فکر و نظر

انٹرویو: نہرو نے سید شہاب الدین کو ’بہا ر کا شرارتی لڑکا‘ کیوں کہاتھا…

میرا سیاسی نصب العین یہ تھا کہ ملّتِ مسلمۂ ہند اور قومی سیاست کے مابین حائل خلیج کو پُر کیا جائے اور دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔

Photo Credit : mushawarat.com

فوٹو: مشاورت

انڈین فارین سروس کے ایک سابق رکن ، سابق ممبر پارلیامنٹ سید شہاب الدین کوآزاد ہندوستان کے مسلم رہنماؤں کے درمیان  امتیازی  حیثیت حاصل ہے۔وہ مختلف ملی ، سماجی اور سیاسی تنظیموں سے وابستہ رہے۔ ایک عرصے تک آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر اور مسلم انڈیا میگزین کے بانی مدیر رہے۔ ان کا انتقال 4 مارچ 2017 کو نئی دہلی میں ہوا۔

سید شہاب الدین کے ساتھ انجمن ترقی اردو( ہند ) کے موجودہ جنرل سکریٹری اور کئی کتابوں کے مصنف اطہر فاروقی کی   یہ تفصیلی بات چیت  بنیادی طور پر انگریزی میں ان کے انتقال سے پہلےریکارڈ کی گئی تھی۔جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔اس انٹرویو میں ان سے ایسے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے جن سے ان کے سیاسی عوامل و محرکات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ساتھ ہی ان کی سیاسی شخصیت کی تشکیل و تعمیر کیسے ہوئی اس کا بھی پتہ چلتا ہے-ادارہ

 عام مشاہدہ یہ ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہونے والے مسلم افسران اگر سیاست میں داخل ہوتے بھی ہیں تو برسرِاقتدار جماعت کے توسط سے۔ نیز وہ یہ قدم ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ہی اٹھاتے ہیں، لیکن آپ نے اس کے برعکس اپنے سیاسی کیریر کا آغاز 1978 میں جنتا پارٹی سے کیا جو اُس وقت مرکز میں برسرِاقتدار تھی۔ اس کے بعد آپ کا تمام سیاسی سفر حزبِ اختلاف کی سیاست کا سفر رہا۔ آپ کچھ وقت کے لیے کانگریس میں شامل بھی ہوئے مگر وہاں آپ کا گزارہ نہ ہوسکا اور تقریباً ایک برس میں ہی کانگریس سے نہایت مایوس ہوکر آپ نے ایک بار پھر ایکلا چلو رے کی راہ اختیار کی۔

کیا آپ کے علاوہ ایسی کوئی دوسری مثال ہے کہ آزادیِ وطن کے بعد کسی اعلیٰ سطحی مسلم افسر نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر سیاست میں شمولیت اختیار کی ہو۔ عام خیال یہ ہے کہ آپ کی شخصیت بہ شمول دیگر امور کے ان معنوں میں بھی پیچیدہ ہے کہ آپ مسلم سیاست دانوں کی طرح معمولی سے معمولی بات کو بھی اس کے سیاسی و سماجی محرکات اور تاریخی تناظر میں دیکھتے ہیں اور اسی لیے واقعتاً جسے فہم کہتے ہیں اس سے عاری احمقانہ مسلم سیاست اور مذہب کے نام پر سیاسی قیادت کے دعویدار حضرات کے لیے آپ ہمیشہ ایک معمہ بنے رہے، آپ کو سمجھنا کبھی کسی کے لیے آسان نہیں رہا۔

آپ کس وقت کیا کرگزریں گے اس کا اندازہ لگانا بھی ان ذہنوں کے لیے کبھی آسان نہیں جن کے لیے مسلم لیڈروں کے رویّے قطعی غیر متوقع نہیں ہوتے۔ مسلم رہ نماؤں کے اس سہل پسندانہ بلکہ یوں کہیں کہ حکومت کے خوشامدانہ رویّے کی وجہ سے نہ تو مسلمانوں نے اور نہ ہی اہلِ اقتدار نے انھیں کبھی سنجیدگی سے لیا۔ آزادی کے بعد سے 1977 تک حکمراں کانگریس نے مسلم رہنماؤں کے بارے میں (اور خصوصاً شمالی ہند کے لیڈران کو) اپنا تابع مہمل اور فرماں بردار ہی سمجھا۔ کانگریس میں صورتِ حال اب بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے کیوں کہ اس کی قیادت کا یہ خیال درست ہے کہ وہ مسلمانوں کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے، وہ کانگریس کے علاوہ کہاں جائیں گے؟

یہ حقیقت تو سب پر واضح ہے کہ مسز اندرا گاندھی نے آپ کو رام کرنے کے لیے منصبِ وزارت نیز قومی اقلیتی کمیشن کی صدارت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر جیسے مناصب کی پیش کش کی تھی۔ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کے سبب آپ نے یہ تمام عہدے قبول نہیں کیے؟

 اعلیٰ سرکاری ملازمت سے قبل از وقت سبک دوشی کی سہولت اولاً 1978 میں دی گئی تھی اور اس سہولت سے فائدہ اٹھاکر اپنی ملازمت سے وظیفہ یاب ہونے والا میں پہلا سرول سرونٹ تھا۔ سرکاری نوکری کو خیرباد کہہ کر سیاست میں قدم رکھنے والا پہلا مسلمان بھی میں ہی تھا۔ جہاں تک مسلم یونی ورسٹی کی وائس چانسلر کے عہدے کی پیش کش کا سوال ہے تو اس سلسلے میں مسز گاندھی نے براہِ راست مجھ سے بات نہیں کی تھی بلکہ ایک سینئر ممبر پارلیامنٹ اور ریاست بہار کے دو وُزرا کے توسط سے یہ پیغام بھیجا تھا۔

ان لوگوں نے مجھ پر زور ڈالا تھا کہ میں اس پیش کش کو قبول کرلوں لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا۔ دراصل اُن دنوں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی وائس چانسلری کے لیے سیّد حامد صاحب کے نام پر حکومت غور کررہی تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس دوران میری سیّد حامد سے کسی موقعے پر ملاقات ہوئی تھی اور میں نے انھیں یہ باور کرادیا تھا کہ مجھے علی گڑھ جانے میں قطعی کوئی دل چسپی نہیں ہے اور میں عوامی (سیاسی) زندگی میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ جیساکہ شاید آپ نے بھی سمجھ لیا ہے کہ مسز گاندھی مجھے دہلی کی عوامی زندگی سے رخصت کردینا چاہتی تھیں۔

 سید صاحب نہ صرف آپ کی سیاسی زندبی بلکہ آپ کا دورِ ملازمت بھی کئی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ آپ اپنے دورِ طالبِ علمی میں، کہا جاتا ہے کہ بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے یا نہیں، مگر یہ ضرور سنا ہے کہ اولاً آپ کو سرکاری ملازمت میں شامل ہونے سے اس لیے روکا گیا تھا کہ آپ بائیں بازو کی سیاست سے اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں بہت شد و مد سے شامل تھے۔

اس بنا پر پولیس کی رپورٹ آپ کے خلاف تھی لیکن بعد میں آپ کا انتخاب ہوگیا اور آپ فورن سروس کے کیڈر میں شامل کرلیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے مداخلت کرکے آپ کی فائل پر اپنی مثبت راے لکھ کر آپ کے فورن سروس جوائن کرنے کا راستہ صاف کیا تھا اور یہی معاملہ مرحوم جے. این. دکشت کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ انھوں نے خود مجھے بتایا تھا کہ پنڈت نہرو نے ان کی فائل پر جو نوٹ لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ کسی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو سرکاری ملازمت میں شامل کرنا اس کی سیاسی زندگی کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

آپ یہ بتانے کی زحمت کیجیے کہ آپ کے معاملے میں آپ کی معلومات کے مطابق کیا ہوا تھا؟ یہ کہانی کہ نہرو نے آپ کے معاملے میں مداخلت کی تھی کس حد تک درست ہے؟

یہ درست ہے کہ پولیس کی رپورٹ میرے خلاف تھی اور اسی بنا پر انڈین فارن سروس میں میری تقرری میں تاخیر ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ جے. این. دکشت کے سامنے بھی ایسی ہی دقّت آئی تھی، لیکن ان کے تقرر میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی تھی۔ دراصل قصّہ یہ تھا کہ 1958 میں فارن سروس میں دس جگہیں خالی تھیں، ان میں سے نو پُر کی جاچکی تھیں۔ مُچکند دوبے، یونی ورسٹی میں مجھ سے ایک برس سینئر تھے لہٰذا اُنھوں نے امتحان بھی ایک سال قبل دیا تھا اور اُن کا تقرر بھی ایک برس قبل ہوچکا تھا۔

اُس وقت میں پٹنہ یونی ورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ دوبے نے مجھے خط لکھا کہ 1958 کے بیچ میں منتخب ہو نے والے 9 اُمیدوار ٹریننگ کے لیے بھیجے جاچکے ہیں نیز ان کی اطلاع کے مطابق دسویں جگہ میرے لیے محفوظ رکھی گئی تھی مگر مجھے اُس وقت تک بلایا نہیں گیا تھا۔ مچکند دوبے نے یہ بھی لکھا کہ مجھے معلوم کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اُن دنوں بہار میں ریاستی پولیس میں انٹلی جینس شعبے کے سربراہ ایس پی ورما تھے۔ وہ بعد میں آئی بی کے ڈائرکٹر بھی ہوئے۔ میں انھیں اس لیے جانتا تھا کہ 1955 میں پٹنہ میں جو گڑبڑ ہوئی تھی اور گولی بھی چلی تھی، اس معاملے میں مَیں بھی ملوث تھا، اس لیے، میں نے ان سے فوری ملاقات کی درخواست کی۔

میں نے ان سے براہِ راست پوچھا کہ انھوں نے اپنی رپورٹ میں میرے خلاف کیا لکھا تھا؟ اس پر وہ ہنسے اور کہا کہ وہ یہ تو نہیں بتاسکتے، تاہم انھوں نے مجھے یہ یقین دلایا کہ پولیس کی رپورٹ بالآخر میرے خلاف نہیں جائے گی۔ ہندستان میں کسی بھی رپورٹ تک رسائی کے بہت سے ذرائع ہیں، لہٰذا میں نے بھی اس رپورٹ کی تفصیلات حاصل کرلیں۔ اس رپورٹ میں لکھا تھا کہ 1955 میں شہاب الدین نے ایک احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی جو درست تھا، لیکن اس کے آگے اس میں ایک سفید جھوٹ بھی درج تھا، وہ یہ کہ میں ہندستانی کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا، جو کہ میں نہیں تھا

میرا رجحان بائیں بازو کی سیاست کی جانب ضرور تھا اور آج بھی میں نظریاتی طور پر سوشلسٹ ہوں، مگر اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں کسی بھی سیاسی جماعت کا باضابطہ رکن نہیں تھا۔ اس رپورٹ میں آگے یہ بھی درج تھا کہ گزشتہ ایک برس سے میں پٹنہ یونی ورسٹی میں پڑھا رہا تھا اور اس کے بعد میری کوئی شکایت سامنے نہیں آئی تھی۔ میرے خیال میں یہی وہ دفاعی پہلو تھا جس کی جانب مسٹر ورما نے اشارہ کیا تھا۔ 1955 کی مذکورہ شورش کے دوران ہی پنڈت نہرو سے میری ملاقات ہوئی تھی، لہٰذا میں نے انھیں خط لکھا کہ میں نظریاتی طور پر پکا سوشلسٹ ہوں، مگر میں کبھی کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں رہا ہوں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ پنڈت نہرو نے کیا کارروائی کی۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ انھوں نے کوئی کارروائی کی بھی یا نہیں۔

لیکن ہوا یہ کہ ایک ہفتے کے اندر ہی جسٹس نقی امام کے گھر پر میری ملاقات جنرل شاہ نواز خاں سے ہوئی۔ جسٹس امام میرے کرم فرما تھے کیوں کہ وہ اکثر و بیش تر تقریری مباحثوں کی صدارت کرنے یونی ورسٹی آتے رہتے تھے اور انعامات تقسیم کرتے تھے۔ جنرل شاہ نواز خاں اُس وقت ڈپٹی ریلوے منسٹر تھے، انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے خصوصی ڈبے میں دہلی لے جاسکتے ہیں۔ میں نے ان کی یہ پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میں چند دنوں میں خود ہی دہلی پہنچ جاؤں گا۔ جب میں دہلی پہنچا اور جنرل صاحب کی کوٹھی پر گیا تو پتا چلا کہ وہ اسکواش (Squash) کھیلنے کے لیے چیمس فورڈ کلب گئے ہوئے ہیں۔

میں وہاں جاکر ان سے ملا اور انھوں نے مجھے شاندار ناشتہ کرایا۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اسی دن ہمایوں کبیر سے ملوں۔ ہمایوں کبیر نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنی پوری بات تحریری شکل میں لکھ کر انھیں دے دوں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ پنڈت نہرو سے میری ملاقات ہوجائے کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے پہچان لیں گے۔ اس کے ایک دن بعد ہی مجھے مطلع کیا گیا کہ میری فائل پنڈت نہرو کے پاس پہنچ چکی ہے اور اب مجھے وزارتِ خارجہ میں سکریٹری مسٹر چکرورتی سے ملنا ہے۔ یہی مسٹر چکروتی بعد میں ہریانہ کے گورنر ہوئے، لہٰذا اگلے دن میں ان کے پاس پہنچ گیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وزیرِ اعظم نے میری تقرری کا حکم جاری کردیا تھا، لیکن مسٹر چکرورتی کو پنڈت نہرو نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ مجھے سول سروس کی ذمّے داریوں سے آگاہ کریں۔

فوٹو: ٹو سرکلس ڈاٹ نیٹ

فوٹو: ٹو سرکلس ڈاٹ نیٹ

اس کے بعد انھوں نے مجھ سے چند سوالات کیے کہ 1955 میں کیا کیا ہوا تھا اور میں نے جسٹس داس کمیشن کے روبرو کیا بیان دیا تھا؟ میں نے انھیں بتایا کہ طلبہ پر ہوئی پولیس فائرنگ کے خلاف میں نے ایک احتجاجی جلوس نکالا تھا جس میں کئی ہزار طلبہ شریک تھے۔ اس جلوس کو یونی ورسٹی سے ہوائی اڈے تک پنڈت نہرو کا سیاہ جھنڈوں سے خیرمقدم کرنے کے لیے جانا تھا، لیکن چوں کہ اس دن بارش ہورہی تھی، اس لیے، چند دیگر طلبہ کے ساتھ میری ملاقات پنڈت نہرو سے راج بھون میں ہوئی۔ مجھے آج تک ان کے الفاظ یاد ہیں کہ ’’گولی چلانا بُری بات اس لیے ہے کہ جب گولی چلتی ہے تو وہ کسی نہ کسی کو لگ جاتی ہے‘‘۔ دراصل وہ ایک طالبِ علم پانڈے کے گولی کا شکار ہونے کی جانب اشارہ کررہے تھے۔ اسی شام گاندھی میدان میں ایک کانگریسی لیڈر کی طرف سے لگائے گئے بینروں کو دیکھ کر نہروجی بھڑک اٹھے تھے اور انھوں نے طلبہ کو دھمکی تھی کہ اگر وہ یہ کالے جھنڈے نصب کرنے کے لیے قصوروار پائے گئے تو انھیں سزا ضرور ملے گی۔

بہرحال یہ 1955 کی با ت ہے۔ 1958 میں مسٹر چکرورتی سے پہلی ملاقات کے بعد میں چند روز بعد دوبارہ ان سے ملا اور اپنا تقررنامہ حاصل کرلیا اور مئی 1958 میں دہلی میں مٹکاف ہاؤس میں واقع آئی. ایف. ایس ٹریننگ اسکول میں ٹریننگ میں بھی شامل ہوگیا۔ میں اپنے تمام ساتھیوں، جن میں جے. این. دکشت بھی شامل تھے، کے ایک ماہ بعد ٹریننگ میں شریک ہوسکا تھا۔ اس طرح یہ بات درست ہے کہ ایک پولیس رپورٹ کی بنیاد پر میرے تقرر میں تاخیر ہوئی تھی اور یہ بھی درست ہے کہ پنڈت نہرو نے اس رپورٹ کو مسترد کرکے میرے حق میں اپنی راے دی تھی۔

جن دنوں نٹور سنگھ وزارتِ خارجہ میں انڈر سکریٹری اور آئی. ایف. ایس (پرسونیل) کے شعبے کے انچارج تھے، انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ پنڈت نہرو نے میری فائل پر خود اپنے قلم سے چند سطور تحریر کی تھیں۔ نٹور سنگھ نے اس تحریر کو نقل کرکے قریبی احباب کے حلقے میں تقسیم بھی کیا تھا۔ انھوں نے وہ تحریر مجھے بھی دکھائی تھی۔ انگریزی میں لکھی گئی ان سطور کا مطلب کچھ یوں تھا: ’’میں شہاب الدین کو پٹنہ شورش کے زمانے سے جانتا ہوں۔ اس تحریک میں ان کی شمولیت سیاسی نوعیت کی نہیں بلکہ وہ ان کی سرگرمی نوجوانی کے جوش و خروش کا نتیجہ تھی‘‘۔ اس طرح نہروجی نے مجھے کلین چٹ دے دی تھی۔

اس سے 9 ماہ بعد جب ملک سے باہر میری پہلی تقرری ہونے والے تھی، نیز اپنی ضلعی تربیت کے بعد میں دہلی واپس آچکا تھا، اولاً مجھے اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل کے دورۂ ہند کے دوران ان کے انتظامات کی نگرانی کرنے کی ذمّے داری دی گئی۔ میں ان کے دورے میں ان کے ہمراہ ہر جگہ گیا، حتی کہ ان کے اعزاز میں دیے گئے وزیرِ اعظم کے عشائیے میں بھی۔ یہ عشائیہ تین مورتی ہاؤس میں تھا جہاں پنڈت نہرو کی رہائش تھی اور جسے بعد میں نہرو میوزیم اور لائبریری میں تبدیل کردیاگیا۔ کھانے کے بعد تمام مہمان کھلے ٹیرس پر کوفی کی چسکیاں لے رہے تھے، تبھی کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں مڑا تو نہروجی میرے سامنے تھے۔ انھوں نے بڑی شفقت سے کہا،’اچھا تو بہار کے وہ شرارتی لڑکے تم ہو۔’

جیساکہ میں نے عرض کیا، میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی باضابطہ تعلق نہیں تھا، لیکن نظریاتی طو رپر میں بائیں بازو کے نظریات کا قائل تھا اور اب بھی ہوں۔ اس بات کی وضاحت پارلیامان میں میرے پندرہ برسوں کی کارکردگی سے بھی ہوجاتی ہے جہاں میں نے خالص مسلم امور، مثلاً مسلم پرسنل لا اور بابری مسجد کے علاوہ کسی بھی مسئلے پر بائیں بازو کی جماعتوں کے موقف کے برعکس کوئی اور موقف اختیار نہیں کیا۔ یہی بات میرے پورے سیاسی و عوامی کریر اور ذاتی زندگی پر بھی صادق آتی ہے۔

یہ خیال عام ہے کہ ایک آئی ایف ایس افسر کی حیثیت سے آپ کو حکومت کا مکمل اعتماد حاصل تھا، نیز آپ وزیرِ اعظم مسز گاندھی کے بھی بہت قریب تھے، اس لیے، آپ کے بارے میں طرح طرح طرح کی کہانیاں اب بھی گردش کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جدہ کے اسلامی ترقیاتی بینک (Islamic Development Bank) نے، حکومتِ ہند کے توسط سے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ایک امدادی رقم مختص کرنے کی جب پہلی بار پیش کش کی تھی، تب آپ نے اس تجویز کی ایک افسر کے طور پر شدید مخالفت کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہے تو آپ کی مخالفت کے اسباب کیا تھے؟

 میں تین برس (1963سے66) سعودی عرب میں اپنی خدمات انجام دے چکا تھا، اس کے بعد ہی جدہ کے اسلامی ترقیاتی بینک کی تجویز سامنے آئی تھی جس کے مطابق مجوزہ رقم کو ہندستان کی مسلم تنظیموں کو دیا جانا تھا۔ دراصل میں جس ملک میں بھی رہا، وہاں میں نے اپنے ملک کے طے شدہ مقاصد کے لیے ذاتی سطح پر بااختیار اور طاقت ور افراد سے تعلقات قائم کیے جو ایک ڈپلومیٹ کے فرائض کا لازمی حصہ ہے۔

اس کے علاوہ ایسے تمام حضرات سے بھی ربط قائم رکھا جو ہندستان کے امور نیز اس کی خارجہ پالیسی سے دل چسپی رکھتے تھے۔ ان میں ایک ڈاکٹر احمد محمد علی بھی تھے جو جدہ کے اسلامی ترقیاتی بینک کے سربراہ تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ کا بینک واقعی ہندستانی مسلمانوں کی فلاح سے دل چسپی رکھتا ہے تو اسے ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کے لیے امداد فراہم کرنا چاہیے اور اندرونِ ملک ہی نہیں ملک سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی ہندستانی مسلم طلبہ کو مالی امداد فراہم کرنا چاہیے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ ایسے تمام طلبہ تعلیم سے فراغت کے بعد یقینی طور پر ہندستان واپس آئیں گے۔

میں نے اس سلسلے میں چند ہم خیال افراد سے بھی تبادلۂ خیال کیا تھا۔ انہی لوگوں نے غیر رسمی طور پر اس سلسلے میں مسز گاندھی سے بات کی۔ اس پر ان کا ردِّعمل یہ تھا کہ اگر اسلامی ترقیاتی بینک ہندستان کے مسلم طلبہ کی تعلیمی ترقی میں تعاون دینا چاہتا ہے تو وہ اس کی راہ میں نہیں آئیں گی۔ اب یہ ایک الگ سوال ہے کہ آیا اس سلسلے میں کیا حکومتِ ہند واقعتا سنجیدہ تھی کیوں کہ غیر ملکی سرمایے کی آمد کے لیے ایف سی آر اے (Foreign Contribution & Regulation Act) کے تحت اُس ادارے کا رجسٹریشن وزارتِ داخلہ کے ساتھ لازمی ہے جو غیر ملکی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اس رجسٹریشن کی اجازت انٹلیجنس بیورو کی رضامندی سے ہی ملتی ہے۔ کسی بھی مسلم تنظیم یا ادارے کے لیے یہ رضامندی حاصل کرنا جوے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ مسلم اداروں کا تکنیکی معاملات کے تئیں نہایت غیر ذمے دارانہ رویّہ بھی ہے۔ اکثر اداروں کے پاس وہ ضروری کاغذات ہوتے ہی نہیں ہیں جو FCRA رجسٹریشن کے لیے ضروری ہیں اور جنھیں ہر ادارے کے پاس ہونا چاہیے۔ اس کے بعد مکّے میں منعقدہ ایک بین الاقوامی تعلیمی کانفرنس کے دوران اسلامی ترقیاتی بینک کے منصب داروں کو مسز اندرا گاندھی کے ذریعے دی گئی یقین دہانی سے واقف کردیا گیا تھا۔

اسلامی ترقیاتی بینک نے بعض وجوہ کی بنا پر یہ رقم حکومتِ ہند کے توسط سے ہی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ بیّن طور پر حکومتِ ہند اور اسلامی ترقیاتی بینک کے مابین کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور نہ آج ہے۔ چوں کہ بینک بھی گرانٹ دینے کے معاملے میں کافی محتاط طریقے سے کام کرتا ہے، اس لیے، اس پروگرام کے سلسلے میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے بینک ہندستان میں انہی افراد کو منتخب کرتا ہے جو اربابِ اختیار کے قریب ہوں۔

اس کے بعد اپنے سفرِجدہ کے دوران ڈاکٹر احمد محمد علی اور ان کے رفقا سے کئی بار مل چکا ہوں اور ہر بار میں نے اصرار کیا ہے کہ امدادی رقم میں اضافہ کیا جائے۔ ایک موقعے پر مجھے بتایا گیا تھا کہ انھوں نے ہندستان کے لیے پانچ کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی ہے لیکن وہ پوری رقم یہاں استعمال نہیں کی جاسکی ہے۔ دراصل بہت سے مسلم اداروں کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ امداد کس طرح حاصل کی جاتی ہے، کس طرح وزارتِ داخلہ سے اجازت حاصل کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ وہ فائل بہ حیثیت آئی ایف ایس افسر کبھی میرے پاس آئی تھی یا حکومتِ ہند نے اس معاملے میں باضابطہ طور پر میری راے طلب کی تھی اور انھوں نے میری مخالفت کے باوصف فیصلہ کیا تھا۔

 قابلِ غور امر ہے کہ آپ جب حکومتِ ہند کا ایک حصّہ تھے اُس وقت مرکزی حکومت صرف مسز گاندھی سے عبارت تھی جنھوں نے پاکستان کو دو لخت کرنے اور بنگلہ دیش کے قیام میں فیصلہ کن رول ادا کیا۔ یہ بات دل چسپ ہے کہ ایک مسلم آئی ایف ایس افسر کے طور پر آپ نے اندرا گاندھی کے اس قدم کی حمایت میں بین الاقوامی راے عامہ ہموار کرنے میں اپنی پوری طاقت ہی نہیں لگائی بلکہ قیامِ بنگلہ دیش کی تحریک کے دوران بھی آپ نے حکومتِ ہند کے نمائندے کی حیثیت سے مسلم ممالک میں اس منصوبے کے حق میں راہ ہموار کی تھی۔ اس سلسلے میں عام خیال ہے کہ آپ کی وہ کارکردگی خود آپ کے اس سیاسی موقف سے میل نہیں کھاتی جو آپ نے سیاست میں آنے کے بعد ایک مسلم رہ نما کے طور پر اختیار کیا؟

 جہاں تک بنگلہ دیش کے قیام کا تعلق ہے تو میں نے بلاشبہ اس کے قیام کے لیے بین الاقوامی راے عامہ ہموار کرنے کے لیے کام کیا۔ مولانا آزاد کی طرح مجھے بھی برسوں پہلے یہ ادراک ہوگیا تھا کہ پاکستان کا جادو زیادہ عرصے تک چلنے والا نہیں ہے۔ دراصل نظریۂ پاکستان کی ناکامی کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہاں کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا اور یہ رویّہ آج تک جاری ہے۔

ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے جو مسلمان مشرقی پاکستان میں قیام پذیر ہوئے اور جنھیں بنگلہ دیش بننے کے بعد بہ وجوہ وہیں رہ جانا پڑا، اب وہ نہایت کس مپرسی کی حالت میں ہیں اور ان کے حالات ناقابلِ بیان ہیں اور ان سے پاکستان تو کیا دنیا کے کسی بھی مسلم ملک کو اب کوئی دل چسپی اس حقیقت کے باوصف نہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دور میں وہ مسلمان پوری طرح پاکستان کے ساتھ تھے جس کی اب انھیں نہایت اذیت ناک سزا مل رہی ہے۔ ان میں اکثریت بہار کے لوگوں کی ہے۔

میں نے اپنی متعدد تحریروں میں اس امرکا اعادہ کیا ہے کہ بنگلہ دیش کا قیام ہندستانی مسلمانوں کی سیاست کا ایک اہم واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد ہندستانی مسلمانوں کو پہلی بار صحیح معنوں میں یہ احساس ہوا کہ اب پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اُس وقت ہندستانی مسلمانوں کو یقین ہوگیا تھا جو اب اور پختہ ہوگیا ہے کہ ایک ہندستانی شہری کے طور پر اپنے وجود کو تسلیم کرانا ہندی مسلمانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔

ان کی تمنا اور خواہشات کی تکمیل کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ خود اپنے ملک ہندستان میں ان کی حیثیت کیا ہے۔ اس اعترافِ حقیقت نے نہ صرف ہندستان کے مسلمانوں کو ایک صحیح راستے پر گامزن کیا بلکہ انھیں حوصلے کے ساتھ یہ عزم بھی بخشا کہ انھیں پامردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی بات پر قائم رہنا ہے اور اپنے وجود کو تسلیم کروانا ہے۔ میرے خیال میں یہ سچائی مسلّم ہے کہ کسی بھی آمر و ظالم حکومت کے ظلم و ستم کے شکار عوام کو انسانی بنیادوں پر عالمی حمایت حاصل ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش کا قیام ہندستانی مسلمانوں کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ میرا یقین ہے کہ یہ واقعہ ہی ہندستانی سیاست میں مسلمانوں کے معاشی حالات بہتر کرنے کی ابتدا اور ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے عملی کردار کا باعث بنا۔ 1971 سے قبل ہندستان کے مسلمان اپنی بات کھل کر نہیں کہتے تھے۔ یہ اس کے بعد ہی ہوا کہ وہ اپنے مسائل کا ذکر بہ آوازِ بلند کرنے لگے۔ اس لیے میرے سیاسی نظریے کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام نے پورے برِّصغیر کی سیاست بالخصوص ہندستانی مسلمانوں کے ذہن و دماغ پر زبردست اثرات مرتّب کیے ہیں۔

مشرقی پاکستان کے زوال اور بنگلہ دیش کے قیام کی جدوجہد کے دوران میں نے وہ تمام کاوشیں کیں جو ممکن تھیں بلکہ میں نے اس سلسلے میں اپنے فرائضِ منصبی کی حدود سے بڑھ کر کام کیا۔ میں اُس وقت ونیزولا میں چارج ڈی افیئر تھا۔ اس سلسلے میں میری کاوشوں کی ستایش کی گئی اور وزارتِ خارجہ نے مجھے ایک توصیفی مکتوب بھی روانہ کیا تھا جس میں تحریر تھا کہ لاطینی امریکہ میں ہندستان کے چار مستحکم اور دیرینہ سفارت خانوں نے اتنا کام نہیں کیا جتنا کہ تنہا میں نے انجام دیا تھا۔ وہاں میں تنہا تھا مگر میں نے دن رات ایک کردیا۔

میں نے ہسپانوی زبان سیکھ کر اس پر عبور حاصل کرلیاتھا اور ونیزولا کے معاشرے میں تمام شعبوں میں میرے روابط اس حد تک تھے کہ جب بھی ونیزولا کے صدر ڈاکٹر ایفریل کنڈیرا سے میری ملاقات ہوتی وہ مجھے گلے لگاتے اور چارج دی افیئر نہیں بلکہ سفیر کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ جب کراگاس میں پارلیامانی اداروں کی بین الاقوامی کانفرنس ہوئی تو ونیزولا کے صدرِ مملکت نے مہمانوں کے اعزاز میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا۔ ہندستانی پارلیامان کے اسپیکر جی. ایس. ڈھلوں ہندستانی وفد کے قائد تھے۔ میں انھیں لے کر ایوانِ صدارت میں گیا اور انھوں نے یہ بات محسوس کی کہ وہاں کے صدرِ مملکت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام اہم لوگوں کے ساتھ میرے دوستانہ مراسم تھے۔ جب ہم رخصت ہونے لگے اور میں نے صدرِ مملکت کا شکریہ ادا کیا تو انھوں نے جواب ہسپانوی زبانوں میں دیا اور کہا ’’یہ آپ کا اپنا گھر ہے‘‘۔ دراصل یہ ایک تاریخی ہسپانوی روایت کا حصہ ہے جس کی جڑیں عرب تہذیب و تمدن میں ہیں۔ جب میں نے اس کا ترجمہ کیا تو ڈھلوں جی بہت خوش ہوئے۔

syed-shahabuddin-mushawarat

فوٹو: مشاورت

اب میں بنگلہ دیش کے واقعے کے پس منظر کی طرف آتا ہوں۔ مسز اندرا گاندھی 1967 میں ونیزولا کے دورے پر گئی تھیں۔ وہ اس ملک کا دورہ کرنے والی پہلی ہندستانی وزیرِاعظم تھیں۔ وہاں انھوں نے ہندستانی سفارت خانہ قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سے قبل جنوبی، وسطی اور لاطینی امریکہ میں ہندستان کے صرف چار سفات خانے تھے۔ یہ سفارت خانے میکسیکو، برازیل، چلی اور ارجنٹینا میں تھے۔ مسزا گاندھی نے پیرو کا بھی دورہ کیا تھا اور وہاں بھی سفارت خانہ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس طرح 1969 میں ونیزولا میں ہندستان کا سفارت خانہ قائم ہوا اور میں وہاں ہندستانی سفارت کار کے طور پر پہلا نمائندہ تھا جس کا تقرر چارج ڈی افیئر کی حیثیت سے ہوا کیوں کہ میری ملازمت ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئی تھی کہ میں باقاعدہ سفیر بن سکتا اور میرے ایک ساتھی ایلن نذارتھر، جو مجھ سے دو برس جونیئر تھے، وہ پیرو میں مامور کیے گئے۔ وہ سابق مرکزی وزیر مارگریٹ الوا کے چھوٹے بھائی تھے۔ 1971 میں ونیزولا میں میرا وقت بہت اچھا گزرا۔ میری کوششوں سے ونیزولا کی پارلیامنٹ نے بنگلہ دیش کے قیام کی حمایت میں تین بار تجاویز منظور کیں۔

میں نے وہاں کے کیتھولک چرچ کی حمایت بھی حاصل کرلی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں کی مزدور یونین کی حمایت بھی ہمیں حاصل ہوگئی تھی۔ 1972 میں جب میں ونیزولا سے رخصت ہونے لگا تو وہاں کے واحد انگریزی اخبار ’دی ڈیلی جرنل‘ نے ایک اداریہ شائع کیا جس میں مجھے بنگلہ دیش کا اعزازی سفیر قرار دیا گیا۔ اس بحران کے دوران حکومتِ ہند نے کابینہ درجے کے وزیر راج بہادر کو ہندستان کی مشرقی پاکستان میں مداخلت سے قبل جنوبی امریکہ کے کئی ملکوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ مجھے ان کی ہم رکابی کے لیے مامور کیا گیا تھا، لہٰذا میں نے ان کے ساتھ جنوبی امریکہ کے کئی ممالک کا دورہ کیا۔ اس دورے کے بعد انھوں نے مجھے ایک طویل توصیفی مکتوب بھی ارسال کیا تھا۔

میں نے تمام عرب سفرا کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرلیے تھے اور میں مسلم ممالک نیز عرب ممالک میں رونما ہونے والے واقعات پر بھی نظر رکھ رہا تھا لیکن اس وقت ہندستانی مسلمانوں کے مسائل میرے کام کا حصہ نہیں تھے، اس لیے، میں نے کسی مسلم ملک کا دورہ نہیں کیا۔ تاہم میں نے ہندستانی وزارتِ خارجہ کے ایک کارکن کی حیثیت سے اپنے ملک کے مفاد میں جو کچھ کرسکتا تھا، وہ سب کچھ کیا۔

یہ افواہیں بھی گرش کرتی رہی ہیں کہ وزارتِ خارجہ میں اپنی خارجہ خدمات کے دوران آپ کے بعض فرائضِ منصبی خفیہ نوعیت کے بھی تھے، نیز ایسی ہی ایک مہم کے دوران گولی لگنے سے آپ زخمی بھی ہوگئے تھے، اس کی حقیقت کیا ہے؟

دراصل الجزائر میں میری مدتِ کار (1972-75) کے اختتام پر جو بالاتفاق بیرونِ ملک میرے خدمتی دور کا خاتمہ بھی ثابت ہوئی، نیز بہ حیثیتِ سفیر یہ میری واحد پوسٹنگ تھی اور وہاں سے میں واپس ہندستان میں محکمۂ خارجہ کے صدر دفتر میں آگیا تھا۔ مذکورہ واقعہ جون 1975 میں ظہور پذیر ہوا تھا۔ اُس وقت تک مجھے اپنے تبادلے کے احکام بھی موصول ہوچکے تھے اور میں الجزائر سے مراجعتِ وطن کے لیے تیار تھا کہ ایک دن میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکلا ہوا تھا۔

میں اپنی ذاتی موٹر خود چلارہا تھا۔ ہم کوئی مناسب و موزوں جگہ تلاش کررہے تھے جہاں بہ غرضِ تفریح قیام کیا جاسکے، تبھی ہمارا گزر ایک چھوٹی سی پہاڑی سے ہوا جس میں صدر دروازہ بھی لگا ہوا تھا مگر وہ بند نہیں تھا۔ میں نے اپنی موٹر کو صدر دروازے کے اندر کے پہاڑی راستے پر موڑ دیا اور چڑھائی چڑھنے لگا۔ جب ہماری گاڑی چوٹی پر پہنچنے والی تھی تبھی مجھے ایک مکان نظر آیا جسے دیکھتے ہی میں نے فوری طور پر اپنی کار کو واپسی کے لیے موڑا مگر اس سے قبل کہ ہم کچھ دور جاسکتے وہاں مامور مسلح محافظوں نے گولی چلانا شروع کردی۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی چھرّوں کا نشانہ بن گئی اور بری طرح زخمی ہوگئی۔ میرے اور میری اہلیہ کے بھی کچھ چھرّے لگے اور میری بڑی بیٹی کی کمر میں گولی لگ گئی۔

یہاں میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میں وہاں کسی خفیہ مہم پر نہیں گیا تھا اور ہمارے اوپر ہونے والے اس حملے کا بھی کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا۔ تاہم اس حادثاتی واقعے نے مجھے آمرانہ حکومت اور اس کے طریقِ کار سے واقف کرادیا۔ دراصل وہاں سابق الجزائری قائد بن بیلا نظربند تھے اور اسی دن انھیں وہاں سے کسی دوسرے مقام پر منتقل کیا جانا تھا، اس لیے، حفاظتی دستے کو حکم تھا کہ اس مکان کی جانب جو کوئی بھی پیش رفت کرتا نظر آئے اسے براہِ راست گولی کا نشانہ بنادیا جائے۔

اس کے بعد جب وہاں کے فوجی اسپتال میں ہم لوگوں کا علاج ہورہا تھا تو اس علاقے کا نگراں اعلا فوجی افسر جو ملکی انقلابی کونسل کا کارکن بھی تھا، میری عیادت کو بہ طورِ خاص آیا اور اس نے مکمل اخلاقی آداب کے ساتھ اس واقعے کے لیے مجھ سے معافی طلب کی۔ اس نے کھل کر مجھے یہ بھی بتایا کہ سامراجی قوتیں بڑی شاطر اور ہوشیار ہیں اور کسی بھی طرح بن بیلا کو وہاں سے اڑا لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔

تب میں نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سامراجی قوتیں اپنے مامور کردہ مہم کاروں کو ایسے مشن پر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ لے جانے کا لائحۂ عمل مرتّب کرنے کا مشورہ دیں! میں نے یہ سوال بھی کیا کہ وہاں داخلہ ممنوع کیوں نہیں تھا، نیز وہاں اس قسم کی تنبیہی عبارت کیوں موجود نہیں تھی کہ وہاں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے اس سوال کا مجھے بڑا دل چسپ جواب ملا۔ اعلا فوجی افسر نے بتایا کہ کوئی بھی نشان دنیا کو یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ اس مقام کی کوئی خاص حفاظتی اہمیت ہے۔

اگرچہ میں سہواً اس خفیہ حفاظتی مقام پر پہنچ گیا تھا اور ظاہر ہے کہ اس کا کوئی سیاسی پہلو نہیں تھا، مگر اس واقعے نے تمام سفارتی حلقوں میں ایک قسم کی ہلچل مچادی اور تمام سفرا نے یہ محسوس کیا کہ حکومتِ ہند کو اس واقعے پر اپنا شدید احتجاج درج کرانا چاہیے مگر نئی دہلی میں ہمارے افسرانِ اعلا نے اس واقعے کو خاموشی سے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وزارتِ خارجہ کے اس طریقِ کار کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواہ مخواہ کی افواہیں گردش کرنے لگیں اور لوگ یہ قلابے ملانے لگے کہ میں وہاں حکومتِ ہند کی کسی خفیہ مہم پر تھا اور قصداً اس حفاظتی علاقے میں دراندازی کی کوشش میں نے کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں خود اس واقعے پر ششدر بھی تھا اور مجھے اس امر سے سخت مایوسی بھی ہوئی تھی کہ ہماری حکومت نے اس واقعے پر ایک رسمی احتجاج کرنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔

اُس وقت تک میں الجزائر میں اپنی تین سالہ مدتِ کار کی تکمیل کرچکا تھا اور میری روانگی طے تھی، اس لیے، جلد ہی میں وہاں سے وطن واپس آگیا۔ البتہ اتنا ہوا کہ حکومتِ الجزائر نے فوجی اسپتال میں میرا علاج کرایا اور اس وقت کے الجزائری وزیرِ خارجہ عبدالعزیز بوطیفکا (جو اَب وہاں کے صدرِ مملکت ہیں) نے مجھے ایک خوب صورت، مہکتا ہوا گلدستہ بھیجا اور میری جلدی صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
الجزائر میں میرے قیام کے دور کا ایک اور واقعہ لائقِ تذکرہ ہے۔ اسی سال 25 جون کو اپنی گرفتاری سے قبل جے پرکاش نرائن نے دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کیا تھا۔ اس سلسلے میں ہماری وزارت نے تمام سفارت کاروں کو واضح ہدایات مرسل کی تھیں کہ ہمیں اس واقعے کو اُس ملک میں کس طرح پیش کرنا تھا جہاں ہم برسرِکار تھے۔ تمام سفارت کاروں کو یہ ہدایت نامہ جاری کیا گیا تھا کہ وہ جہاں مامور ہیں وہاں کی حکومت کو یہ باور کرائیں کہ جے پرکاش نرائن نے مذکورہ جلسے میں ہندستانی افواج اور محکمۂ پولیس کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا نعرہ دیا تھا۔

دراصل اس معاملے میں اندرا گاندھی کی حکومت نے عوامی تشہیر کی سطح پر یہی رویّہ اختیار کیا تھا۔ یہاں میں یہ دعویٰ کرنا چاہتا ہوں کہ میں وہ واحد ہندستانی سفیر تھا جس نے حکومتِ ہند کی اس ہدایت کو قبول نہیں کیا اور اس نہج پر حکومتِ الجزائر کو واقفیت فراہم کرانے سے انکار کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ سے درخواست کی کہ مجھے جے پرکاش جی کی تقریر کی ریکرڈنگ فراہم کرائے تبھی میں اس کے احکام پر عمل کرسکتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا کیوں کہ جے پرکاش نرائن نے یہ بات کہی ہی نہیں تھی۔

سید صاحب! آپ کی سیاسی زندگی ہم تمام لوگوں کے لیے تعجب خیز رہی ہے اور آپ ہندستانی سیاست میں ایک متنازعہ فیہ مسلم رہ نما کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ اپنے سیاسی کریر میں آپ نے دیگر تمام مسلم سیاست دانوں حتیٰ کہ مذہبی پیشواؤں اور جماعتوں تک کو مجبور کیا کہ وہ آپ کی ہدایات پر عمل کریں۔ محمد علی جناح نے بھی بالکل یہی کیاتھا۔ انھوں نے سیاست تو کی مسلمانوں کی مگر مسلم رہ نماؤں اور مسلم علما اور بڑے سے بڑے مذہبی قائدین کو اپنے احکام پر عمل کرنے کے لیے مجبور کیا۔

مذہبی علما اور قائدین کی بے بسی کی ان دو واقعات کے علاوہ برِّصغیر کے مسلم تاریخ کی شاید ہی ایسی کوئی اور مثال موجود ہو۔ آپ کا رویہ کسی بھی حکومت کے ساتھ دوستانہ کبھی نہیں رہا اور اپنی پارلیامانی زندگی کے پندرہ بیس برس کے عرصے میں آپ نے ایوان میں بھی اپنی شرطوں ہی پر کام کیا۔ یہ بات کہنا شاید آپ کو ناپسند ہو اور جارحانہ بھی لگے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی سیاست سے ملتِ مسلمہ کے لیے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا اور نہ ہی آپ کی سیاست نے مسلم رہ نماؤں کے لیے سیاسی اقدار کا کوئی مثبت نمونہ بھی پیش کیا

بہرکیف، اس سلسلے میں تجزیے و نتائج اخذ کرنے کا کام تو مستقبل کے مورخین پر چھوڑ دینا چاہیے، تاہم چند امور کا ذکر لازم ہے۔ آپ نے شاہ بانو مقدمے اور بابری مسجد بازیابی تحریک میں ہندوؤں میں احیا پرستی اور شناخت کے احتجاجی عناصر اور ایک نئی قسم کی بیداری کو جنم دیا جس کے شاخسانے کے طور پر ہندوؤں میں اکثریتی غلبے کا رجحان پروان چڑھا، اس ضمن میں آپ کا موقف کیا ہے؟

 دیکھیے، دراصل میرا سیاسی نصب العین یہ تھا کہ ملّتِ مسلمۂ ہند اور قومی سیاست کے مابین حائل خلیج کو پُر کیا جائے اور دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔ ایک بات میں وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب میں ایوانِ پارلیامان میں تھا تب بھی اور آج بھی کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ نہیں جس کا تعلق قومی سیاست سے ہو یا وہ ملّتِ مسلمہ کے لیے اہمیت کا حامل ہو اور اگر وہ میرے علم میں آیا ہو تو میں نے اس سلسلے میں حتی المقدور قدم نہ اٹھایا ہو۔ میرا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ مسلمانوں کی جائز شکایات، ان کے محسوسات، ان کے مفادات، یہ سب ملک کے سامنے آئیں۔

ملک ان سے واقف ہو اور ان امور پر قومی راے بنے۔ ان سب مسائل کو میں نے بڑے ہی متوازن طریقے سے، انتہاپسند رویّے کے تحت نہیں بلکہ ملکی آئین کی حدود کے اندر اٹھایا ہے، یہی میرا بنیادی طریقِ کار رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پارلیمنٹ میں میری موجودگی نے ان تمام مسائل کو منظرِعام پر لانے کا موقع فراہم کیا۔ اس سلسلے میں نہ تو کبھی کسی صلے کی تمنا کی اور نہ ہی مجھے کسی قسم کی تنقید کی پروا ہوئی۔

میں نوکری سے سبک دوش ہو نے کے آٹھ ماہ کے اندر ایوانِ پارلیامان میں پہنچ گیا اور بہت جلد مجھے مسلم طبقے کے ترجمان کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا تھا۔ اس سے آگے میری کوئی تمنا نہ بھی نہیں تھی ۔ میری سیاست کے متعدد مثبت نتائج برآمد ہوئے، مثلاً وزیرِاعظم کا پندرہ نکاتی پروگرام اور گوپال سنگھ پینل کی سفارشات سامنے آئیں۔ ان پر کتنا عمل ہوا یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور اگر ان پر عمل نہیں ہوا تو اس کے لیے کون ذمے دار ہے، یہ بھی تاریخ ہی طے کرے گی۔

فوٹو: مشاورت

فوٹو: مشاورت

دیکھیے ایک بار اگر سیاسی جراثیم آپ کے اندرون میں درآئیں تو انھیں نکال باہر کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ میں اولاًدرس و تدریس سے وابستہ ہوا اور بہ حیثیت لیکچرر میں نے اپنا کریر شروع کیا۔ اس کے بعد میں نے انڈین فارن سروس میں ملازمت کی اور بیس برس تک کرتا رہا۔ تاہم میں اس پورے عرصے میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ ملازمت کو چھوڑدوں۔ بہرکیف، وقت گزرتا رہا، آخر میں نے دل پکّا کیا، ملازمت سے استعفیٰ دیا اور عوامی زندگی میں کود پڑا۔

یہ 1975 کے ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد کی بات ہے۔ میں ہندستان واپس آگیا تھا اور میں نے وزارتِ خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری کی حیثیت سے اپنی نئی ذمے داری بھی سنبھال لی تھی۔ میں نے اپنے سینئر مسٹر آر. کے. ترویدی کو فون کیا جو اُس وقت وزارتِ داخلہ میں اسپیشل سکریٹری تھے۔ ترویدی صاحب ہماری ٹریننگ کے وقت یعنی 1958 میں آئی. اے. ایس ٹریننگ اسکول کے ڈپٹی ڈائرکٹر تھے۔ وہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ جب میں نے انھیں اپنے انقلابی فیصلے کے بارے میں بتایا کہ میں سرکاری ملازمت سے سبک دوش ہوکر سیاست میں آنا چاہتا ہوں تو انھوں نے میری سرزنش کی اور کہا کہ میں یہ حماقت ہرگز نہ کروں۔

انھوں نے درشت لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ اس طرح مجھے کیا حاصل ہوگا؟ انھوں نے کہا کہ ہزاروں افراد پہلے ہی جیل خانوں میں ہیں اور میں صرف ان کی تعداد میں ایک عدد کا اضافہ ہی کر پاؤں گا، اس سے زیادہ کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ میرے اس رویّے کی وجہ سے جب میرے اہلِ خانہ سڑک پر ہوں گے، تب ان کی نگہداشت کون کرے گا، کون ان کا خرچ اٹھائے گا؟ اس کے بعد انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ ایک اسکیم پر کام کررہے تھے جس کے تحت بیس برس کی مدتِ ملازمت مکمل کرلینے والے افسران کو رضاکارانہ طور پر قبل از وقت ملازمت چھوڑنے کا موقع ملے گا۔ نیز وہ پوری پنشن کے حق دار ہوں گے۔

پھر انھوں نے مجھے مشفقانہ مشورہ دیا کہ میں چوں کہ اپنی ملازمت کی مدت کے اٹھارہ برس گزار چکا تھا، اس لیے، میں ذرا تحمل رکھوں اور ابھی ملازمت جاری رہنے دوں۔ اس وقت تک یہ بات نہ انھیں پتا تھی اور نہ مجھے کہ ہنگامی حالات یعنی ایمرجنسی کا بہت جلد خاتمہ بالخیر ہونے والا ہے۔ تاہم اس وقت کی وزیرِاعظم مسز اندرا گاندھی نے ترویدی صاحب کی تجویز کو اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ چوں کہ سرکاری ملازمین کی صفوں میں بے چینی ہے، اس لیے، اس اسکیم کا فائدہ اٹھاکر بہت سے اچھے افسران پہلی فرصت میں سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ دیں گے۔

یہاں یہ ذکر کرنا لازم ہے کہ اس وقت میرے ہم پلہ تین اعلا افسران وزارتِ خارجہ میں تھے، ایک مچکند دوبے (جو بعد ازاں خارجہ سکریٹری کے منصب تک پہنچ کر وظیفہ یاب ہوئے) دوسرے ایس. وی. پرشوتم اور تیسرا یہ خاکسار؛ ہم تینوں ہی پٹنہ یونی ورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے اور تینوں کا تعلق بہار سے تھا۔ ہم تینوں کے بارے میں عام خبر تھی کہ ہم لوگ ایمرجنسی کے مخالف تھے۔ ہم تینوں کو بہار کے تیز تلنگے کہا جاتا تھا، لیکن چوں کہ ہم تینوں کاسروس ریکرڈ بہت اچھا تھا اور ہم مستقل اعلا سرکاری ملازم تھے، اس لیے، ہمیں ہاتھ لگانا آسان نہ تھا۔

اس کے بعد عام انتخابات ہوئے اور مسز گاندھی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ نہ صرف ان کی جماعت حکومت سے محروم ہوئی بلکہ وہ خود اپنی نشست بھی گنوا بیٹھیں۔ اس موقعے پر میں پھر ترویدی صاحب کے پاس پہنچا اور ان سے رہ نمائی طلب کی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ چوں کہ ایڈمنسٹریٹو ریفارم کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے مذکورہ ’قبل از وقت سبک دوشی تجویز‘ کے اصل خالق مرارجی ڈیسائی تھے اور اب وہ ملک کے وزیرِاعظم تھے، اس لیے، وہ اپنی تجاویز ازسرِخوان کی خدمت میں پیش کرنے والے تھے اور انھوں نے ایسا کیا بھی، تاہم اس منصوبے کی منظوری میں خاصا وقت لگا۔ اس کے علاوہ اس میں ایک خاص ترمیم بھی کی گئی۔

بنیادی نظریہ یہ تھا کہ بے داغ ملازمت کے حامل تمام افسران کو بیس برس کی مدتِ کار کی تکمیل کے بعد رضاکارانہ طور پر قبل از وقت وظیفہ یابی کی سہولت دی جائے، مگر مرارجی ڈیسائی نے اس مدت میں پانچ برس کے وزن کی شرط لگا دی تھی جس کے سبب مجھے پوری پنشن نہ مل سکی۔ مجھے جو پنشن اُس وقت ملنی شروع ہوئی وہ صرف ایک ہزار روپے تھی۔ چوں کہ میرا معاملہ رضاکارانہ طور پر وظیفہ یاب ہونے کا کا اولین معاملہ تھا اور اولین معاملے کے تصفیے میں خاصا وقت لگتا ہے، اس لیے، میری فائل اربابِ اختیار کی میزوں کے درمیان گردش کرتی رہی۔

میرے آئی. اے. ایس کے ایک ساتھی اس معاملے کو دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے مجھ سے فون کرکے کہا کہ میں جلد بازی نہ کروں، حکومت زیادہ سے زیادہ پنشن کی حد میں اضافہ کرکے اسے پندرہ سو روپے ماہوار کرنے کی تجویز پر غور کررہی تھی، اس لیے، میں چند ماہ اور انتظار کرلوں، مگر میں نے انھیں بتایا کہ حکومت کے پاس یہ اختیار ضرور تھا کہ وہ میری درخواست کے بعد بھی مجھے دو برس ملازمت میں رکھ سکتی تھی، مگر میں نے خصوصی طور پر اس مدت میں تخفیف کرکے پنڈت نہرو کے یومِ پیدائش 14نومبر کو سبک دوش کردینے کی استدعا حکومت سے کی تھی، اس لیے، میں اپنی ملازمت کو مزید تین ماہ تک برقرار رکھنے کی خواہش ازخود ظاہر نہیں کرسکتا تھا اور وہ بھی محض پنشن میں اضافے کے لیے!

یہاں اس سیاق و سباق میں ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عام خیال یہ ہے کہ اُس وقت کے وزیرِخارجہ اٹل بہاری باجپئی نے مجھے ملازمت چھوڑنے کی ترغیب اس لیے دی تھی کیوں کہ وہ مجھے سیاست میں لانا چاہتے تھے۔ نیز یہ خیال بھی ہے کہ وہ میری سیاسی زندگی کی ابتدا کے لیے ذمّے دار بھی تھے اور میرے سرپرست بھی۔ یہ تمام باتیں سراسر غلط ہیں۔ یہ درست ہے کہ بہ حیثیت وزیرِ خارجہ باجپئی جی مجھ پر مہربان رہتے تھے او رمجھے ان تک بہ آسانی رسائی حاصل تھی، کیوں کہ میری عام شہرت یہ تھی کہ میں ایمرجنسی کے مخالفین میں شامل تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے کم از کم تین مرتبہ مجھے اس مقصد سے طلب کیا کہ میں اپنی سبک دوشی کی تجویز واپس لے لوں۔ پہلی بار اپنے دفتر میں، دوسری بار آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں جہاں وہ زیرِ علاج تھے اور تیسری مرتبہ اپنی رہائش گاہ پر۔ جب تیسری مرتبہ میں ان سے ملا تو میں اپنے ساتھ پروین شاکر کی ایک غزل لے کر گیا تھا جو میں نے کسی اردو اخبار میں پڑھی تھی۔ وہ غزل کماحقہٗ میری ذہنی حالت کی ترجمانی کرتی تھی۔ میں نے انھیں ایک ایسی بات بتائی تھی جو شاید وہ آج تک نہ بھولے ہوں۔

ایک مرتبہ پھر انھوں نے بڑی محبت اور شفقت سے مجھ سے دریافت کیا کہ آخر ایسی کیا بات تھی کہ میں انھیں چھوڑکر جانا چاہتا تھا، میں نے انھیں باور کرایا کہ میں صرف اپنی زندگی کی طے شدہ منصوبہ بندی پر عمل کررہا تھا۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ چوں کہ میں ملازمت میں جونیر ہوں اس لیے وہ مجھے کبھی امریکہ یا روس میں سفیر بناکر نہیں بھیجیں گے۔ وہ مجھے پاکستان بھی بھیجنا نہیں چاہیں گے کیوں کہ یہ مجھ سے زیادہ ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا جس کا سبب وہ بھی جانتے ہیں اور میں بھی، یعنی یہ کہ میں مسلمان تھا۔ اس پر وہ بہت زور سے ہنسے۔

میں نے ان سے مزید کہا کہ ان کے تمام سوالات کے جواب کے طور پر میں ایک غزل کے چند اشعار لایا ہوں۔ انھوں نے فوراً مجھ سے کہا کہ وہ شعر سناؤ۔ میں نے اشعار سنائے تو انھوں نے کہا کہ وہ تمام شعر میں انھیں دیوناگری رسمِ خط میں ٹائپ کراکے فراہم کردوں، میں نے یہی کیا اور اس کاغذ کی ایک نقل میرے پاس آج تک موجود ہے۔

میں نے اپنے وزارتِ خارجہ کے تمام رفقا کو اپنی قبل از وقت سبک دوشی کے فیصلے سے آگاہ کرنے کی غرض سے ایک مکتوب ارسال کیا۔ اس خط میں مَیں نے لکھا تھا کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ زندگی کا دھارا مجھے کہاں لے جائے گا۔ ویسے میرا ایک ارادہ یہ بھی تھا کہ میں پٹنہ واپس چلا جاؤں اور بہ طورِ وکیل کام شروع کردوں۔ جس دن میرا استعفیٰ باضابطہ طور پر منظور ہوا، اسی دن میں نے دہلی چھوڑ دی کیوں کہ میں جانتا تھا کہ تمام لوگ مجھ سے طرح طرح کے سوالات کریں گے اور مجھے خواہ مخواہ جواب دہی کرنی پڑے گی۔

میرا منصوبہ یہ تھا کہ میں وکالت کے راستے سے سیاست میں داخلے کی راہ نکالوں اور ایک دن قومی پارلیامان میں پہنچوں۔ تاہم بعد میں یہ سب کچھ بہت جلدی ہوگیا، اور میں اپنی ملازمت ترک کرنے کے محض آٹھ ماہ کے بعد ہی ایوانِ پارلیامان میں داخل ہوچکا تھا۔ میری نظر میں یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ پارلیمنٹ کی رکنیت نے مجھے اپنی بات آزادی سے اور بلاخوف و خطر کہنے کا موقع عطا کیا جس کا میں نے بھرپور اور نہایت بڑے موثر طریقے سے فائدہ اٹھایا اور جب بھی میں نے کسی موضوع پر، کسی مسئلے پر کچھ محسوس کیا، کچھ سوچا، اسے بڑے زوردار طریقے سے پیش کیا، الفاظ چبائے بغیر کھل کر اپنی بات کہی۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میرے موقف کے بارے میں کون کیا سوچے گا اور اس کا میری سیاسی زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔

بہرحال، مسز گاندھی (جو اَب تک بہ طورِ وزیرِ اعظم واپس آچکی تھیں) نے بہ خوبی سمجھ لیا کہ میں ان کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہوں، لہٰذا انھوں نے مجھے کئی عہدوں کی پیش کش کی جن میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی وائس چانسلری بھی شامل تھی تاکہ میں قومی سیاست سے ہٹ جاؤں۔ اس کے بعد مجھے وزارت کی پیش کش بھی ہوئی اور جسٹس آر. اے. انصاری کے انتقال کے بعد اقلیتی کمیشن کی سربراہی کی تجویز بھی آئی، مگر میں نے کسی ایک کو بھی قبول نہیں کیا۔

ایک دن نتیش کمار نے (جو اِس وقت بہار کے وزیرِ اعلا ہیں) اور اُن دنوں ایوان میں میری اور ان کی نشست بغل در بغل تھی) مجھ سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ کوئی قومی مسئلہ ایسا نہیں جس پر آپ کی سوچی سمجھی راے موجود نہ ہو۔ میں آپ کے نظریے سے اتفاق کروں یا نہ کروں، مگر یہ تو طے شدہ امر ہے کہ ہر مسئلے پر آپ نے غور و خوض کررکھا ہے۔ یہ ان کی راے تھی، تاہم میرے نزدیک سب سے اہم بات ہندستانی مسلمانوں کے مسائل تھے اور میرا مطمحِ نظر یہ تھا کہ مسلم ذہن اور قومی سیاسی نظام کے مابین ایک ربط، ایک رشتہ قائم کیا جائے تاکہ ان کی آواز قومی سطح پر سنی جاسکے۔

دونوں کے درمیان باہم افہام و تفہیم کا ماحول بن سکے، نیز مسلمانوں کو یہ یقین دہانی حاصل ہوسکے کہ انھیں ہندستان کے نظامِ حکومت میں جائز شراکت داری ملے گی اور قومی ترقی کے ثمر بھی ان کے حصے میں آئیں گے۔ اب آہستہ آہستہ یہ سب ہو بھی رہا ہے۔ میں نے 1989 میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی بات کی تھی تب تک کسی نے شاید یہ بات سوچی بھی نہیں تھی۔ اس کے بعد میں نے مسلسل 1994، 1998، 2002، 2009 اور 2010 میں اپنے اس مطالبے کا اعادہ کیا۔

اب یہ مطالبہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے اور کبھی نہ کبھی ثمربار ہوگا۔ میرے خیال میں یہ میری ایک مثبت خدمت ہے۔ اپنی رکنیت کے دور میں میں نے پارلیامان میں کیا کچھ کیا، اس پر ہم کسی دن تفصیل کے ساتھ بات کریں گے۔ قومی پارلیامان میں مجھے تین بار داخلے کا موقع ملا۔ میں مصروف ترین اور بامصرف رکن پارلیامان میں شامل تھا۔ نہ صرف مسلم مسائل کے تئیں بلکہ تمام قومی امور کے سلسلے میں میری راے کو نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔

(اطہر فاروقی ، انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔)