خبریں

مرکز نے بھارت پیٹرولیم سمیت پانچ اہم سرکاری کمپنیوں کو بیچنے کی منظوری دی

وزیرخزانہ نرملا سیتارمن نے کہا کہ نمالی گڑھ ریفائنری کو بھارت پیٹرولیم کارپوریشن کے کنٹرول  سے باہر کرکے حکومت پیٹرولیم کمپنی میں اپنی 53.29 فیصد حصےداری بیچے‌گی۔

 وزیر خزانہ نرملا سیتارمن(فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر خزانہ نرملا سیتارمن(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی کابینہ نے  بدھ کو بھارت پیٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ (بی پی سی ایل)، شپنگ کارپوریشن آف انڈیا اور کنٹینر کارپوریشن آف انڈیا سمیت پانچ اہم کمپنیوں میں حکومت کی حصےداری بیچنے کی منظوری دے دی۔ ان میں حصےداری بیچنے کے ساتھ مینجنگ کنٹرول بھی دوسرے ہاتھوں میں سونپاجائے‌گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے صحافیوں کو یہ جانکاری دی۔

انہوں نے کہا کہ نمالی گڑھ ریفائنری کو بی پی سی ایل کے کنٹرول سے باہر کرکے حکومت پیٹرولیم کمپنی میں اپنی 53.29 فیصد حصےداری بیچے‌گی۔

اس کے علاوہ حکومت ٹہری ہائیڈرو ڈیولپمنٹ کارپوریشن(ٹی ایچ ڈی سی)،اورنارتھ ایسٹرن الکٹرک پاور کارپوریشن لمیٹڈ(این ای ای پی سی او)میں اپنی حصےداری پبلک سیکٹر کی این ٹی پی سی لمیٹڈ کو بیچے‌گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے علاوہ کابینہ نے مینجنگ کنٹرول  اپنے پاس رکھتےہوئے چنندہ سرکاری کمپنیوں  میں حکومت کی حصےداری51 فیصد سے نیچے لانے کو بھی منظوری دی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ بی پی سی ایل کے نجکاری سے پہلے نمالی گڑھ ریفائنری کواس سے الگ کیا جائے‌گا اور کسی دوسرے پبلک سیکٹر  کی کمپنی کے ذریعے اس کا حصول کیا جائے‌گا۔واضح  ہو کہ سال 2015 میں حکومت نےاسٹریٹجک انویسٹمنٹ کی پالیسی کو پھر سے شروع کیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ عام اقتصادی ترقی میں تعاون دے‌گا۔

 وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے 2019 نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ موجودہ بڑے اقتصادی معیارات کے اسٹریٹجک انویسٹمنٹ کے لئے مزید پبلک سیکٹر کی کمپنیوں  کی پیشکش کی جائے‌گی۔ اس سے پہلے بھارت پیٹرولیم (بی پی سی ایل)کے مجوزہ انویسٹمنٹ کی خبروں کےپس منظر میں کانگریس کے ایک ممبر نے لوک سبھا میں بدھ کو اس طرح کے فیصلے کو ملکی مفاد کے لئے نقصان دہ بتاتے ہوئے حکومت سے اس پر دوبارہ غور کرنے کی مانگ کی تھی۔

 کانگریس کے ہیبی ایڈن نے اصول 377 کے تحت اس موضوع کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ خبروں کے مطابق بی پی سی ایل کے انویسٹمنٹ کا نظریاتی فیصلہ لیا گیا ہے جو ملکی مفاد کے لئے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے حکومت سے اس پردوبارہ غور کرنے کی مانگ کی تھی۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)