خبریں

پلواما حملہ: بنگلور واقع کراچی بیکری کو بھیڑ  کےدباؤ میں لفظ ’کراچی‘ پر ڈالنا پڑا پردہ

برانچ مینجر کا کہنا ہے کہ، مظاہرہ کرنے والوں کو لگا کہ ہم پاکستانی ہیں۔ہم اس نام کا استعمال تقریباً 53 سالوں سے کر رہے ہیں۔ اس کے مالک ہندو ہیں۔

The covered-up signboard of the Karachi Bakery. Credit: Twitter

The covered-up signboard of the Karachi Bakery. Credit: Twitter

نئی دہلی: بنگلور واقع کراچی بیکری کے آؤٹ لیٹ کو اپنے نام میں سے ‘کراچی’ لفظ کو نیم بورڈ پر کور کرنا پڑا۔ دراصل کچھ لوگ پاکستان کی مخالفت میں کراچی لفظ کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ مظاہرہ جمعہ کو پلواما حملے کی مخالفت میں کیا جا رہا تھا۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کے 40 سے زیادہ جوانوں کی موت ہو گئی تھی۔

دی نیوز منٹ کے مطابق؛ یہ معاملہ جمعہ کو شام 8 بجے سے ساڑھے 8 بجے کے درمیان ہوا۔ تقریباً 25-20 لوگ اندرا نگر میں 100 فیٹ روڈ پر بیکری کے سامنے مظاہرے کے لیے پہنچے تھے۔ انھوں نے وہاں نعرے بازی شروع کر دی اور نام بدلنے کی مانگ کرنے لگے۔ اس کے بعد بیکری کے اسٹاف  کو  آدھانام کور کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

ڈرے ہوئے اسٹاف نے نہ صرف آدھے نام کو کور کیا بلکہ انھوں نے ہندوستان کا جھنڈا بھی پھہرایا۔ حالانکہ پورے واقعے کے دوران کسی طرح کا تشدد نہیں ہوا۔پولیس نے کہا  کہ کراچی بیکری کو لے کر ہوئے مظاہرے کے دوران پراپرٹی کے نقصان کی خبر نہیں ہے۔

دی نیوز منٹ  سے بات کرتے ہوئے برانچ  مینجر نے کہا،’ بھیڑ وہاں تقریباً آدھے گھنٹے تک رکی۔ انھوں نے ہم سے نام بدلنے کی مانگ کی۔ مظاہرہ کرنے والوں میں سے ایک آدمی نے آرمی میں لوگوں سے جان پہچان کی بھی بات کی۔ ان کو لگا ہم پاکستان سے ہیں۔ لیکن ہم اس نام کا استعمال گزشتہ تقریباً 53 سالوں سے کر رہے ہیں۔ اس کے مالک ہندو ہیں۔ صرف نام کراچی  بیکری ہے۔ ان کی وجہ سے ہم نے ہندوستانی جھنڈا پھہرایا۔’

غور طلب ہے کہ کراچی بیکری خان چند رمنانی نے قائم کی تھی۔ وہ 1947 کے بٹوارے کے وقت ہندوستان آئے تھے۔ بیکری کا پہلا آؤٹ لیٹ حیدر آباد میں کھولا گیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں اس کی برانچ پھیل گئی۔ بیکری اپنے فروٹ بسکٹ کے لیے مشہور ہے۔

واضح ہو کہ پلواما حملے کے بعد ملک بھر کے کئی علاقوں سےکشمیری طلبا اور کاروباریوں کو نشانہ بنانے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ساتھ ہی  کشمیری نوجوانوں کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات  بھی سامنے آئے ہیں ۔ ہماچل پردیش کے میکلوڈ گنج میں بھی کشمیری نوجوانوں کے ساتھ مارپیٹ کا ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ویڈیو میں کچھ لوگ پولیس جوانوں کے سامنے ہی کشمیری نوجوانوں کے ساتھ مار پیٹ اور بد سلوکی کر رہے ہیں ۔

ہریانہ کی سواری ٹرین میں دو کشمیری نوجوانوں کی پٹائی کرنے اور گالی گلوچ کرتے ہوئے ان کو دھکا دے کر اسٹیشن پر اتار دیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ چنڈی گڑھ کے ایک کالج میں ہماچل  کے طلبا کے ساتھ کشمیری طلبا کی جھڑپ ہوگئی ۔ بعد میں کشمیر کے طلبا  کو پولیس کی حفاظت میں گھاٹی کے لیے روانہ کر دیا گیا ۔

یو پی کے سہارن پور میں کچھ ہندو تنظیموں نے شہر کے کچھ کشمیری لوگوں کے گھروں کے باہر مظاہرہ کیا اور شہر چھوڑ کر جانے کی وارننگ دی ۔ کولکاتہ میں 22 سالوں سے رہ رہے ایک کشمیری ڈاکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ پلواما دہشت گردانی حملے کے بعد اس کو شہر چھوڑنے یا پھر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر نے حالاں کہ مغربی بنگال حکومت کے اس کے بچاؤ میں آنے کے بعد وہیں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک دوسرا معاملہ نوئیڈا کا ہے ، جہاں ایک ہوٹل میں ری سپشن پر ایک پوسٹر لگایا گیا ہے ، جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ حالاں کہ بعد میں معاملہ طول پکڑنے کے بعد اس پوسٹر کو ہٹا دیا گیا ہے۔نوئیڈا سیکٹر -15 میں جانی ہومس نام سے یہ ہوٹل ہے ، جس کے مالک اتر پردیش نو نرمان سینا کے صدر ہیں ۔ امت جانی کا کہنا ہے کہ ان  کی یہ پالیسی جاری رہے گی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)