خبریں

شہریت قانون: ڈاکٹر کفیل خان نے عدالت سے کہا-یوپی پولیس ان کا ’انکاؤنٹر‘ کر سکتی ہے

عدالت کے باہر خان کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ خان کو انکاؤنٹرکا ڈر ہے ‘‘کیونکہ ان کے پاس پوری جانکاری ہے کہ بچوں کی موت (اتر پردیش کے ایک میڈیکل کالج میں) کا ذمہ دار کون ہے۔’’

ڈاکٹر کفیل خان، فوٹو: ٹوئٹر

ڈاکٹر کفیل خان، فوٹو: ٹوئٹر

نئی دہلی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے مہینے سی اے اے مخالف مظاہرے کے دوران مبینہ طورمتنازعہ بیان  دینے کے معاملے میں گرفتار ڈاکٹر کفیل خان نے جمعرات کو یہاں ایک عدالت میں اس خدشے کا اظہارکیا  کہ اتر پردیش پولیس کے ذریعے‘‘انکاؤنٹر’’ میں انہیں مارا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش پولیس کے ذریعے ٹرانزٹ حراست کے لئے جب کفیل خان کو باندرہ(ممبئی) کی عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا۔

خان کے وکیل نے کہا کہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں تین دن کی ٹرانزٹ ریمانڈ پر بھیج دیا۔ ان کے وکیل کے مطابق، خان نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ یوپی پولیس نے انہیں معاملے میں‘‘غلط طریقے سے’’ پھنسایا ہے۔ وکیل کے مطابق، خان نے عدالت کو بتایا، ‘‘اس بات کا خدشہ ہے کہ انہیں اگر ٹرانزٹ (ریمانڈ) پر بھیجا جاتا ہے تو انکاؤنٹر میں ان کا قتل  کر دیا جائےگا’’ اور زور دیا کہ انہیں ممبئی میں ہی رکھا جائے۔ عدالت کے باہر خان کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ خان کو انکاؤنٹرکا ڈر ہے ‘‘کیونکہ ان کے پاس پوری جانکاری ہے کہ بچوں کی موت (اتر پردیش کے ایک میڈیکل کالج میں) کا ذمہ دار کون ہے۔’’

اتر پردیش پولیس نے عدالت کو بھروسہ دلایا کہ خان کو محفوظ طریقے سے لے جایا جائےگا اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائےگا۔ پولیس کو تین دن کے اندر خان کو علی گڑھ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔

غور طلب ہے کہ  اترپردیش کے ایس ٹی ایف  نے شہریت  قانون (سی اےاے)کے خلاف علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں پچھلے مہینے مبینہ  طور پر متنازعہ بیا ن دینے کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیاتھا۔حکام  نے بتایا کہ خان کو بدھ کی رات ممبئی پولیس کی مدد سے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا۔ وہ یہاں سی اےاے مخالف  ریلی میں حصہ لینے آئے تھے۔

ممبئی پولیس کے ایک افسر نے کہا، ‘اتر پردیش ایس ٹی ایف کے حکام نے ڈاکٹر کفیل خان کو آئی پی سی  کی دفعہ153 اے (کمیونٹی کے بیچ عداوت کو بڑھاوا دینے)کے اہتماموں کے تحت سول لائن میں درج معاملے میں گرفتار کیا۔ ہماری پولیس ٹیم نے اتر پردیش پولیس کی گزارش  پر ان کی مدد کی۔’انہوں نے دعویٰ کیا کہ خان نے پچھلے سال 12 دسمبر کو علی گڑ مسلم یونیورسٹی کے باہر باب سیدپراحتجاج اور مظاہرے کے دوران 600 سے زیادہ طلباکے سامنے مبینہ طورپرمتنازعہ  بیانات دیے تھے۔

بیان درج کرنے والی پولیس نے ڈاکٹرخان پر آر ایس ایس  اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے لیے غیر مہذب تبصرہ  کرنے اور طلبا کومرکزی حکومت  کے شہریت قانون کے خلاف لڑنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی  کوشش  کا الزام لگایا ہے۔خان  کے خلاف درج ایف آئی آر میں سوراج انڈیا کے صدریوگیندریادو کا بھی نام ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ بھی وہاں  موجود تھے۔

خان2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب بی آرڈی میڈیکل کالج، گورکھپور میں 60 سے زیادہ بچوں کی موت ایک ہفتےکے اندر ہو گئی تھی۔ڈاکٹرخان کو 2017 میں گورکھپورکے بابا راگھو داس میڈیکل کالج سے برخاست کر دیا گیا تھا کیونکہ انسفلائٹس سے متاثر کئی بچوں کی موت ہو گئی تھی۔ انہیں انسفلائٹس وارڈ میں اپنی  ذمہ داریوں  کی مبینہ توہین کے لیے اور ایک نجی پریکٹس چلانے کے لیے بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ، پچھلے سال انہیں عدالت نے سبھی الزامات سے بری کر دیا تھا۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا  کے ان پٹ کے ساتھ)