فکر و نظر

کیا نتیش کمار پھر این ڈی اے سے الگ ہونے کی تیاری کر رہے ہیں؟

مناسب نمائندگی نہ ملنے کی وجہ سے نریندر مودی کابینہ میں شامل ہونے سے جے ڈی یو کے انکار اور بہار ریاستی کابینہ کی توسیع میں کسی بی جے پی رہنما کو جگہ نہ دینے کے سیاسی واقعے کو دونوں پارٹیوں کے درمیان بڑھتی تلخی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

نریندر مودی اور نتیش کمار،فوٹو : پی ٹی آئی

نریندر مودی اور نتیش کمار،فوٹو : پی ٹی آئی

 گزشتہ 30 مئی کو این ڈی اے حکومت کے نئے کابینہ میں جے ڈی یو کو جگہ نہیں ملنے کے بعد بہار میں لگاتار ڈرامائی سیاسی واقعات رونماہو رہے ہیں اور ان واقعات کے ساتھ ہی طرح-طرح کے قیاس بھی لگائے جا رہے ہیں۔قیاس اس لئے بھی لگائے جا رہے ہیں کہ ماضی میں ایسے ہی سیاسی واقعات کے بعد یہاں کے سیاسی فارمولے کئی دفعہ بدل چکے ہیں۔ چاہے وہ نتیش کا این ڈی اے سے باہر آنا ہو، آرجےڈی کے ساتھ مل‌کر بہار اسمبلی کا انتخاب لڑنا ہو یا پھر سال 2017 کے بیچ میں این ڈی اے میں نتیش کمار کی ‘ گھر واپسی ‘ ہو۔

2019 کے عام انتخابات میں  بی جے پی کو اکیلےمیجک فیگر سے زیادہ سیٹیں ملنے سے این ڈی اے کی معاون جماعتوں کو بہت زیادہ توجہ نہیں ملنے والی۔ چاہے وہ جے ڈی یو ہو یا کوئی اور۔اس کی پہلی جھلک تب ملی جب این ڈی اے کے نئے کابینہ میں جے ڈی یو کے محض ایک رکن پارلیامان کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی۔ جے ڈی یو نے اس تجویز کو اس بنا پر نامنظور کر دیا کہ ہمیں تناسب کے لحاظ سے کابینہ میں جگہ نہیں دی گئی۔جے ڈی یو کی دلیل تھی کہ ایل جے پی کے چھے رکن پارلیامان ہیں، تو اس کو ایک وزیر کا عہدہ ملا، لیکن جے ڈی یو کے 16 رکن پارلیامان ہیں، تو اس کو بھی ایک ہی عہدہ کیوں دیا گیا۔

جے ڈی یو کے مکھیا اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اس کو لےکر پریس کانفرنس کرکے صاف لہجے میں کہہ دیا کہ وہ کابینہ میں علامتی نمائندگی نہیں چاہتے ہیں۔ البتہ ان کی پارٹی حکومت کے ساتھ ہے اور رہے‌گی۔انہوں نے کہا، ‘ بی جے پی کو مکمل اکثریت ہے اور ہماری مکمل حمایت ہے، لیکن ان کی بات سے لگا کہ این ڈی اے کی معاون جماعتوں کو اور جے ڈی یو کو بھی وہ علامتی طورپر نمائندگی دینا چاہتے ہیں۔ ‘انہوں نے آگے کہا، ‘ وہ (بی جے پی) ایک سیٹ دینا چاہتے تھے، ہم نے جے ڈی یو کی کور ٹیم کے ساتھ میٹنگ کی اور یہ تجویز رکھی، تو سبھی نے کہا کہ یہ تجویز ٹھیک نہیں ہے۔ ‘

نتیش کمار نے اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی تناسب کے لحاظ سے شراکت داری ہوتی تھی، اس لئے نئے کابینہ میں بھی شراکت داری تناسب کی ہونی چاہیے۔این ڈی اے کابینہ کی حلف برداری کے تقریب پروگرام کے فوراً بعد بہار کی نتیش حکومت کی طرف سے خبر آئی کہ نتیش حکومت بھی کابینہ کی توسیع کرے‌گی۔اس اعلان کے ساتھ ہی یہ افواہ بھی اڑی کہ نتیش کمار مرکزی کابینہ کا بدلہ بی جے پی سے ریاستی کابینہ میں لیں‌گے۔ یہ افواہ صحیح ثابت ہوئی اور گزشتہ دو جون کو بہار میں جن آٹھ نئے وزراء نے حلف لیا، ان میں بی جے پی کا ایک بھی رہنما نہیں تھا۔

نتیش کمار نے بعد میں میڈیا کے سامنے صفائی دی کہ جو عہدے خالی تھے، وہ جے ڈی یو کوٹہ کے تھے، اس لئے بی جے پی کو نمائندگی نہیں ملی۔نتیش جب میڈیا سے بات کر رہے تھے، تو نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی بھی بغل میں کھڑے تھے۔ مگر ان کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔کابینہ کونسل کی توسیع کے بعد چلا افطار کا دور۔ جے ڈی یو، بی جے پی، آر جے ڈی  اور ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر) نے الگ الگ افطار پارٹیاں دیں۔

بی جے پی کی افطار پارٹی میں نتیش کمار نہیں پہنچے، تو جے ڈی یو کی افطار پارٹی سے بی جے پی نے دوری بنائی۔ ہاں، جیتن رام مانجھی نے افطار پارٹی دی، تو نتیش کمار اس میں شامل ہوئے اور رام ولاس پاسوان نے افطار پارٹی کی، تو نتیش کمار اور سشیل مودی نے اس میں شرکت کی۔2017 میں نتیش کمار کے مہاگٹھ بندھن سے الگ ہونے کے بعد آر جےڈی کی طرف سے کئی بار یہ بیان آیا کہ نتیش کمار اگر دوبارہ مہاگٹھ بندھن کا حصہ بننا چاہیں‌گے، تو ان کو جگہ نہیں ملے‌گی۔ لیکن، 2019 کے عام انتخاب میں مہاگٹھ بندھن کی سخت شکست کے بعد آرجے ڈی سمیت دیگر اتحادی پارٹیاں نتیش کمار کو لےکر خاموش ہیں۔

انتخابی نتیجہ کے بعد کوئی بھی رہنما نتیش پر زبانی حملہ نہیں کر رہا ہے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ آرجےڈی اور دیگر پارٹیاں اندرخانے اس قواعد میں لگی ہوئی ہیں کہ نتیش کمار دوبارہ مہاگٹھ بندھن میں شامل ہو جائیں۔بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان بڑھی تلخی کو مہاگٹھ بندھن ایک سنہرے موقع کی طرح دیکھ رہا ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

راجد کے سینئر رہنما رگھونش پرساد سنگھ نے تو نتیش کمار کو مہاگٹھ بندھن میں آنے کا دعوت نامہ بھی دے دیا۔ انہوں نے کہا، ‘ نتیش جی یقینی طور پر اکھاڑہ بدلیں‌گے، لیکن کوئی بھی اس کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا ہے کہ وہ کب کریں‌گے یا کیا کریں‌گے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ یہ حیرت انگیز نہیں ہے میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ بہار میں بی جے پی کے خلاف سبھی لوگ ساتھ آئیں۔ ‘

وہیں، رابڑی دیوی نے بھی کہا کہ نتیش کمار مہاگٹھ بندھن میں شامل ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ، جے ڈی یو رہنما اجئے آلوک نے اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ‘ کچھ نام سے ہمارے رہنما کو یہ لوگ بلاتے تھے شاید؟ یاد آیا کہ نہیں اور آج ووٹ کی چوٹ کیا لگی تو چچا یاد آنے لگے! بلا رہے ہیں، بھائی لوگ آپ ہی بتائیں اب جب بھینس پانی میں چلی گئی تو ہم کیوں نکالیں؟ ‘

مرکزی کابینہ میں علامتی نمائندگی سے جے ڈی یو کا انکار، ریاستی کابینہ کی توسیع میں بی جے پی کو جگہ نہیں ملنے، افطار پارٹیوں میں غیرموجودگی اور آرجےڈی  کا بیان ؛ ان سارے واقعات کا سیاسی نتیجہ کیا نکلے‌گا؟

اس سوال پر سینئر صحافی منی کانت ٹھاکر کہتے ہیں، ‘ ان واقعات کے نتیجہ کو لےکر جتنے بھی خدشات کے اظہار کئے جا رہے ہیں، ان سب کی بنیاد ہے۔ مرکزی کابینہ میں جے ڈی یو کو جگہ نہیں ملنے سے لےکر کابینہ کونسل کی توسیع تک جو کچھ ہوا، اس سے صاف ہے بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان کیسا رشتہ پل رہا ہے۔ ہاں، بی جے پی اس پر پردہ ضرور ڈالے رکھنا چاہتی ہے، لیکن نتیش کمارگاہے بہ گاہے یہ پردہ ہٹاتے رہتے ہیں تاکہ بی جے پی پر دباؤ بنا رہے۔ ‘

بہار این ڈی اے میں زیادہ توجہ پانے کی لڑائی

2017 کے بیچ میں جب نتیش کمار آر جےڈی  سے الگ ہوکر دوبارہ این ڈی اے میں آئے اور بہار میں حکومت بنائی، تو یہ بی جے پی کی بڑی جیت تھی، کیونکہ 2019 میں مرکز میں دوبارہ این ڈی اے کی حکومت بنانا بی جے پی کی پہلی ترجیح تھی اور اس کے لئے بھروسہ مند معاون جماعتوں کی ضرورت تھی۔2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے شاندار جیت درج کی، تو اب جے ڈی یو یا دوسری معاون جماعت اس کے لئے بہت معنی نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی یہ کوشش کرے‌گی کہ بہار میں وہ جے ڈی یو کو حاوی نہیں ہونے دے۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ نتیش کمار این ڈی اے سے باہر ہو جائیں۔ کیونکہ نتیش کمار ایسے اتحاد کا حصہ بننے کے خواہش مند رہتے ہیں، جہاں ان کی حالت مضبوط ہو۔

این ڈی اے کابینہ میں جے ڈی یو کی شراکت داری پر بی جے پی کے دو ٹوک جواب سے پتہ چلتا ہے کہ اب این ڈی اے بہار میں بھی ان کی حالت مضبوط نہیں رہے‌گی۔سیاسی تجزیہ کار مہیندر سمن کہتے ہیں، ‘ ابھی بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان جو کھینچ تان ہے، وہ عام انتخاب کے نتیجہ کاہی نتیجہ ہے۔ دونوں ہی پارٹیاں بہار این ڈی اے میں خود کو ایک دوسرے سے اوپر رکھنا چاہ رہی ہیں۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘ بی جے پی کی پہلی ترجیح مرکز میں حکومت بنانے کی تھی۔ دہلی میں حکومت بن گئی ہے، تو اب وہ پٹنہ پر فوکس کرے‌گی۔ بی جے پی اب چاہ رہی ہے کہ بہار میں اپنی حالت مضبوط کرے۔ اس سے آنے والے وقت میں نتیش کی پریشانی بڑھے‌گی۔ ‘

نتیش کی سیکولر امیج

کامن سول کوڈ، رام مندر اور تین طلاق کے مدعے پر جے ڈی یو کے خیال بی جے پی سے بالکل الگ ہیں۔ اس کو لےکر نتیش کمار کئی دفعہ عوامی طور پربیان دے چکے ہیں۔ لیکن، 2019 کے عام انتخاب میں انہوں نے ان مدعوں پر بہت کم بات کی۔ اور تو اور جے ڈی یو نے اپنا منشور جاری کرکے ان مدعوں پر اپنا نظریہ بھی نہیں رکھا۔جان کار بتاتے ہیں کہ جے ڈی یو ایک سوچی-سمجھی حکمت عملی کے تحت ان مدعوں پر خاموش رہی۔ دراصل، جے ڈی یو رہنماؤں کو لگ گیا تھا کہ بی جے پی کے حق میں ہوا ہے، ایسے میں اگر ان حساس مدعوں کو اٹھایا گیا، تو بی جے پی کے ووٹر ناراض ہو جائیں‌گے اور جے ڈی یو کو ووٹ نہیں ڈالیں‌گے۔

اب جب بی جے پی کو اپنی طاقت پر اکثریت سے زیادہ سیٹیں مل گئی ہیں، تو مانا جا رہا ہے کہ وہ ان مدعوں پر کڑے فیصلے لے سکتی ہے۔ ایسی حالت میں بھی این ڈی اے کے ساتھ بنے رہنے سے نتیش کمار کی امیج کو نقصان پہنچے‌گا۔ دوسری طرف، گریراج سنگھ جیسے رہنماؤں کو بی جے پی کے ذریعے ترجیح دیا جانا بھی نتیش کمار کی پریشانی کا سبب بنے‌گا۔افطار پارٹی میں ٹوپی پہنے نتیش کمار، رام ولاس پاسوان، جیتن رام مانجھی اور سشیل مودی کی تصویروں کو لےکر تبصرہ کرکے بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اپنا کام شروع بھی کر دیا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا ، کتنی خوبصورت تصویر ہوتی ہے جب اتنی چاہت سے نوراتری پر پھل کھانے کی تقریب کا انعقاد کرتے اور خوبصورت خوبصورت فوٹو آتے؟ اپنے دھرم کرم میں ہم پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں اور دکھاوا میں آگے رہتے ہیں؟گریراج سنگھ کے اس ٹوئٹ پر جے ڈی یو نے تلخ تبصرہ کیا۔

جے ڈی یو رہنما اشوک چودھری نے کہا، ان کو کسی نے نوراتری میں پھلاہار کرنے سے روکا ہے کیا؟ میں پوری بی جے پی نہیں بلکہ ان کو (گریراج سنگھ) کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسے بیان دینے سے بچیں۔ ‘ جے ڈی یو ترجمان سنجے سنگھ نے کہا کہ وہ گریراج سنگھ کے بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔مہیندر سمن کہتے ہیں، ‘ آنے والے وقت میں ایسے بیان اور بڑھیں‌گے۔ ان بیانات پر جے ڈی یو کو جواب دینا ہوگا۔ اس سے تلخی بڑھے‌گی۔ پہلے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ گریراج سنگھ وزیراعلیٰ کی افطار پارٹی کو چیلنج دیں‌گے۔ ‘

2020 کے بہار اسمبلی انتخاب پر نظر

اگلےسال نومبر میں بہار اسمبلی کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ سال 2014 کے عام انتخابات میں برا مظاہرہ کرنے والے جے ڈی یو، آرجےڈی  اور کانگریس نے اس بار اور بھی بدتر مظاہرہ کیا۔ اگلے ہی سال بہار اسمبلی انتخاب ہوا، جس میں جے ڈی یو، آرجے ڈی اور کانگریس نے ساتھ مل‌کر انتخاب لڑا تھا اور حکومت بنائی تھی۔

جان کار بتاتے ہیں کہ اگر بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان تلخی اسی طرح جاری رہی، تو اگلےسال ہونے والے اسمبلی انتخاب میں 2015 کے فارمولے کا تکرار ہو سکتا ہے۔سیاسی تجزیہ کار ڈی ایم دیواکر کہتے ہیں، ‘ نتیش کمار نے آرجے ڈی کے ساتھ مل‌کر حکومت چلائی بھی ہے، اس لئے ممکن ہے کہ وہ دوبارہ آرجے ڈی کے ساتھ آ جائیں۔ ‘ڈی ایم دیواکر کا کہنا ہے کہ بی جے پی خود بھی 2020 کے اسمبلی انتخاب اکیلے لڑنا چاہتی ہے، اس لئے بھی وہ جے ڈی یو کو بہت توجہ نہیں دینے والی۔ ایسے میں آنے والے وقت میں اگر نتیش کمار مہاگٹھ بندھن کا حصہ بن جائیں، تو کوئی تعجب نہیں ہوگا۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔ )