خبریں

’مودی سرکار ہماری شہریت کے لیے قانون تو لے آئی، لیکن مشکل وقت میں بھول گئی‘

کو رونا وائرس کے مدنظر ہوئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران راجستھان میں رہ رہے پاکستانی ہندو پناہ گزینوں کی خبرلینے والا کوئی نہیں ہے۔ریاستی حکومت نے امداد مہیا کرانے کے احکامات دیے ہیں، لیکن اب تک تمام پناہ گزینوں  تک مدد نہیں پہنچی ہے۔

جیسلمیر میں رہنے والی ایک پناہ گزین فیملی،تمام فوٹو، Special Arrangement

جیسلمیر میں رہنے والی ایک پناہ گزین فیملی،تمام فوٹو، Special Arrangement

جئے  پور: گزشتہ  کچھ وقت سے ملک  کی  سیاست کا مرکز بنے پاکستانی پناہ گزین ہندوؤں کی ملک گیر  لاک ڈاؤن میں کوئی خبرلینے والا نہیں ہے۔سالوں پہلے پاکستان کے الگ الگ حصوں سے نقل مکانی کرکے آئے ان لوگوں میں 90 فیصدی پناہ گزین دلت ہیں۔ بیلداری(مٹی کھودنے کا کام )کر کے گزارا کرنے والے ان لوگوں کے سامنے لاک ڈاؤن میں روزی روٹی کابحران  کھڑا ہو گیا ہے۔

پاکستانی ہندوؤں کی شہریت کے مدعے پر کام کرنے والی تنظیم سیمانت لوک سنگٹھن کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں پاک پناہ گزینوں  پر بہت سیاست  ہوئی ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن جیسے مشکل حالات میں اس سیاست  کا کچھ فیصد کام ان کے بھلے کے لیے ہوتا تو ہزاروں پاک پنا ہ  گزینوں کی مدد ہو جاتی۔ شہریت نہیں ہونے کی وجہ سے یہ لوگ کسی بھی سماجی تحفظ  کے منصوبوں کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔

تنظیم  کے مطابق راجستھان میں پاکستان سے آئی ہوئی تقریباً 6 ہزار فیملی ہیں، جن کی آبادی 30-35 ہزار کے بیچ ہے۔جودھ پور کی ڈھائی ہزار فیملی میں سے ایک 40 سال کی مومل اپنے 5 بچوں کے ساتھ شہر کی بھیل بستی میں رہتی ہیں۔ مومل کے شوہر نرسنگھ کی موت پچھلے سال ڈینگو سے ہوئی تھی۔

وہ اب اپنے چچیا سسر سمیو بھیل کے یہاں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہیں۔ عمارت کی تعمیر میں  مزدوری کرنے والے سمیو کو لاک ڈاؤن کے بعد کام ملنا بند ہو گیا ہے۔شہریت نہیں ہونے کی وجہ سے انہیں نہ تو سرکاری منصوبوں  کافائدہ  مل پا رہا ہے اور نہ ہی ریاستی حکومت کے ذریعےکیے گئے اعلانات کا فائدہ ہو رہا ہے۔

سندھ کے سنگھار ضلع کی کھپرو تحصیل کی  رہنے والی  یہ فیملی  پانچ سال پہلے جودھ پور میں آ بسی تھا۔ تب سے یہ لوگ بیلداری کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔کام نہ ملنے سے سمیو کو اپنی فیملی کے ساتھ ساتھ مومل کی فیملی کے لیے کھانے کا انتظام کرنے میں کافی مشکلیں آ رہی ہیں۔

دی وائر سے فون پر ہوئی بات چیت میں سمیو کہتے ہیں،‘سرکار کی طرف سے ہمیں ابھی تک کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ سیمانت لوک سنگٹھن کے کارکنوں نے کھانے پینے کا سامان پہنچایا ہے۔ ہمارے پاس تو ابھی سرکار کی طرف سے سروے والے بھی نہیں پہنچے ہیں۔’

مومل کے رشتہ دار اور ساتھ میں رہنے والے وزیر کہتے ہیں، ‘پاکستان سے آئے ہوئے سبھی پناہ گزین یہاں مزدوری ہی کرتے ہیں۔ لگ بھگ ایک مہینے سے ہمارا کام بند ہے۔ اخباروں میں پڑھا تھا کہ راجستھان سرکار پاکستان سے آئے ہوئے  ہندوؤں کو مدد دے رہی ہے، لیکن ہمارے پاس ابھی تک کوئی نہیں پہنچا ہے۔’

بی اے تک پڑھے وزیر لاک ڈاؤن میں ہو رہی پریشانیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں،‘نریندر مودی سرکار ہماری شہریت کے لیے قانون تک لا رہی ہے، لیکن جب سب سے مشکل وقت آیا تو ہمیں بھول گئی۔ ہم سے ملنے سرکار کا کوئی نمائندہ بھی نہیں آیا۔’بتا دیں کہ مرکز کی مودی سرکار میں راجستھان سے واحد کابینہ وزیرگجیندر سنگھ شیخاوت جودھ پور سے ہی ایم پی  ہیں۔

جیسلمیر میں تاراچند اور ان کی فیملی ۔

جیسلمیر میں تاراچند اور ان کی فیملی ۔

جودھ پور میں کئی سالوں سے پاکستانی ہندوپناہ گزینوں  کے مدعے پر کام کر رہے سماجی کارکن اور سیمانت لوک سنگٹھن کےصدر ہندو سنگھ سوڈھا تفصیل  سے بتاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ‘لاک ڈاؤن کے بعد لاکھوں مزدور اپنے گھروں کو لوٹ آئے کیونکہ ان کے پاس لوٹنے کے لیے گھر تھا۔ پاکستان سے استحصال کا شکار ہوکر آئے ان ہزاروں لوگوں کے پاس لوٹنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ وہ صرف اس بھروسے کے ساتھ ہندوستان  آئے ہیں کہ یہاں وہ محفوظ  رہیں گے اسی لئے کو روناانفیکشن  کی وجہ سے ہوئے اس لاک ڈاؤن میں سب سے غیر محفوظ  گروہ پناہ گزینوں  کا ہی ہے۔’

سوڈھا آگے کہتے ہیں، ‘راجستھان میں 21 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد سے ہی کسی کو کوئی کام نہیں مل رہا۔ ہم نے وزیر اعظم نریندر مودی،وزیراعلیٰ  اشوک گہلوت اور تمام وزیروں کو پناہ گزینوں کی پریشانیوں  کے بارے  میں خط لکھے، لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔’

حالانکہ لاک ڈاؤن کے تقریباً 20 دن بعد وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت  نےان  کو راشن دستیاب  کرانے کے حکم دیے۔ 20 دن سے ہم اپنے محدود وسائل  سے انہیں راشن فراہم کرا رہے تھے۔مقامی انتظامیہ  ابھی تک سروے ہی کر رہی ہے۔ کچھ کچھ جگہوں پر اب راحت کا سامان  پہنچنے لگا ہے،’ وہ جوڑتے ہیں۔

سنگھ کہتے ہیں،‘ریاستی حکومت نے 20 دن بعد ہمارے خط پرحکام  کوحکم  دیا ہے، لیکن مرکز کی طرف سے ہمیں کوئی جواب ہی نہیں مل رہا ہے۔ جبکہ مرکزی حکومت  کو پورے ملک میں پاکستان سمیت الگ الگ ملکوں کے پناہ گزینوں  کے لیے ایک خاص  پیکج کااعلان کرنا چاہیے تاکہ سب سےغیر محفوظ اور غریب طبقے کو راحت مل سکے۔’

ریاستی حکومت  کی ہدایت کے باوجودتمام لوگوں  تک نہیں پہنچ رہا راشن

سیمانت لوک سنگٹھن کی مانگ پر 9 اپریل کو وزیر اعلیٰ  اشوک گہلوت نے پناہ گزینوں کو راشن فراہم  کرانے کا حکم دیا۔ضلع کلکٹروں سے ملی رپورٹ کے مطابق جئے پور میں 500 فیملی، جودھ پور ضلع میں 618 فیملی ، باڑمیر ضلع میں 200، پالی میں 92 اور بیکانیر ضلع میں رہ رہےپناہ گزینوں میں سے 93 فیملی  کو راشن فراہم کرایا جا رہا ہے۔

حالانکہ ان اضلاع میں ان سے کہیں زیادہ تعداد میں پاک سے آئے لوگ رہتے ہیں۔ سیمانت لوک سنگٹھن کے اعدادوشمار کے مطابق جودھ پور میں 2500 فیملی، جیسلمیر میں 2300، بیکانیر میں 400، باڑمیر میں 300، جئےپور میں 300 اور 200 فیملی  دوسرے اضلاع میں رہ رہے ہیں۔

اس بیچ ریاستی حکومت  کے احکامات کے بعد جودھ پور میں انتظامیہ نے پناہ گزیں فیملی  میں راشن پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ وہیں، جیسلمیر میں بھی اب مدد پہنچنے لگی ہے۔ وارڈ 7 میں اتوار سے دونوں وقت کا کھانا دیا جا رہا ہے۔انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں تمام گھروں تک راشن پہنچا دیا جائےگا۔ حالانکہ ابھی بھی ایسی کئی  فیملی  ہیں جنہیں مدد کی درکار ہے۔

وزیر اعلیٰ  اشوک گہلوت نے سبھی ضرورت مندوں کو راحت دینے کا اعلان  کیا ہے، لیکن یہ راحت سبھی پناہ گزینوں  تک مؤثر ڈھنگ  سے نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔

جیسلمیر میں 2300 فیملی ، مدد پہنچی صرف 450 تک

48 سال کے روپ چند اپنی بیوی  نمری اور دو بچہ نارائن، گل چند کے ساتھ چار سالوں سے شہر کے وارڈ نمبر 21 میں رہ رہے ہیں۔ یہ 2016 میں پاکستان سندھ کے امرکوٹ ضلع سے ہندوستان  آئے تھے۔وہ کہتے ہیں،‘ہماری  چار فیملی  ہے اور ایک فیملی میں 6 ممبر ہیں۔ کل ملاکر تمام فیملی  میں 20-25 لوگ ہیں۔عام دنوں میں ہم کھیتی بھی کرتے ہیں تو کبھی مزدوری کرکے پیٹ بھرتے ہیں، لیکن کو رونا کی وجہ سےاب ہمیں کہیں کام بھی نہیں مل رہا۔’

سرکاری سروے کے بارے میں پوچھنے پر وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک ہمارے یہاں کوئی سرکاری افسر نہیں پہنچا ہے۔ پیسہ نہیں ہونے کی  وجہ سے اب کھانے پینے کی دقتیں آنے لگی ہیں۔

جیسلمیر میں روپ چند اور ان کی فیملی ۔

جیسلمیر میں روپ چند اور ان کی فیملی ۔

جیسلمیر ضلع  کلکٹر نمت مہتہ نے دی  وائر کو بتایا کہ، ‘انتظامیہ  نے پاک پناہ گزین 1650 فیملی  کا سروے کیا ہے۔ ان میں سے 450 فیملی کوضرورت مند مانا گیا۔ اب تک ہم نے 300 فیملی تک سوکھا راشن کٹ پہنچا دیا ہے۔ دیہی علاقوں  میں رہنے والی  فیملی  تک بھی مدد پہنچائی جا رہی ہے۔’

جیسلمیر میں سیمانت لوک سنگٹھن کے کارکن دلیپ کہتے ہیں، ‘سرکار کے حکم کے بعد انتظامیہ  نے سروے کرکے پاک پناہ گزینوں تک کھانا پہنچایا ہے، لیکن یہ سبھی تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ جیسلمیر ضلع میں 2300 فیملی  رہتی ہیں، لیکن انتظامیہ  کے سروے میں 1650فیملی  آئی ہیں۔ ان میں سے بھی صرف 450 کو ضرورت مند مانا ہے جبکہ پاک پناہ گزیں سبھی لوگ ضرورت مند ہی ہیں۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔’

وہیں، ہندو سنگھ سوڈھا کہتے ہیں کہ اکیلے سیمانت لوک سنگٹھن کے کارکن نے اب تک 2372 فیملی کے 12 ہزار سے زیادہ لوگوں تک کھانے کی اشیا پہنچائی ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘ایسا نہیں ہے کہ ایک بار مدد پہنچنے کے بعد لوگوں کو کھانے کی ضرورت نہیں ہے، ہر 8-10 دن میں ایسی مدد پہنچنی چاہیے۔ پاک پناہ گزینوں کو لےکر صرف سیاسی  باتیں نہیں کرکے انہیں مدد پہنچانے کی کوشش مرکزی حکومت کو بھی کرنی چاہیے اور اسپیشل  پیکیج کا اعلان  کرنا چاہیے۔’

(مضمون نگارآزاد صحافی  ہیں۔)