ادبستان

عدم گونڈوی؛ گر غلطیاں بابر کی تھیں جمن کا گھر پھر کیوں جلے …

ہندی شاعری میں جب کچھ بڑے شاعروں کی دھوم مچی تھی،عدم گونڈوی اپنے سننے اور پڑھنے والوں  کو گاؤں کی ان تنگ گلیوں میں لے گئے جہاں زندگی کااستحصال  ہو رہا تھا۔

عدم گونڈوی (22 اکتوبر 1947-18 دسمبر 2011)۔  (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

عدم گونڈوی (22 اکتوبر 1947-18 دسمبر 2011)۔  (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

دسمبر،2012 کی بات ہے۔  الٰہ آباد کے چھوٹا بگھاڑا علاقے میں رہنے والے ہم کئی لڑکوں نے سوچا کہ آئندہ 18 دسمبر کوایک تقریب منعقد کرکےعدم  گونڈوی کی نظم پڑھی  جائے۔  ان کی وفات کوسال ہو رہا تھا۔  ہم سب چاہتے تھے کہ اسی بہانے ان کی تخلیقات اور اس کے سماجی وثقافتی اہمیت پر کچھ بات چیت کی جائے‌گی۔اس کے لئے ہمیں تھوڑے سے پیسے کی ضرورت تھی۔  ہم سب طالبعلم تھے۔  ہمارے پاس تھوڑے سے پیسے بھی نہیں تھے جن کو ایسی تقریب  پر خرچ کیا جا سکے۔  مجھے تو یو جی سی کی فیلوشپ ملتی تھی لیکن میرے دوسرے دوست اپنےاپنے گھروں سے بھیجے جانے والے پیسوں سے پڑھائی کا خرچ چلاتے تھے۔  تو ہم نے سوچا کہ چندہ  کیا جائے۔

ہم نے طالبعلموں، اساتذہ اور الٰہ آباد میں دوکانداروں سے چندہ مانگا۔  18 دسمبر تک ہمارے پاس 4 ہزار روپےجمع ہو چکے تھے۔  ایلن گنج کی مٹھائی کی ایک دوکان پر جب ہمارے دوست اکھلیش لڈو خریدنے گئے تو دوکاندار نے پوچھا کہ کیا آپ کی نوکری لگ گئی ہے؟  اکھلیش نے کہا کہ نہیں، ہم تو قریب کے اینی بیسینٹ کالج میں ایک شاعر  کی سالگرہ منانے جا رہے ہیں۔  اس سے وہ بہت خوش ہوئے اور چندے کے طور پر آدھا کیلو لڈو دیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوی ہو یا شاعر، اگر سماج کو اس کے تخلیقی کام کی اہمیت بتائی جائے تو وہ اس کو بہت پیار سے اپنا لیتا ہے۔  اس تقریب میں تقریباً 125 لوگ آئے تھے اور اس دن ہم نے عدم کی نظم کو اونچی آواز میں پڑھا تھا۔

اصل میں یہ اس ملک کی عوام ہی ہے جس نے گورکھ ناتھ، چنڈی داس، کبیر، جائسی، تلسی، گھنانند، سبرامنیم بھارتی، رابندرناتھ ٹیگور، نرالا، ناگارجن اور ترلوچن کی تخلیقات کو بہت پیار سے سنبھال‌کر رکھا ہے۔  وہ دکھ سکھ  میں ان کی نظمیں گاتے ہیں۔عدم گونڈوی بھی ایسے ہی شاعر تھے۔  انہوں نے کوئی مہاکاویہ  نہیں لکھا، اپنی شاعری میں کسی  ہیرو کی تخلیق  نہیں کی،ہاں انہوں نےاپنی غزلوں میں ملک کی عوام کے دکھ درد اور اس کی ٹوٹی پھوٹی حسرتوں کو شاعرانہ  انداز دے کر اس کو واپس کر دیا۔

آزادی کے بعدکے ہندوستان کا جو سماجی، ثقافتی اور سیاسی تجربہ ہے، وہ عدم کی شاعری میں بنا کسی لاگ لپیٹ‌کے چلا آتا ہے۔جس سال ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی ملی تھی، اسی سال 22 اکتوبر کو عدم گونڈوی کا جنم گونڈا ضلع‎ میں ہوا تھا۔  ان کے والد نے ان کا نام رام ناتھ سنگھ رکھا تھا لیکن انہوں نے اپنا نام عدم گونڈوی رکھا۔

انہوں نے اپنی آواز کے لئے ایک سہل  زبان کا انتخاب کیا، اتنی آسان کہ کچھ ہی دنوں میں شمالی ہندوستان میں کسی بھی مشاعرہ کی زینت  ان کے بنا ادھوری ہوتی۔انہوں نے لے، تُک اور لفظوں کی کارستانی سے ہٹ‌کر عوام کی زندگی کو اس کی کچی شکل میں ہی سب کے سامنے رکھ دیا۔  وہ عوام کے دکھ درد کو گانے لگے۔1980 کی دہائی میں جب ہندی شاعری  کی جامعات میں کچھ بڑے شاعروں  کی زندگی اور تخلیقی کام  کی دھوم مچی تھی تو عدم اپنے سامعین اور قاریوں کو شمالی ہندوستان  کے گاؤں کی ان تنگ گلیوں میں لے گئے جہاں دلت زندگی کا استحصال ہورہا تھا۔

انہوں نے ان گلیوں میں زندگی کی ہرممکنہ شکل کو دیکھا اور اس کو عزت بخشی۔  عدم نے اپنے سامعین کو دعوت دی کہ وہ بھی اس کے ہم سفر بنیں…

  آئیے، محسوس کریے زندگی کے تاپ کو

میں چماروں کی گلی تک لے چلوں گا آپ کو

جس گلی میں بھوکھ مری کی یاتنا سے اوب کر

 مر گئی پھلیا بچاری اک کنویں میں ڈوب کر

اس کے آگے عدم بتاتے ہیں کہ کس طرح سریو ندی کے کچھار‌کے قریب بسے کسی گاؤں میں ایک دلت دوشیزہ  کا ریپ  کیا گیا اور پورا سماج صرف تماشائی  بنا رہا۔

آ رہی تھی وہ چلی کھوئی ہوئی جذبات میں

 کیا پتہ اس کو کہ کوئی بھیڑیا ہے گھات میں

ہونی سے بےخبر کرشنا بےخبر راہوں میں تھی

 موڑ پر گھومی تو دیکھا اجنبی بانہوں میں تھی

چیخ نکلی بھی تو ہونٹوں میں ہی گھٹ‌کر رہ گئی

 چھٹپٹائی پہلے، پھر ڈھیلی پڑی، پھر ڈھ گئی

یہ کہانی اب بھی ہندوستان کے الگ الگ حصوں میں بار بار دوہرائی جاتی ہے لیکن اس میں شکار وہی رہتا ہے، بس شکاری بدل جاتے ہیں۔29 ستمبر 2006 کو مہاراشٹر کے بھنڈارا ضلع‎ کے خیرلانجی میں یہی تو ہوا تھا جب گاؤں کے دبنگوں نے ایک ہی دلت فیملی کی 44 سالہ سریکھا بھیّالال بھوتمانگے، ان کے بیٹے روشن اور سدھیر اور بیٹی پرینکا کو گھر سے ہتھیاروں کے زور پر باہر نکالا۔  ان کو ننگا کرکے گاؤں میں گھمایا گیا۔  ان کی شرمگاہوں  میں لکڑیاں ڈالی گئیں اور پھر ان کا قتل کر دیا۔ عورتوں کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔

عدم کی شاعری کو ایک بار پھر سے اس طرح سے سچ ثابت نہیں ہونا تھا۔  لیکن ان کی شاعری سچ ثابت ہوئی۔نازک مواقع پر عدم کی شاعری تاریخی اور روزمرہ کے سوالوں کو اٹھاتی ہے۔  وہ نہ صرف سوال اٹھاتی ہے بلکہ سوال پر دھیان مرکوز کئے رہتی ہے۔  عدم گاؤں کے کسی دانشور کی طرح جانتے تھے کہ اگر سوال بدل دیا جائے‌گا تو جواب بھی بدل جائے‌گا۔

دانشمندی اور ادبی دنیا کے ہرایک باشندے کی طرح عدم کا بھی خواب تھا کہ ایک برابری  کا سماج بنے، اس خواب کو پانے کو ہو رہی صف بندی  کو ختم کرکے ہندوستان کی عوام کے سامنے کچھ ایسے مدعے لے آئے گئے جن کے لئے لوگ آپس میں لڑ مرے۔  ان مدعوں نے ہندوستانی سیاست کے سوال بدل دئے۔  وہ لکھتے ہیں…

یہ امیروں سے ہماری فیصلہ کن جنگ تھی

 پھر کہاں سے بیچ میں مسجد و  مندر  آ گئے

جن کے چہرے پر لکھی ہے، جیل کی اونچی فصیل

 رام نامی اوڑھ‌کرسنسد کے اندر آ گئے

عدم نے بہت نہیں لکھا۔  انہوں نے لکھنے کی جگہ پر کہنے کو چنا۔  وہ جانتے تھے کہ ہندوستانی شاعری کا سب سے بڑا حصہ عوام  کی زبانی روایتوں میں زندہ رہتا ہے۔  ان کی دو کتابیں شائع ہوئیں ؛ سمئے سے مڈبھیڑ اور’ دھرتی کی سطح پر ۔ان کی زیادہ تر غزلیں لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔  ہندی بولنے والی  ریاستوں میں آپ کوئی مضمون نگاری کا مقابلہ منعقد کیجئے اور اس میں نوجوانوں کو پنچایتی راج پر لکھنے کو بولیے۔  یہ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی نوجوان یہ ضرور لکھ دے‌گا…

جتنے حرام خور تھے قرب و جوار میں

 پردھان بن‌کے آ گئے اگلی قطار میں

راشٹر واد  اور اس کو مذہب اور نسلی شناخت سے جوڑنے کا سلسلہ یورپ میں بہت پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔  جب ہندوستان کی آزادی کی لڑائی آگے بڑھ رہی تھی تو رابندرناتھ ٹیگور نےراشٹرواد کے اس خطرہ سے آگاہ کیا تھا۔انہوں نے دھیان بھی دلایا تھا کہ ہندوستان ایک کثیرثقافتی اور تہذیبوں  والا ملک ہے۔  اس میں شک، کشان، ہون اور کئی دوسرے نسلی گروہ آکر  مل گئے ہیں۔  ہندوستان کو انہوں نے انسانوں کا سمندر کہا تھا۔عدم نے اسی بات کو تاریخ کے اس دوراہے پر کہنے کی کوشش کی جب کسی آدمی  کو مارنے سے پہلے اس کی چوٹی، تلک، ختنہ یا گلے میں لٹکے کراس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے…

ہم میں کوئی ہون، کوئی شک، کوئی منگول ہے

 دفن ہے جو بات، اب اس بات کومت چھیڑیے

گر غلطیاں بابر کی تھیں جمن کا گھر پھر کیوں جلے

ایسے نازک وقت میں حالات کو مت چھیڑیے

بابر کو ہمارے روزمرہ کی زندگی میں لاکر کھڑا کیا جاتا ہے اور سیاسی فائدہ لیا جاتا ہے۔  غریبی میں پس رہے لوگ بھلا دئے جاتے ہیں۔

چھیڑیے ایک جنگ، مل جل کر غریبی کے خلاف

 دوست، میرے مذہبی نغمات کومت چھیڑیے

یہ ان کی غزلوں کی طاقت تھی کہ وہ گونڈا سے لےکر جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، لکھنؤ سے لےکر بھوپال تک سنے جاتے تھے۔  ہر بڑے تخلیق کار کی طرح ان کی غزلیں لوگوں کو حساس بناتی تھیں۔  اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ لیجنڈ بن گئے تھے۔انہوں نے اپنی صحت پر دھیان نہیں دیا جس کےنتیجے میں زندگی کے آخری دور میں ان کو کافی جسمانی تکلیف اٹھانی پڑی۔  ان کے مداحوں میں گونڈا کے کلکٹر رام بہادر بھی تھے۔دسمبر 2011 میں وہ نہ صرف ان سے ملنے گئے، ان کے علاج کا انتظام کروایا بلکہ گونڈا ضلع‎ کے ان کے گاؤں گجراج پورواکے ترقیاتی کاموں کو فوری طور پرکرنے کا حکم بھی دیا۔  ان کے حکم کی تعمیل بھی ہوئی تھی۔