں مجھے بتایا گیا کہ اگر لکھنوٗ میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، تو پولیس صرف یادو برادری کی سنتی ہے اور اگر بہوجن سماج پارٹی کی مایاوتی برسراقتدار ہے تو صرف دلت کی شنوائی ہوتی ہے۔ اب بتایا جاتا ہے کہ موجود دور میں جب بی جے پی حکومت ہے، اونچی ذات کے برہمن اور ٹھاکر پولیس تھانوں میں ڈیرہ ڈالے ہوئے رہتے ہیں اور صرف ان ہی کی سفارش پر اب پولیس کوئی کارروائی کرتی ہے۔

اسی سال مارچ میں آگرہ کی مدھونگر کچی پستی میں تین سو مفلوک الحال مسلمانوں کے مذہب تبدیل کرنے کی خبر آئی۔ ہندو تنظیموں نے ان کی گھر واپسی یعنی ہندو دھرم اختیار کرنے کی تقریب منعقد کی، جس میں 70کے قریب افراد نے شرکت کی۔ ہون اور بھجنوں کے بیچ انہوں نے ہندو دھرم اختیار کیا۔ ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ لوگ پشتینی مسلمان نہیں تھے اور صرف تین دہائی قبل ہی انہوں نے اسلام مذہب اختیار کیا تھا۔ اب دوبارہ ہندو مت کی طرف رخ کیا۔ میڈیا سے بات چیت میں ان لوگوں نے کہا کہ ان سے راشن کارڈ اور فری ہاؤسنگ پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، جو سراسر لالچ ہے۔ اسی ماہ فیض آباد اتر پردیش سے بھی 22 مسلمانوں کےمذہب تبدیل کرنے  کی اطلاع آئی تھی۔

اس طرح کے واقعات شاید ملک کے طول و عرض میں پیش آتے ہوں گے،مگر جس علاقہ میں تبدیلی مذہب کا یہ سانحہ پیش آیا وہ عالمی شہرت یافتہ دارلعلوم دیوبند سے محض 100کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور اس علاقہ میں مدرسوں ، عالیشان مساجد اور سنہرے کلیسوں سے مزین خانقاہوں و درگاہوں کا ایک جال بچھا ہواہے۔ اس کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کا اچھا خاصا رسوخ ہے ۔جمیعت کے ذمّہ داروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر علاقے کے متعدد ذمہ داروں سے گفتگو کرکے اس مسئلہ پر توجہ دینے کی کوشش کی تھی۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

مگر مذہب تبدیل کرنے والے ان 13افراد نے برادری ، رشتہ داروں کی بھی نہیں مانی ۔ ان کا ایک لڑکا پھانسی لگاکر مرگیا تھا اس کا الزام یہ لوگ اسی کے پھوپھی زاد پر لگاکر مسلمانوں کو جھوٹے کیس میں ساتھ لگانا چاہتے تھے ، مسلمانوں کے سمجھانے بجھانے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ لیکن ایک بہو نے مذہب بدلنے  سے انکار کردیا اور وہ اپنے بچوں کو لیکر مائیکے چلی گئی ۔جمیعت کے ذمہ داران کچھ بھی صفائی دیں، مگر ان کی ناک کے نیچے اس علاقہ کے دیہاتوں میں مسلم آبادیاں کسمپرسی اور جہالت کا شکار ہیں۔

عالیشان مساجد، مدرسوں اور خانقاہوں کو آراستہ بنانے کے ساتھ ساتھ اگر ان آبادیوں کی تعلیم و تربیت و ان کو روزگار دلانے کی سمت میں بھی وہ کام کرتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔حا لات یہ ہیں کہ اندرون ومضافاتی دیہاتوں میں تو مسلمان دین سے بالکل ناآشنا ہیں ۔کیونکہ بڑے حضرات اور داعی اسلام وہاں جانا گوارا ہی نہیں کرتے۔ ان مضافاتی دیہاتوں میں جاکر ان کمزور بے سہارا اور کھیتی مزدور مسلمانوں کی سدھ لینے والے بہت کم ہیں۔ مذہب تبدیل کرنے والوں کا یہ الزام ہے کہ ان کی داد رسی نہیں کی گئی، ان کی بھوک اور افلاس میں نہیں کی گئی ۔

گو یہ تبدیلی مذ ہب کا معقول عذر نہ ہو لیکن مسلم تنظیموں کو ملزم کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کر دیتا ہے۔ زکوٰۃ کا نظام جو بے سر و سامان مسلمانوں کیلئے بنایا گیا تھا وہ زیادہ تر پیشہ ور اور مشاہیر کی نظر ہوجاتی ہے۔ دہرادون سے مفتی رئیس احمد قاسمی کے مطابق ان کے محلے کے ایک کھاتے پیتے مسلم گھرانے کی لڑکی ایک ہندو بھنگی کے ساتھ بھاگ گئی۔ مفتی صاحب نے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا تو ڈیڑھ دن بعد پولیس نے لڑکی کو برآمد کرلیا۔ مگر لڑکی جیسے ہی جج کے سامنے پہنچی، اس نے اس بھنگی کے ساتھ جانے اور اپنے ہندو ہونے کا اعلان کردیا۔ مفتی صاحب کے بقول ان کے علم میں 5 ایسی مسلم لڑکیاں ہیں جو صرف بھنگی برادری میں گئیں ہیں، عام ہندوؤں کے ساتھ جانے والی لڑکیوں کی اکیلے دہرادون میں ہی ایک بڑی تعداد ہے۔

پچھلے ماہ اسی طرح کے ایک معاملہ میں ہریانہ کے روہتک ضلع کے ٹٹولی گاؤں میں ایک پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔ اسکے علاہ یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے۔ گاوٗں کے بیچ میں وقف بورڈ کی جو زمیں قبرستان کیلئے استعمال ہوتی تھی اس کو پنچایت نے اپنی تحویل میں لیکر زرعی اراضی میں تبدیل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر گاؤں میں دھوبی خاندان کے یامین کھوکھر پر الزام لگایا گیا کہ اس نے بچھڑے کی قربانی کی تھی۔

بعد میں اس کو پولیس گرفتار کرکے بھی لے گئی، مگر جلد ہی ضمانت پر و ہ رہا ہوگیا۔ روہتک نمبردار ایسوسی ایشن نے 20ستمبر کو اجلاس بلا کر الیاس کو گاؤں بدر کرنے کا حکم سنایا۔ گاوٰں کی 3000 نفوس کی آبادی میں 600مسلمان ہیں۔ اس فرمان میں مزید بتایا گیا کہ گاؤں میں کہیں بھی کھلی جگہ پر نماز ادا نہیں کی جائیگی۔ گاؤں یا اس کے آس پاس میں کہیں بھی مسجد نہیں ہے۔ مسلم آبادی جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے روہتک شہر جاتے ہیں۔چونکہ تقسیم کے وقت یہ علاقہ شدید فسادات کی زد میں آگیا تھا۔

جولوگ کئی وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے، انہوں نے اپنی حفاظت کی خاطر اپنے نام تبدیل کردئے ۔ وہ دیوالی ،ہولی اور دیگر ہندو تہوار بھی مناتے ہیں ، مگر گھروں میں مسلم رسوم و رواج کو انہوں نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ ان کی نئی پود اب باقاعدہ مسلم شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے ، جس پر اعتراض جتایا جا رہا ہے۔ بہار کے دربھنگہ کے ایک گاؤں میں ایک مسلم خاندان پر پنچایت نے 25ہزار کا جرمانہ عائد کیا ، کیونکہ اس نے بڑے جانوار کا پایہ اپنے گھرمیں پکایا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ 2002 میں گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات کے بعد جن لوگوں نے دیہی علاقوں سے ہجرت کرکے کیمپوں میں پناہ لی تھی ان کی واپسی کی جب کوششیں ہورہی تھی ، تو کئی علاقوں کی پنچایتیں ان کو بس اسی شرط پر واپس بسانے پر تیار تھیں، جب مسلمان حلفیہ بیان میں یہ یقین دلائیں کہ وہ گاؤں میں مسجد بنائیں گے نہ بلند آواز میں اذان دیں گے۔یہ باضابطہ تحریری حلفیہ بیانات تھے۔اسی طرح کی چند اور شرائط بھی تھیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر تیسرا مسلمان خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہا ہے ۔ پچھلے 50سالوں میں ان کی حالت دلتوں اور قبائل سے بھی بد تر ہوچکی ہے۔

یہ وہی قوم ہے جو ایک صدی قبل تک اس خطہ کی حکمراں تھی۔ سلاٹر ہاوس بند کئے جانے سے اتر پردیش میں ہزاروں مسلمان بے روز گار ہوچکے ہیں۔ گائے کے نام پر افواہ پھیلا کر جانورں کا کاروبار کرنے والوں کو جس طرح مارا پیٹا جا رہا ہے اس سے چھوٹے تاجروں کو کاری ضرب پہنچی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑے تاجر م جو میٹ اور بیف خلیجی اور دیگر ممالک کو بر آمد کرتے ہیں، ان کے کاروبار شد و مد کے ساتھ جاری ہیں، کیونکہ ان میں اکثریت جین یا ہندو ہیں۔

شاید یہ واقعات اسلام کے نام پر وجود میں آئے پاکستان میں رہنے والے مشاہیراورارباب حل و عقد کے گلے نہ اتریں، کیونکہ وہ فرقہ بندی، تعصب اور فروعی معاملات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ آزادی میں سانس لینے کی کیا قیمت ہے۔ وہ جان لیں کہ آزادی ان کیلئے محض ایک آزمائش ہے۔ بجائے اپنے اخلاقی وطیرو ں سے دنیا کواسلام کی صحیح تعریف سے روشناس کرواتے، ان کی منطق اور ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھالنے کے رجحان سے تو اچھا خاصا مسلمان بھی متنفر ہو جاتا ہے۔

امید تھی کہ جو کام 800 سال تک برصغیر پر حکومت کرنے والے مسلم حکمراں نہیں کر پائے ، اس ملک کے قائدین اس کو ایک لیبارٹری کی طرز پر استعمال کرکے اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عام کرکے برصغیر کے دیگر خطوں خاص طور پر ہندوستان  میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ اور مثال کا کام کریں۔ ان کی اس کاوش سے ہندوستان  میں دیگر مذاہب ، خصوصاًً دلتوں تک اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچانے میں مدد ملتی۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر ہندوستان  کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کا تھا مگران کے بڑھتے قدم رک گئے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے اندر چھوٹی بڑی ذاتوں کا سسٹم موجود ہے، اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں مسلم سماج میں بھی برہمنواد کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسرے مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا تھا جو ان کے لئے پاوٗں کی زنجیر بن گیا۔ انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریر میں کہا؛

میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا۔

قصہ مختصر، اگر مسلمان اپنا وطیرہ تبدیل نہیں کرتے، اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عملاً نہیں اپناتے تو دلتوں اور دیگر طبقات کو اپنے ساتھ ملانا تو دور کی بات، خود مسلمانوں کی نئی پود بھی دور چلی جائےگی۔