خبریں

کالجیئم میں خاطر خواہ شفافیت، اس کے انکشاف کی ضرورت نہیں: متوقع سی جے آئی بوبڈے

ملک کے اگلے چیف جسٹس شرد ارویند بوبڈے نے یہ بھی کہا کہ حکومت ججوں کی تقرری میں دیری نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی معاملے کی سماعت سے ہٹنے سےمتعلق سے جج کو کوئی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

 جسٹس شرد ارویند بوبڈے۔ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

جسٹس شرد ارویند بوبڈے۔ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک کے اگلے چیف جسٹس (سی جے آئی) جسٹس شرد ارویند بوبڈے نےگزشتہ بدھ کو کہا کہ کالجیئم سسٹم میں کافی شفافیت ہے اور کالجیئم کے  بحث کی انکشاف  کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال رازداری  کا نہیں بلکہ پرائیویسی کے حق کا ہے۔جسٹس بوبڈے 18 نومبر کو ملک کے 47 ویں سی جے آئی بنیں‌گے اور وہ جسٹس رنجن گگوئی کی جگہ لیں‌گے۔ بوبڈے نے کہا کہ کالجیئم کی مکمل  بحث کے انکشاف کرنے کے مدعے پر قدامت  پسندنقطہ نظر ضروری ہے کیونکہ’لوگوں کی عزت داؤ پر ہے ‘اور شہریوں کے جاننے کی خواہش کو صرف مطمئن کرنے کے لئے اس کی قربانی نہیں دی جا سکتی۔

 سپریم کورٹ کالجیئم کے کام کاج میں زیادہ شفافیت کی بڑھتی مانگ‌کے مدنظرجسٹس بوبڈے کا یہ بیان اہم ہے۔ وہ نو ججوں والی اس آئینی بنچ کا حصہ تھے جس نےپرائیویسی  حق  کو بنیادی حق قرار دیا تھا۔جسٹس بوبڈے (63)نے عدالتی کاموں کےلئے ججوں کی سوشل میڈیا پر تنقید پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ زیادہ تر جج جو ‘ موٹی چمڑی’والے نہیں ہیں وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔

 ملک کا اگلا سی جے آئی بنائےجانے کے ایک دن بعد انہوں نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا، ‘ مجھے اب بھی لگتا ہے کہ ہمیں قدامت  پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی عزت داؤ پر ہے۔ ہمیں قدامت پرست  ہونے کی ضرورت ہے۔ جوشکایتں آتی ہیں ان میں سے آدھی سچ نہیں ہوتی ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ کالجیئم اورعدالت کو ایسے معاملوں میں قدامت  پسند ہونا چاہیے۔ ‘وہ ایک سوال کا جواب دے رہے تھے کہ کیا کالجیئم کے کام کاج کو زیادہ شفاف بنانے کے لئے کسی قدم کی ضرورت ہے۔ سی جے آئی کے طور پر جسٹس بوبڈے کی مدت کار17 مہینے سے زیادہ کی ہوگی اور وہ 23 اپریل،2021 کو سبکدوش ہوں‌گے۔

انہوں نے آگے کہا،’اس لئے جب آپ ایک شہری کے جاننے کی ضرورت کے خلاف اس (پرائیویسی)پر غور کرتے ہیں، اگر آپ عام لوگوں کے تجسس کے خلاف تولتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے لئے، یہ ایک طرح کا تجسس ہے جس کو وہ جاننا چاہتا ہے۔ اگر آپ ان دونوں پر غور کرتے ہیں تو ہربات کاانکشاف کرنے کے مقابلے میں قدامت  پسند ہونا اہم ہے۔ ‘ کالجیئم کے ذریعے عدالتِ عالیہ میں جج کی  تقرری یا پرموشن  کےلئے جن لوگوں کا انتخاب نہیں کیا جاتا، ان کے پرائیویسی کے حق  پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس بھی’جینے کے لئے زندگی’ہے اور ان کی منفی تفصیل کو کیوں عوامی کیا جانا چاہیے۔

جسٹس بوبڈے نے کہا،’یہ پرائیویسی  کا سوال نہیں بلکہ رازداری کا سوال ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہمیں پرانے طریقہ کار کا سہارا لینا چاہیے، لیکن میں کہہ رہا ہوں کہ حال ہی میں کالجیئم کے ذریعے ایک فیصلہ لیا گیا کہ ہم ان سبھی کےنام بتائیں‌گے، جن کی  ہم تقرری کرتے ہیں اور ان کے نام نہیں بتائیں‌گے جن کو خارج کر دیا گیا ہے اور نہ ہی نامنظوری کی وجہ بتائیں‌گے۔ ‘عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار اس وقت کے سی جے آئی دیپک مشرا نے 2017 میں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کالجیئم کی سفارشوں کو عوامی کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔

 انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہائی کورٹ کےجج کو کالجیئم کے سامنے رکھی گئی کچھ رپورٹس کی بنیاد پر پرموشن نہیں دی جاتی ہےتوبھی وہ عدالت میں رہیں‌گے۔ ملک بھر کی عدالتوں میں ججوں کی بھاری اسامی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کےبارے میں جسٹس بوبڈے نے کہا کہ وہ اس تعلق سے سی جے آئی رنجن گگوئی کے ذریعےاٹھائے گئے قدموں کو ‘ منطقی انجام ‘ تک پہنچائیں‌گے۔ سی جے آئی گگوئی نے عدالتوں میں اسامی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی پر دھیان دیا تھا اور تمام ریاستوں اور متعلقہ عدالتوں کو ہدایت جاری کر کے ان کی نگرانی کر رہے تھے۔

 اگلے سی جے آئی کے طور پر اپنی ترجیحات کا ذکر کرتے کرتے ہوئے جسٹس بوبڈےنے کہا، ‘ کسی بھی عدالتی نظام کی اولین  ترجیح انصاف ہے اور کسی بھی قیمت پر کسی اور چیز کے لئے اس کو قربان نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ عدالتیں اسی کے لئے ہیں۔ ‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصلے کی تنقید کے بدلے ججوں کی تنقید ہتک عزت کےبرابر ہے۔ جسٹس بوبڈے نے کہا کہ زیر التوا آئینی مدعوں پر غور کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں مستقل پانچ رکنی آئینی بنچ ہونے کا امکان ہے۔

 اس کے علاوہ این ڈی ٹی وی کو دئے ایک انٹرویو میں حکومت کے ذریعے ججوں کی تقرری میں دیری کرنے کے سوال پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ ان کو نہیں لگتا کہ حکومت تقرری میں دیری کر رہی ہے۔ جج نے کہا، ‘ مجھے نہیں لگتا کی حکومت تقرری میں دیری کر رہی ہے۔ بلکہ کالجیئم کی سفارشوں کو اب زیادہ تیزی سے نمٹایا جا رہا ہے۔ کچھ معاملوں میں دیری ہوئی ہے کیونکہ کالجیئم نے آخری وقت میں کچھ بدلاؤ کئے۔ آپ کو اتفاق حاصل کرنے کےعمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ عام طور پر حکومت دیری نہیں کرتی ہے۔ ‘

معلوم ہو کہ جسٹس بوبڈے اس بنچ کا حصہ ہیں جس نے ایودھیا معاملے پر 40 دن لمبی سماعت حال ہی میں پوری کی اور فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اس معاملے پر بوبڈے نے کہا، ‘ایودھیا بالکل اہم ہے۔ آج کے وقت میں یہ دنیا کے اہم معاملوں میں سے ایک ہے۔ ‘ججوں کے ذریعے بنچ سے ہٹنے کے سوال پر بوبڈے نے کہا کہ جج کو بنچ سےہٹنے یا نہ ہٹنے کی وجہ نہیں بتانی چاہییے۔ یہ جج کے ضمیر یا شعور کا معاملہ ہے۔

 انہوں نے کہا، ‘میں نہیں مانتا کے جج کو بنچ سے ہٹنے پر کوئی وجہ بتانی چاہیے۔ یہ ان کے شعور کا معاملہ ہے۔ کئی بار جج اس بات کو لےکر صاف نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو اس معاملے کی سماعت کرنی چاہیے یا نہیں۔ کئی بار جج کو نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کس وجہ سے بنچ سے ہٹ رہا ہے۔ ‘حال میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر مانگ کی گئی تھی کہ جسٹس ارون مشرااس بنچ سے ہٹ جائیں جو حصول اراضی معاملے کی سماعت کرے‌گی۔ حالانکہ جسٹس مشرا نےایسا کرنے سے منع کر دیا۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)