فکر و نظر

آلوک ورما کو سی بی آئی چیف کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیوں غلط ہے؟

جب وزیر اعظم دفتر پر ہی سوال ہوں، تب وزیر اعظم اس سے جڑے کسی معاملے میں فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟

وزیر اعظم نریندر مودی اور آلوک ورما (فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی اور آلوک ورما (فوٹو : پی ٹی آئی)

سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما کو سپریم کورٹ کے ذریعے ان کے عہدے پر پھر سے بحال کئے جانے کے 72 گھنٹے کے اندر جس طرح سے وزیر اعظم کی صدارت والی کمیٹی نے پھر سے ان کو عہدے سے ہٹا دیا وہ اخلاقی  اور Procedural دونوں ہی معیاری اصولوں  پر بنیادی طور پر غلط ہے۔ یقینی طور پر کمیٹی نے نیچرل جسٹس  کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ اس نے ورما کی بات سنے بغیر  آناً فاناً میں ان کا تبادلہ کر دیا۔ لیکن یہ مسئلہ کابس  ایک حصہ ہے۔ بڑا اخلاقی،قانونی مدعا یہ ہے کہ وزیر اعظم ایک ایسے معاملے پر فیصلہ کر رہے تھے، جس میں ان کا دفتر ہی الزامات کے گھیرے میں ہے۔

کیا مودی کو بھی خود کو اس معاملے سے الگ نہیں کر لینا چاہیے تھا؟ وزیر اعظم ویسے معاملوں میں فیصلہ لینے والے کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتے ہیں، جہاں ان کا اپنا ہی آفس  سوالوں سے گھرا ہوا ہے؟ یہیں پر آزاد جمہوریت کا نہ ہونا کھلتا ہے، جس کی نگرانی میں سی بی آئی ویسے معاملوں کی تفتیش کرتی، جس میں وزیر اعظم یا پی ایم او پر الزام ہوں۔

آخر، صرف آلوک ورما ہی نہیں، بلکہ ایم کے سنہا اور اے کے شرما جیسے دوسرے مشہور سی بی آئی افسروں نے بھی وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) پر کچھ اہم معاملوں میں غیر جانبدارانہ تفتیش میں رکاوٹ پیدا کرنے  کا الزام لگایا ہے۔ ایک لائق اور ایماندار افسر کی امیج والے سنہا سی بی آئی کی اینٹی کرپشن برانچ کے ہیڈ  تھے۔ انہوں نے سی بی آئی کے اسپیشل  ڈائریکٹر راکیش استھانہ کے خلاف دائر کئے گئے رشوت خوری کے معاملے میں پی ایم او کی مداخلت کے سلسلے میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر  اجیت ڈوبھال کا نام لیا ہے۔

اس سے بھی زیادہ خراب یہ ہے کہ سنہا نے آلوک ورما کے معاملے میں سپریم کورٹ میں دائر اپنے  حلف نامہ میں سی بی آئی کو ‘ سینٹر فار بوگس انویسٹی گیشن ‘اورای ڈی  کو’ ایکس ٹارشن ڈائریکٹریٹ’  قرار دیا ہے۔


یہ بھی پڑھیں : سی بی آئی تنازعہ: وہ 7اہم معاملے جن کی جانچ آلوک ورما کر رہے تھے


اگر سی بی آئی کی اینٹی کرپشن برانچ کا مکھیا-آدھی رات  کو ورما کو ہٹائے جانے کے بعد ان کا تبادلہ کر دیا گیا تھا-سی بی آئی اور ای ڈی کے بارے میں ایسی رائے رکھتا ہے، تو یہ صرف پی ایم او اور عام طور پر پالیٹیکل اسٹیبلشمنٹ   کی سڑن  کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے۔ اس لئے یہ کبھی بھی ‘ سی بی آئی بنام سی بی آئی ‘ کا معاملہ تھا ہی نہیں، جیسا کہ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے اس کو بنا دیا۔ یہ واضح  ہے کہ پی ایم او باقاعدہ طور پر سی بی آئی اور ای ڈی کے کام کاج میں دخل اندازی کر رہا ہے۔

جس چیز کے بارے میں لوگوں کو زیادہ نہیں پتا ہے وہ ای ڈی اور پی ایم او کے افسروں کے درمیان چل رہی لڑائی ہے۔ ای ڈی کے چیف ، جو گزشتہ سال سبکدوش ہو گئے، نے ای ڈی افسر راجیشور سنگھ کا بچاؤ کرکے کھلے طور پر پی ایم او کی نافرمانی کی تھی۔ سنگھ کاروباریوں اور سیاستدانوں کے ذریعے منی لانڈرنگ (بلیک منی  کو سفید بنانے) کی جانچ‌کر  رہے تھے۔

پی ایم او نے بد عنوانی کے الزامات کے ارد گرد راجیشور سنگھ کے خلاف ایک تفصیلی شکایت تیار کی تھی، لیکن ای ڈی کے چیف ، جن کی تقرری بھی مودی نے ہی کی تھی، جوائنٹ  رینک کے افسر راجیشور کا پوری مضبوطی سے بچاؤ کر رہے تھے۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہے کہ راجیشور کے خلاف پی ایم او کے ذریعے لگائے گئے الزام صحیح ہیں  یا نہیں، لیکن اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے کہ راجیشور اور ای ڈی کے ڈائریکٹر  پی ایم او کے لئے ایک حد تک ہی مفید تھے اور اس کے بعد وہ Persona non grata ہو گئے۔

سی بی آئی بھی اسی سے ملتے جلتے  پیٹرن کی گواہ رہی ہے۔ آلوک ورما کا انتخاب پی ایم او، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اجیت ڈوبھال کے ذریعے کیا گیا تھا۔ لیکن اچانک وہ گلے میں پڑی ہڈی بن گئے، کیونکہ انہوں نے ان کا حکم بجالانے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح سے گجرات کیڈر کے ایک اور لائق آئی پی ایس افسر اے کے شرما  پی ایم او کےذریعے سی بی آئی میں لائے گئے تھے۔ لیکن آج شرما بھی خود کو حاشیے پر پا رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے آلوک ورما کے ساتھ اچھا کام کیا تھا۔


یہ بھی پڑھیں : آلوک ورما کو سی بی آئی چیف کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف ملکارجن کھڑگے کا اعتراض نامہ


ورما دشمن بھی بن گئے کیونکہ وہ یشونت سنہا، پرشانت بھوشن اور ارون شوری سے رافیل ڈیل  پر ملی شکایت پر Prima facieجانچ‌کے معاملے میں آزادانہ  سوچ کا اشارہ دے رہے تھے۔ ورما کے پاس وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی بھاسکر کھلبے کے ذریعے کوئلہ مختص میں بد عنوانی کا چل رہا معاملہ بھی ہے۔

یہ سب پالیٹیکل اسٹیبلشمنٹ کے وسیع پیمانے  پر پھیلے کیچڑ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لئے آلوک ورما کا معاملہ کبھی بھی ‘ سی بی آئی بنام سی بی آئی ‘ جیسا آسان معاملہ نہیں تھا۔ یہ کبھی بھی سی بی آئی کے اندر کی اندرونی لڑائی تھی ہی نہیں۔ اس کا ماخذ پالیٹیکل اسٹیبلشمنٹ  کی اعلیٰ  سطح کا تھا، جو سیاسی طور پر حساس کئی معاملوں کی سمت کو طے کرنا چاہتا تھا۔ کٹھ پتلی کی ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھی، جو ڈھیر کی  بالکل بلندی پر بیٹھے تھے۔

سیاسی بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کے کچھ مبینہ معاملوں کی سمت طے کرنے میں پی ایم او کے  براہ راست ملوث ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سی بی آئی اور ای ڈی کے اندر کی لڑائیاں اس کشیدگی کو ظاہر کرتی  تھیں۔ ایسا گجرات میں بھی وزیراعلیٰ نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی حکومت میں دیکھا گیا جب پالیٹیکل اسٹیبلشمنٹ  کے متعلق اندھا کمٹمنٹ   رکھنے والے افسروں اور آئینی عمل کی خلاف ورزی کی مخالفت کرنے والے آئی پی ایس افسروں کے درمیان مسلسل جدو جہد کی حالت بنی ہوئی تھی۔

نئی دہلی  میں ‘ گجرات ماڈل ‘ اس لیے  کامیاب نہیں ہو پایا کیونکہ مرکز میں ایک دوسرے پر روک لگانے کاکہیں زیادہ انتظام ہے۔ مودی اور شاہ نے اس کا اندازہ نہیں کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج جانچ  ایجنسیوں میں ہم  جو  اداراتی بحران دیکھ رہے ہیں، وہ اوپر  سے پیدا ہوا ہے۔ اس لئے یہ بےحد بےتکا ہے کہ وزیر اعظم سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کو ہٹائے جانے کے لئے بیٹھی کمیٹی کی صدارت کریں۔ نیچرل جسٹس  کے اصول کے ساتھ اس سے بھدا مذاق اور کچھ نہیں ہو سکتا۔