خبریں

تین طلاق پر نئے قانون کو سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج

سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ میں دائر ان عرضیوں  میں الزام لگایا گیا ہے کہ مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس مسلم شوہروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: بیوی کو فوری تین طلاق کے ذریعے چھوڑنے والے مسلم مردوں کو تین سال تک کی سزا کے اہتمام والے نئے قانون کو جمعہ کو سپریم کورٹ اور دہلی  ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیاہے۔کیرل واقع ایک مسلم تنظیم نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی جبکہ دہلی ہائی کورٹ میں ایک وکیل نے عرضی دائر کی۔دونوں درخواست گزاروں نے الزام لگایا کہ ‘ مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) قانون، 2019 ‘ مسلم شوہروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

کیرل میں سنی مسلم دانشوروں اور علماء کی مذہبی تنظیم ‘ کیرل جمیعۃ العلما ‘ اور دہلی کے وکیل شاہد علی نے دعویٰ کیا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی ہے اور اس کو رد کیا جانا چاہیے۔دونوں عرضیاں تب دائر کی گئی ہیں جب ایک دن پہلے صدر  جمہوریہ رامناتھ کووند نے نئے قانون کو اپنی منظوری  دے دی۔

سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے، ‘ اس قانون میں خاص طور سے مذہبی شناخت پر مبنی افراد کے ایک طبقے کے لئے سزا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ عوام کے ساتھ بہت بڑی شرارت ہے جس کو اگر نہیں روکا گیا تو اس سے سماج میں پولرائزیشن ہو سکتا ہے اور ہم آہنگی کا ماحول بگڑ سکتا ہے۔ ‘حامیوں کی تعداد کے لحاظ سے کیرل میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہونے کا دعویٰ کرنے والی اس مذہبی تنظیم نے کہا کہ یہ قانون مسلموں کے لئے ہے اور اس قانون کی منشا تین طلاق کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ مسلم شوہروں کو سزا دینا ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے، ‘ دفعہ 4 کے تحت جب مسلم شوہر تین طلاق دے‌گا تو اس کو زیادہ سے زیادہ تین سال کی قید ہو سکتی ہے۔ دفعہ 7 کے تحت یہ جرم  قابل ادراک اور غیر ضمانتی ہے۔دہلی ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق کو غیر ضمانتی جرم قرار دینے والا یہ قانون شوہر اور بیوی کے درمیان سمجھوتہ کرنے کی تمام گنجائشوں کو ختم کر دے‌گا۔

ہائی کورٹ کے ایک ذرائع نے بتایا کہ اس عرضی پر اگلے ہفتہ سماعت ہو سکتی ہے۔ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے والے درخواست گزار نے الزام لگایا ہے کہ مرکزی حکومت کی منشا آئین کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے تین  طلاق کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کے تئیں متعصب  اور غیرآئینی ہے۔عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تین طلاق کو جرم کے دائرے میں لانے کا غلط استعمال ہو سکتا ہے کیونکہ قانون میں ایسا کوئی نظام مہیا  نہیں کرایا گیا ہے جس سے الزامات کی حقیقت  معلوم کی جا سکے۔

اسی طرح، سپریم کورٹ میں دائر عرضی میں درخواست گزار نے کہا کہ اگر اس قانون کا مقصد کسی مسلم بیوی کو ایک ناخوشگوار  شادی سے بچانا ہے تو کوئی بھی فکر مند  شخص یہ مان نہیں سکتا ہے کہ یہ صرف طلاق طلاق طلاق کہنے کے لئے شوہر کو تین سال کے لئے جیل میں ڈال‌کر اور اس کو غیر ضمانتی بنا کر یقینی بنایا  جا سکتا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)