خبریں

مودی پر انتخابی حلف نامہ میں جائیداد کی جانکاری  چھپانے کا الزام، سپریم کورٹ میں عرضی دائر

عرضی میں  اس معاملے کو لے کر ایس آئی ٹی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ نریندر مودی نے 2014 کے انتخابی حلف نامہ اور سال 2015، 2016 اور 2017 میں جائیداد کی جانکاری دیتے ہوئے  اپنے ایک پلاٹ کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل  دائر کرکے وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک غیر منقولہ جائیداد سے متعلق مبینہ  بے قاعدگیوں  کی تفتیش کی مانگ کی گئی ہے۔ درخواست گزار نے اس معاملے میں ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کا مطالبہ  کیا ہے۔لائیو لا کے مطابق، سابق صحافی ساکیت گوکھلےنے  عرضی میں الزام لگایا ہے کہ نریندر مودی 1998 سے گجرات حکومت کی ایک متنازعہ  زمین مختص پالیسی کے مستفیض تھے، جس کے تحت عوامی زمینوں کو ایم ایل اے کو کم قیمت پر مختص کیا گیا تھا۔عرضی کے مطابق، مودی کو 2002 میں اس پالیسی کا فائدہ ملا اور 25 اکتوبر، 2002 کو گاندھی نگر سٹی (پلاٹ نمبر 411، سیکٹر1، گاندھی نگر)میں صرف 1.3 لاکھ روپے میں ایک پلاٹ ان کو دی گئی تھی۔

جب مودی نے 2007 میں گجرات اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا تو انہوں نے اپنے حلف نامہ میں پلاٹ نمبر 411 کی معلومات دی تھی۔حالانکہ سال 2014 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران دائر کئے گئے حلف نامہ میں اور 2015، 2016 اور 2017 میں اپنی جائیداد کے  طورپر  اس پلاٹ کی معلومات مبینہ طور پر نہیں دی گئی ہے۔ایم ایل اے کو سستی قیمت میں زمین مختص کرنے کی یہ پالیسی اس وقت تنازعے  میں آ گئی جب گجرات ہائی کورٹ نے سال 2000 میں خود اس کی جانکاری لیتے ہوئے معاملہ درج کیا تھا۔2 نومبر 2012 کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو ہدایت دی کہ وہ جلد اس معاملے کی سماعت کریں۔سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ اس پالیسی کے تحت اور کوئی بھی مختص نہیں ہونی چاہیے اور ہائی کورٹ کے اتفاق کے بغیر پہلے سے مختص کئے گئے پلاٹ کے ٹرانسفر کی اجازت نہیں دی جائے‌گی۔

ایسا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی کے جین اور جسٹس مدن لوکر کی بنچ نے گجرات حکومت کی طرف سے پیش ہوئے وکیل میناکشی لیکھی کی دلیلوں کو سنا تھا۔ لیکھی نے اس وقت کہا تھا کہ اس پالیسی کے تحت سال 2000 کے بعد سے کوئی بھی پلاٹ مختص نہیں کیا گیا ہے اور اس پالیسی پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔حالانکہ درخواست گزار گوکھلے کا کہنا ہے کہ یہ بیان بالکل غلط ہے کیونکہ مودی کو اسی پالیسی کے تحت سال 2002 میں زمین دی گئی تھی۔درخواست گزار کا الزام ہے کہ نریندر مودی نے حلف نامہ میں پلاٹ نمبر 411 کی جگہ گاندھی نگر میں پلاٹ نمبر 401/اے کے ایک چوتھائی حصے کا مالک بتایا ہے، جس کا وجود ہی نہیں ہے۔ گوکھلے نے کہا کہ پلاٹ نمبر 401/اے جیسی کوئی جگہ ہے ہی نہیں۔

درخواست گزار نے آگے کہا کہ گجرات حکومت کی پالیسی کے تحت پلاٹ نمبر 401 کو وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو مختص کیاگیا ہے۔واضح ہو کہ گجرات حکومت کی یہ متنازعہ پالیسی کی سپریم کورٹ میں آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے کیونکہ کئی ججوں نے اس معاملے کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ اس کی وجہ سے یہ معاملہ 28 اگست 2017 کو سپریم کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا۔گوکھلے نے خود کے ذریعے کئے گئے دورے کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ پلاٹ نمبر 401 دیگر بی جے پی رہنماؤں کو مختص کئے گئے پلاٹ کے بغل میں  ہی ہے اور یہ تمام پلاٹ گاندھی نگر کے بےحد خاص مقام پر ہیں۔

انہوں نے آگے کہا کہ سرکاری دستاویزوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پلاٹ نمبر 411 کے مالک ابھی بھی نریندر مودی ہی ہیں۔ساکیت گوکھلے نے اپنی عرضی میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا ہے جس میں امیدواروں کو ضروری معلومات کا انکشاف  کرنے کو کہا گیا ہے۔ اگر کوئی امیدوار زمین، جائیداد کی معلومات کا انکشاف  نہیں کرتا ہے تو عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 1951 کے تحت مجرمانہ معاملہ ہوگا۔