خبریں

جئے پور میں زیکا وائرس کا قہر نہ روک پانے میں سرکاری بد انتظامی کا بڑا رول

ڈیپارٹمنٹ آف میڈیکل، ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر  جئے پور میں زیکا وائرس پر کنٹرول کا دعویٰ کر رہا ہے، لیکن اعداد و شمار کے مطابق اس کی چپیٹ میں آنے والے لوگوں کی تعداد 130 سے زیادہ ہو چکی ہے۔

 (علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

اسمبلی انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد راجستھان میں سیاسی پارا گرم ہے،لیکن صوبے کی راجدھانی جئے پور ان دنوں انتخابی پانسے پر چلی جا رہی چالوں سے الگ زیکا وائرس کی وجہ سے چرچےمیں ہے۔ڈیپارٹمنٹ آف میڈیکل، ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئرکےاعداد و شمار کے مطابق پنک سٹی میں اس سے متاثر لوگوں کی تعداد 130 کے پار پہنچ چکی ہے۔زیکا کی چپیٹ میں اب عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ڈیپارٹمنٹ آف میڈیکل، ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئرکے افسر بھی آنے لگے ہیں۔محکمہ  کے ایک جوائنٹ ڈائریکٹر کی سطح کے افسر کا زیکا وائرس ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے۔یہ افسر فیلڈ میں بیداری کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے، جو پچھلے تین چار دن سے بخار سے متاثر ہیں۔

باوجود اس کے وزیر صحت کالی چرن صراف دعویٰ کر رہے ہیں کہ حالات پوری طرح سے قابو میں ہے۔  حالانکہ ہمیشہ نئے زیکا پازیٹو معاملے ان کے اس دعوے کی پول کھول رہے ہیں۔پہلے جئے پور کے شاستری نگر کو ہی زیکا متاثر مانا جا رہا تھا، لیکن آس پاس کے علاقے بھی اس کی گرفت میں آئے لوگوں کی تصدیق ہونے کے بعد اس کے قہر کےاور بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ جئے پور میں زیکا وائرس کے پہلے معاملے کی پہچان 15 ستمبر کو ہوئی تھی۔  دراصل، سوائی مان سنگھ میڈیکل کالج میں جانچ‌کے دوران شاستری نگر کی ایک خاتون میں اس کے اشارے ملے تھے۔ حالانکہ ڈاکٹروں نے اس رپورٹ کو مشکوک مانتے ہوئے نمونہ پونے کی وائرولوجی لیب میں تفتیش کے لئے بھیجے، جہاں سے 22 ستمبر کو زیکا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

ایڈیز ایجی پٹی مچھروں سے پھیلنے والے زیکا وائرس کو سوائی مان سنگھ ہسپتال کے سابق سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نرپت سنگھ شیکھاوت خطرناک مانتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،زیکا وائرس کی چپیٹ میں آنے پر ہلکا بخار، کنجکٹوائٹس (لال دکھتی آنکھیں)، سردرد، جوڑوں میں درد، جسم میں چکتّا کی شکایت ہوتی ہے۔  کئی بار اس کی وجہ سے عارضی طور پر لقوہ بھی مار جاتا ہے۔  ‘

ڈاکٹر شیکھاوت آگے بتاتے ہیں،’مچھروں کے کاٹنے کے  تقریباً  ایک ہفتے تک زیکا وائرس کا اثر رہتا ہے۔  حاملہ خواتین کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔اس سے متاثر بچے  کی پیدائش  ساخت میں چھوٹے اور ناپختہ دماغ کے ساتھ ہوتی ہے۔ زیکا وائرس کے انفیکشن کو روکنے کی سب سے اچھی تدبیر ہے مچھروں کی روک تھام۔  ‘اول تو جئے پور میونسپل کارپوریشن کو شہر کو اس موسم میں ویسے ہی مچھرسے آزاد کرنے کا انتظام کرنا چاہیے تھا، لیکن زیکا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد بھی وہ اس میں ناکام رہا ہے۔

پورا شہر تو دور زیکا متاثر علاقوں میں بھی ابھی تک فوگنگ نہیں ہو پائی ہے۔  مرکزی وزارت صحت کی ٹیم نے اینٹی لاروا سرگرمیوں کی سست رفتاری پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ میونسپل کارپوریشن کے پاس فوگنگ کرنے کی محض 6مشینیں ہیں۔  ان کو بھی دو سال پہلے شہر میں ڈینگو پھیلنے پر خریدا گیا تھا۔  چھے مشینیں جئے پور کے 91 وارڈ میں کتنے دن میں  کر پائیں‌گی،یہ سمجھا جا سکتا ہے۔  کارپوریشن کے اعداد و شمار پر غور کریں تو  فوگنگ کے لئے ایک وارڈ کا 15 دن بعد نمبر آتا ہے، وہ بھی صرف ایک گھنٹے کے لئے۔

ماہرین کے مطابق، لاروا سے مچھر 10 دن میں ہی بن جاتے ہیں۔  ایسے میں ہر وارڈ کا 15 دن بعد نمبر آنے پر مچھرکا پھرسے  پنپنا فطری ہے۔فی الحال کارپوریشن کی مشینیں 3-3 وارڈ میں روز صبح شام دو شفٹ میں  فوگنگ کر رہی ہیں۔فوگنگ میں ایک لیٹر پائراتھرین کیمیا کو 19 لیٹر ڈیزل میں ملایا جا رہا ہے، وہیں اینٹی لاروا میں 100 ایم ایل پیمافورس 10 لیٹر پانی میں ملاکر چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے۔

 فوگنگ مشینوں کی قیمت محض 20 سے 25 ہزار روپے کے درمیان ہے۔ پھر بھی میونسپل کارپوریشن کافی تعداد میں ان کی خرید نہیں کر رہاہے۔   محکمہ طب اور صحت  بھی مچھروں کے خاتمہ کا انتظام کرنے کے بجائے ٹی وی اور اخباروں میں زیکا وائرس سے محتاط رہنے کے اشتہارات سے نصیحت دے رہا ہے۔طب اور صحت کی سستی کا عالم یہ ہے کہ صحت ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وی کے ماتھر اور ایڈیشنل ڈائریکٹر روی پرکاش ماتھر پچھلے دس دن سے زیکا متاثر علاقوں میں نہیں گئے ہیں۔ہاں،محکمہ نے اس دوران اعداد و شمار کی بازیگری ضرور کی۔

محکمہ   مرکزی وزارت صحت  کی طرف سے طے ہدایتوں کو درکنار کرکے اپنی مرضی سے نمونہ لے رہا ہے۔قاعدے سے محکمہ کو متاثر علاقے میں بخار متاثرین میں سے 10 فیصد، تین مہینے کی تمام حاملہ خواتین، صفات کے حساب سے باقی حاملہ خواتین اور زیکا وائرس کی صفت دکھنے پر بخار متاثر تمام لوگوں کے نمونے لینا چاہیے، لیکن ایسا ہو نہیں رہاہے۔  محکمہ  کو ایک لاکھ سے زیادہ گھروں کے سروے میں 5900 بخار کے کیس ملے جبکہ 3500 کے آس پاس حاملہ خواتین ملیں۔اس سروے کی بنیاد پر 1284 لوگوں کے نمونے لئے، جس میں سے 100 سے زیادہ کیس پازیٹو ملے ہیں۔  یعنی ہر 12 نمونے میں سے ایک مریض زیکا پازیٹو مل رہا ہے۔

جبکہ راجپوت ہاسٹل میں یکایک معاملے بڑھنے پر  تقریباً100 طالب علموں کے نمونے لئے گئے، جس میں سے 25 زیکا پازیٹو نکلے۔  یعنی 25 فیصد مریضوں میں زیکا کی تصدیق ہوئی۔اگر   مرکزی وزارت صحت  کی طرف سے طے ہدایتوں کے مطابق نمونے لئے جائیں تو زیکا متاثر لوگوں کی تعداد بڑھنی طے ہے۔اکیلے شاستری نگر علاقے کے بخار متاثر اور حاملہ خواتین کی سو فیصد تفتیش کرائی جائے اور اس دوران دس فیصد معاملے بھی پازیٹو ملے، تو یہ اعداد و شمار 800 سے پار ہو سکتا ہے۔  ذرائع کے مطابق،  محکمہ طب اور صحت  نے تفتیش کا دائرہ اس لئے محدود کیا ہے، کیونکہ یہ وائرس 7 سے 14 دن میں اپنےآپ ختم ہو جاتا ہے۔

حالانکہ نمونہ لینے میں من مانی پر افسر سوائی مان سنگھ میڈیکل کالج کی تجربہ گاہ میں 100 سے زیادہ نمونے کی تفتیش نہیں ہونے کی دلیل دے رہے ہیں۔  افسر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ متاثر علاقوں میں اینٹی لاروا سرگرمیوں کے چلتے مچھروں کا قہر 75 فیصد تک کم ہوا ہے۔غنیمت ہے کہ جئے پور میں اتنے وسیع سطح پر زیکا وائرس پھیلنے کے باوجود یہ جان لیوا نہیں ہے۔اس سے متاثر زیادہ تر لوگ ٹھیک ہو چکے ہیں۔  حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت ٹھیک ہوئے لوگوں کو ڈھال بناکر زیکا وائرس سے نپٹنے میں برتی جا رہی ڈھیلائی کی ناکامی چھپا رہی ہے۔

کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری اور سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے حکومت کے اس رویے کی تنقید کی ہے۔انہوں نے کہا، جئے پور میں زیکا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ‌کر بیٹھی ہے۔   محکمہ طب اس کو عام بخار مان رہا ہے۔  کیا حکومت کو لوگوں کے مرنے کا انتظار ہے؟ ‘گہلوت نے آگے کہا، ‘راجستھان میں زیکا وائرس ہی نہیں پھیل رہا ہے۔  سوائن فلو، ڈینگو، چکنگنیا اور ملیریا پوری ریاست میں پھیلا ہوا ہے۔اب تک سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں، لیکن ریاستی حکومت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑ رہاہے۔  اس ناکارہ حکومت کو لوگ رُخصت کرنے کا من بنا چکے ہیں۔  ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔  )