خبریں

عشرت جہاں انکاؤنٹر: سی بی آئی نے کہا؛سابق پولیس افسروں پر مقدمہ چلانا ہمارے ہاتھ میں نہیں

سی بی آئی نے کورٹ میں کہا کہ اس نے گجرات حکومت سے مقدمہ چلانے کے لئے اجازت مانگی تھی لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سی بی آئی نے سنیچر کو 2004 کے عشرت جہاں انکاؤنٹر معاملے کی سماعت کر رہی ایک اسپیشل  کورٹ  کو بتایا کہ ڈی جی ونجارا اور این کے امین سمیت ملزم ریٹائرڈ  پولیس افسروں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے گجرات حکومت سے منظوری لینے کی معینہ مدت ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سی بی آئی  نے کہا کہ اس نے ریاستی حکومت سے اسپیشل کورٹ  کے ذریعے جاری  حکم کی وجہ سے ہی سبکدوش افسروں کے خلاف مقدمہ چلانے کی مانگ کی تھی۔

سی بی آئی کی طرف سے پیش وکیل آرسی کوڈیکر نے اسپیشل  جج جے کے پانڈیا کو بتایا، ‘ ہمارا رخ شروع سےہی مقدمے  کو لےکر واضح رہا ہے کہ استغاثہ (سابق پولیس افسروں کے) کے لئے گجرات حکومت سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ریاستی حکومت کے سامنے اس معاملے میں عدالت کے حکم کے بعد ہی چلے گئے تھے۔ ‘

اس سے پہلے، اسپیشل  جج نے کوڈیکر سے پوچھا، ‘ عشرت معاملے میں کیا ہوا۔ ‘ کوڈیکر نے کہا کہ ابھی تک جواب نہیں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کی گزارش  پر گجرات حکومت کو جواب دینا باقی ہے۔ جب جج نے پوچھا کہ حکومت کو جواب دینے میں کتنا وقت لگے‌گا، تو کوڈیکر نے کہا کہ سی بی آئی کو یہ نہیں پتا ہے کیونکہ یہ بڑے افسروں کے ذریعے طے کیا جائے‌گا۔

سی بی آئی نے 2013 میں سابق ڈی جی پی، پی پی پانڈے سمیت آئی پی ایس افسر ونجارا، جی ایل سنگھل، این کے امین، ترون بروٹ سمیت سات پولیس اہلکاروں کے خلاف چارج  شیٹ  داخل کرنے سے پہلے اجازت نہیں لی تھی۔ اس بیچ، ونجارا کے وکیل وی ڈی گجر اور امین نے سی بی آئی کی بات پر اعتراض کیا اور کہا کہ بہت وقت پہلے ہی برباد ہو چکا ہے۔

 ان کی دلیل تھی کہ چارج شیٹ داخل کرنے سے پہلے بھی سی بی آئی کو اجازت لینی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا، ‘ پروسیس پوراکرنے کے لئے کچھ معینہ مدت ہونی چاہیے۔ چارج شیٹ  دائر کئے ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں۔ ‘ وکیل نے سی بی آئی کو ونجارا اور امین کے خلاف معاملہ چھوڑ دینے کی بات کرتے ہوئے کہا، ‘ یہ حکومت کا کام نہیں ہے کہ وہ یہاں آئے اور منظوری دے۔

سی بی آئی کورٹ پر کوئی احسان نہیں کر رہی ہے۔ اس عدالت نے کہا تھا کہ منظوری کی ضرورت ہے۔ پی پی پانڈے کو اسی بنیاد پر چھوڑا گیا تھا۔ اس لئے جلد سے جلد عدالت کے حکم کو نافذ کیا جانا چاہیے۔’ امین نے سی بی آئی کے اس دعویٰ پر بھی اعتراض کیا کہ سرکاری افسروں پر مقدمہ چلانے کے لئے پہلے منظوری لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ عدالت نے سماعت پھر ملتوی کر دی۔

2014 میں، سابق اسپیشل  ڈائریکٹر راجندر کمار سمیت چار آئی بی افسر کے معاملے میں، سی بی آئی نے ایک نوٹ کے ساتھ ضمیمہ چارج شیٹ دائر کرکے کہا تھا کہ اس نے مرکزی حکومت سے سی آر پی سی کی دفعہ  197 کے تحت اجازت مانگی تھی۔ تقریباً تین سال بعد، سی بی آئی نے خصوصی عدالت کو مطلع کیا کہ مرکز نے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت سے انکار کر دیا تھا۔

سابق پولیس ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ونجارا اور سابق پولیس سپرنٹنڈنٹ امین گجرات کے ان سات پولیس افسروں میں شامل ہیں، جن کو 2013 میں سی بی آئی نے 19 سالہ ممبئی کالج کی طالبہ عشرت جہاں، اس کے دوست پرنیش پلئی عرف جاوید شیخ اور دو مبینہ پاکستانی شہری ذیشان جوہر اور امجیالی  رانا کی 2004 میں احمد آباد کے باہری علاقے میں قتل کے الزام میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ چاروں دہشت گرد تھے اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو مارے آئے تھے۔