فکر و نظر

رویش کا بلاگ: کسانوں کو الو بنانے کے لئے  ضروری ہیں راشٹر واد کے نعرے

دیہی علاقوں میں نہ صرف زرعی آمدنی گھٹی ہے بلکہ اس سے جڑے کام کرنے والوں کی مزدوری بھی گھٹی ہے۔ وزیر اعظم مودی زرعی آمدنی اور مزدوری گھٹنے کو جوشیلے نعروں سے ڈھکنے کی کوشش میں ہیں۔

کشمیر میں فوج اور بی ایس ایف جوانوں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو، بہ شکریہ: پی آئی بی)

کشمیر میں فوج اور بی ایس ایف جوانوں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو، بہ شکریہ: پی آئی بی)

دیہی علاقے میں نہ صرف کھیتی  سے آمدنی گھٹی ہے بلکہ اس  سے جڑے کام کرنے والوں کی مزدوری بھی گھٹی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنی اس ناکامی کو دہشت گردی اور راشٹرواد کے جوشیلے نعروں سے ڈھکنے کی کوشش میں ہیں۔  مگر پانچ سال میں اس جگہ کو برباد کیا ہے جہاں سے کسان آتا ہے اور فوج کے لئے جوان آتا ہے۔

اس کے بعد بھی اگر چینلوں کے سروے میں مودی کی مقبولیت 100 میں 60 اور 70 کے اسکیل کو چھو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگ واقعی اپنی آمدنی گنواکر اس حکومت سے بےحد خوش ہیں۔ یہ ایک نئی سیاسی تبدیلی ہے۔افسوس کہ اس بارے میں ان ہندی اخباروں میں کچھ نہیں چھپتا جس کے صحافی اور مدیر گاؤں سے آتے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے ہریش دامودرن زراعت پر لکھنے والے سنجیدہ صحافی ہیں۔ دہلی کی صحافت میں ان کے علاوہ کوئی ہے بھی نہیں۔

ہریش نے اپنی پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ستمبر-اکتوبر 2018 میں زراعت سے ہونے والی آمدنی 14 سال میں سب سے کم درج کی گئی ہے۔ کسانوں کو 14 سال بعد آمدنی میں اس درجے کی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آمدنی گھٹی ہے تو زراعت سے جڑے کاموں کی مزدوری بھی گھٹی ہے۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی تباہی کے بعد گاؤں میں لوٹے مزدوروں کی حالت اور بگڑی ہی ہوگی۔ ہریش دامودرن نے 2009سے13 اور 2014سے18 کے درمیان یو پی اے اور این ڈی اے کے دور میں اوسط مزدوری کا موازنہ کیا ہے۔

2009سے2013 کے درمیان یو پی اے کے دوران زراعت سے جڑے کاموں کی مزدوری 17.8 فیصد کی شرح سے بڑھی تھی، جو 2014سے18 میں گھٹ‌کر 4.7 فیصدی ہو گئی اور اب 2017 دسمبر سے لےکر 2018 دسمبر کے دوران گر‌کر 3.8 فیصد ہو گئی ہے۔آپ اندازہ نہیں کر سکتے ہیں کہ 17.8 فیصد سے 4.7 اور وہاں سے 3.8 فیصد پر آنے کا کیا اثر رہا ہوگا۔ پورا میڈیا زراعت کے ایسے تجزیوں کو غائب کر چکا ہے۔ آخر کب تک ہم اس مسئلہ سے بھاگیں‌گے۔

حکومت بننے کے بعد بھی یہ مسئلہ سب کے سامنے ہوگا۔ زرعی بحران کے سوال کو ہلکے میں لینے کی عادت کسانوں کو بھاری پڑے‌گی اور سماج کو بھی۔اپوزیشن کو بھی کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنی ہوگی۔ اب اس کو زیادہ نہیں ٹالا جا سکتا ہے۔ جس سیکٹر پر ہندوستان میں کام کرنے والوں کی آبادی کا 47 فیصد ٹکا ہو اور وہاں ان کی مزدوری گھٹ رہی ہو یہ تشویش  کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوشیلے نعروں کے ذریعے گاؤں میں کسانوں کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ کسان بھی ان نعروں میں بہہ رہے ہیں۔

نوٹ بندی ہندوستان کےاقتصادی اقتدار پر حملہ تھا۔ وزیر اعظم بھلے اس فراڈ پر بات کرنے سے بچ جاتے ہیں یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک‌کر نکل جاتے ہیں مگر اس کی حقیقت لوگوں سے بات کرنے پر سامنے آ جاتی ہے۔ان کی مقبولیت ان کے ہر جھوٹ اور دھول کا جواب بن گئی ہے۔ ان کے لئے بھی، حامیوں کے لئے بھی اور میڈیا کے لئے بھی۔ اس بات کے کوئی ثبوت نہ پہلے تھے اور نہ اب ہیں کہ نوٹ بندی سے کالا دھن ختم ہوتا ہے۔ کم بھی نہیں ہوا، ختم ہونے کی تو بات ہی چھوڑیے۔

آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک نے ریزرو بینک سے سوال پوچھے تھے، جس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ نوٹ بندی والے دن یعنی 8 نومبر 2016 کی اپنی میٹنگ میں ریزرو بینک نے صاف صاف کہا تھا کہ 500 اور 1000 کے نوٹ ختم کرنے سے کالا دھن ختم نہیں ہوتا کیونکہ اس کو بڑے پیمانے پرسونا اور مکان-دوکان کی جائیدادوں میں کھپایا گیا ہے۔

ریزرو بینک کی میٹنگ  میں حکومت کی ہر دلیل کو نامنظور کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی کہا جاتا ہے کہ نوٹ بندی کو لےکر ریزرو بینک متفق تھا۔ اس طرح کے جھوٹ آپ تبھی بول سکتے ہیں جب آپ کی مقبولیت چینلوں کے مطابق 60 فیصد ہو۔یہی نہیں نوٹ بندی کے وقت حکم ہوا تھا کہ پرانے 500 اور 1000 کے نوٹ پیٹرول پمپ، ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن پر استعمال ہوں‌گے۔ اس کے ذریعے کتنا پیسہ سسٹم میں آیا، کہیں اس کے ذریعے بلیک منی  کو وہائٹ تو نہیں کیا گیا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

آر ٹی آئی سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں  ریزرو بینک آف انڈیانے یہی کہا ہے کہ اس کا ریکارڈ نہیں ہے۔ پیٹرول پمپ کس کے ہوتے ہیں، آپ کو پتہ ہے۔آج کے ہی بزنس اسٹینڈرڈ میں نمرتا آچاریہ کی خبر چھپی ہے کہ بھیم ایپ کے ذریعے ادائیگی میں کمی آنے لگی ہے۔ اکتوبر 2016 کے ذریعے82 ارب ادائیگی ہوئی تھی۔ فروری 2019 میں 56.24 ارب کی ادائیگی ہوئی۔

پانچ مہینے میں 31 فیصد کی گراوٹ ہے۔ دیری کی وجہ یہ بھی ہے کہ بھیم ایپ کے ذریعے ادائیگی میں اوسطاً دو منٹ کا وقت لگتا ہے، جبکہ ڈیبٹ کارڈ سے چند سیکنڈ میں ہو جاتا ہے۔ باقی معاملوں میں بینکوں نے ڈجیٹل ہدف کو پورا کر لیا ہے۔

(یہ مضمون  رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)