خبریں

تقریباً 60 کروڑ آدھار نمبر پہلے ہی این پی آر سے جوڑے جا چکے ہیں

دی  وائر کی خصوصی رپورٹ: وزارت داخلہ بھروسہ دلارہا ہے کہ جن لوگوں کے پاس آدھار نمبر نہیں ہے انہیں این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کے دوران اس طرح کا دستاویز دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔حالانکہ حاصل کیےگئےسرکاری دستاویزحکومت  کی ان یقین دہانیوں پرسوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔

علامتی تصویر: فوٹو،رائٹرس

علامتی تصویر: فوٹو،رائٹرس

نئی دہلی: اس وقت اس بات کو لےکر تنازعہ چل رہا ہے کہ این پی آر کو آدھار کے ساتھ جوڑا جائےگایا نہیں۔ کئی میڈیا رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ این پی آر کو آدھار نمبر کے ساتھ جوڑا جائےگا۔ لیکن وزارت داخلہ کا یہ کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کو کوئی بھی دستاویز دینے کو مجبور نہیں کیا جائےگا۔

حالانکہ سچائی یہ ہے کہ این پی آر،2020 کی کارروائی  شروع کرنے سے پہلے ہی تقریباً60کروڑ آدھار نمبر کو این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے۔ یہ تعداد کل جاری کئے گئے آدھار نمبر کا لگ بھگ 50 فیصدی ہے۔ دی  وائر کے ذریعےحاصل کئے گئے دستاویزوں سے یہ انکشاف ہوا ہے۔

تقریباً 60 آدھار نمبروں کو پہلے ہی این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے

تقریباً 60 آدھار نمبروں کو پہلے ہی این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے

ان 60 کروڑ آدھار نمبروں کو این پی آر سے جوڑ نے کا کام مودی سرکار کی پچھلی مدت کار کے دوران کیا گیا تھا۔ رجسٹرار جنرل اینڈ سینسس کمشنر(ہندوستان کے رجسٹرار جنرل)دفتر کی 19 جولائی 2019 کی ایک فائل نوٹنگ کے مطابق، ‘سال 2015 میں آدھار نمبر کو اپ ڈیٹ کرنے کے کام کے دوران اس کو این پی آر کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔’

نوٹنگ میں آگے لکھا گیا، ‘اس کے ساتھ ہی نئے گھر کے ممبروں کی آبادی کی تفصیلات بھی جمع کی گئی  تھی۔ تقریباً60 کروڑ آدھار نمبروں کو این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے۔’

واضح ہو کہ دسمبر 2017 میں رجسٹرار جنرل کے دفتر نے این پی آر سے ڈیٹا شیئر کرنے کے ریاستی حکومتوں کے مطالبہ کوٹھکرا دیا تھا۔ اس کے لیے وجہ دی گئی  تھی کہ اس سے پرائیویسی کی تحفظی کی فکر ہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت  کے پاس ان اعداد وشمارکا ایکسیس ہے۔

ریاستوں نے مستفید ہونے والوں کو فلاحی اسکیموں کی  ادائیگی  کے بہتر مینجمنٹ کے لیے ڈیٹا طلب کیا تھا، کیونکہ آدھار کے برعکس این پی آر فیملی اور کاروباری تفصیلات سمیت کسی فرد کے بارے میں زیادہ  جانکاری فراہم  کرتا ہے۔

دستاویز سے یہ بات بھی صاف  ہوتی ہے کہ حکومت نے آدھار نمبر اور پاسپورٹ کی جانکاری بھی اکٹھا کرنے کامنصوبہ بنایا ہے۔ شایدیہ پہلا ایسا موقع ہے جب سرکاری فائلوں کی بنیاد پر یہ واضح ہوتا ہے کہ این پی آر میں آدھار اور پاسپورٹ کی جانکاری دینی ہوگی۔

فائل نوٹنگ کے مطابق، این پی آر میں آدھار اور پاسپورٹ کے علاوہ والدین کی پیدائش  کی تاریخ اور جائے پیدائش، پچھلی  رہائش، موبائل نمبر، ووٹر آئی ڈی کارڈ نمبر اور ڈرائیونگ لائسنس نمبر اکٹھا کیا جانا ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف وزارت داخلہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ دستاویز رضاکارانہ ہیں، مطلب کہ اگر یہ دستاویز نہیں ہیں تو فرد کو نہیں دینے ہوں گے۔ حالانکہ سرکاری دستاویزوں میں یہ صاف نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ تمام جانکاری جمع  کی جانی ہے۔

حاصل کیے گئے فائلوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سرکار نے پین نمبر بھی این پی آر میں اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ حالانکہ اکانومک ٹائمس کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ وزارت نے ایک سروے کے بعد یہ فیصلہ لیا ہے کہ پین نمبر نہیں اکٹھا کیا جائےگا۔

آدھار کو لازمی  طورپر اکٹھا کرنے کی ضرورت پر شہریت قانون میں ترمیم کا منصوبہ

آدھار پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور آدھار اور دوسرےقانون (ترمیم) ایکٹ، 2019 کو دھیان میں رکھتے ہوئے وزارت داخلہ کے تحت رجسٹرار جنرل دفتر نے منسٹری آف الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی (ایم ای آئی ٹی وائی) کو خط لکھ کر این پی آر میں آدھار نمبر لینے کی اجازت مانگی تھی۔

اس کولےکر ایم ای آئی ٹی وائی کے سکریٹری اور آدھار بنانے والی ایجنسی یوآئی ڈی اےآئی کے سی ای او کو 19 جولائی 2019 کو خط لکھا گیا تھا۔ بعد میں چھ اگست 2019 کو اس کو لےکر منسٹری آف الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے جوائنٹ  سکریٹری ایس گوپالاکرشنن کی صدارت میں میٹنگ ہوئی تھی۔

ہندوستان کے رجسٹرار جنرل کے دفتر نے منسٹری آف الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی سے این پی آر میں آدھارنمبر کو جوڑنے کی اجازت مانگی تھی۔

ہندوستان کے رجسٹرار جنرل کے دفتر نے منسٹری آف الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی سے این پی آر میں آدھارنمبر کو جوڑنے کی اجازت مانگی تھی۔

اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رجسٹرار جنرل دفتر اس طریقے سے این پی آر میں آدھار نمبر لے سکتا ہے جو آدھار (اطلاعات کوشیئر کرنا) ریگولیشن، 2016 کے ‘کلاز 5’کے اسٹینڈرڈ کے موافق ہو۔

‘کلاز5’کے مطابق، اگر کوئی ایجنسی آدھار نمبر اکٹھا کرتی ہے تو اسے آدھار ہولڈر کو یہ جانکاری اکٹھا کرنے کی وجہ اور آدھار نمبر دینا لازمی  ہے یا نہیں،یہ بتانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس خصوصی کام  کے لیے فرد کا آدھار نمبر استعمال کرنے کے لیے اس کی مرضی پوچھنی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ آدھار اکٹھا کرنے والی ایجنسی اس آدھار نمبر کو صرف اسی کام کے لیے استعمال کر سکتی ہے جس کے لیے آدھار ہولڈرسے رضامندی لی گئی ہے۔ ان شرطوں کی بنیاد پر این پی آر کے لیے آدھار لینے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس کے جواب میں 23 اگست 2019 کو نوٹنگ پر ایڈیشنل رجسٹرار جنرل سنجے نے لکھا کہ ہم رضاکارانہ طریقے سے آدھار نمبر کو اکٹھا کر رہے ہیں اور 2015 کے دوران پہلے سے اکٹھا کئے گئے آدھار نمبر کی یوآئی ڈی اےآئی سے تصدیق  کی جائے۔

حالانکہ تقریباًدو مہینے بعد رجسٹرار جنرل کے دفتر کو یہ احساس ہوا کہ آدھار اکٹھا کرنے کے لیے منسٹری آف الکٹرانکس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کے ذریعے طے کی گئی شرط یعنی کہ ‘کلاز5’ان کے لیے نافذ نہیں ہوتے ہیں۔ یہاں سے سرکار نے یہ طے کیا کہ وہ این پی آر اپ ڈیٹ کرتے ہوئے لازمی طورپر آدھار اکٹھا کر سکتے ہیں۔

12 اکتوبر 2019 کو ایڈیشنل رجسٹرار جنرل سنجے کے دستخط شدہ فائل نوٹنگ کے مطابق، ‘شہریت قانون،1955 کی دفعہ14اے(5)کے اہتمام کے مطابق، ہندوستان کے شہریوں کے لازمی رجسٹریشن میں اپنائی جانے والی کارروائی  ایسی ہوگی جسے پہلے سے طے کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے شہریت ضابطوں، 2003 کےضابطہ3(4)کے تحت آبادی جسٹر بنانے کے لیے این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کے دوران ہم آدھار نمبر کو لازمی بنا سکتے ہیں۔’

دفتر نے یہ بھی تجویز رکھی کہ اگر موجودہ ضابطوں کے تحت ایسا نہیں ہو پاتا ہے تو اس کے لیے آدھار ایکٹ اور شہریت قانون میں ترمیم کی جائے۔

اس بارے میں فیصلہ لینے کے لیے مرکزی داخلہ سکریٹری  کی صدارت میں 18 اکتوبر 2019 کو ایک اعلیٰ سطحی  میٹنگ کی گئی  تھی۔ لیکن ابھی یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ اس میں کیافیصلہ لیا گیا۔ حالانکہ کچھ میڈیا رپورٹس میں ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ این پی آر، 2020 میں آدھار رضاکارانہ طورپر لیا جائےگا۔

اس میٹنگ میں یوآئی ڈی اے آئی کے سی ای او، منسٹری آف الکٹرانکس اینڈانفارمیشن ٹکنالوجی کے سکریٹری، وزارت قانون کے محکمہ قانون کے سکریٹری  اور رجسٹرار جنرل دفتر کے نمائندے شامل تھے۔

این پی آر کی شروعات 2010 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت  والی یو پی اے سرکار کے ذریعے کی گئی تھی۔ اس کے پائلٹ پروجیکٹ کی تیاری دو سال پہلے شروع ہوئی تھی جب شیوراج پاٹل (22 مئی 2004 سے 30 نومبر 2008)اور پی چدمبرم (30 نومبر، 2008 سے 31 جولائی، 2012) وزیر داخلہ تھے۔