خبریں

مرکز نے طے شدہ ہدف کا صرف 50 فیصدی دال-تلہن خریدا، 9 ریاستوں میں بالکل بھی خریداری نہیں ہوئی

دی وائر کی جانب سےآرٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت نے ربیع 2020خریداری سیزن میں20ریاستوں سے کل58.71 لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدنے کا ہدف رکھا تھا، حالانکہ اس میں سے صرف 29.25 لاکھ ٹن پیداوار کی خریداری ہو پائی ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: کورونا کے بیچ مرکزی حکومت نے طے شدہ ہدف کا صرف 50 فیصدی دال اور تلہن کی خریداری کی ہے۔ حکومت نے کل 20ریاستوں سے ان زرعی پیداواروں کی خریداری کامنصوبہ بنایا تھا لیکن 9 ریاستوں سے بالکل بھی خریداری  نہیں ہوئی ہے۔دی  وائر کی جانب سے آر ٹی آئی قانون کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے اس کا انکشاف ہوا ہے۔

زراعت و کسانوں کی بہبودی کی وزارت نے پرائس سپورٹ اسکیم(پی ایس اسکیم)کے تحت ربیع 2020خریداری سیزن کے لیے 20ریاستوں میں کل58.71 لاکھ ٹن دال(چنا، مسور، مونگ اوراڑد)اورتلہن (مونگ پھلی، سرسوں اور سورج مکھی)خریدنے کی منظوری دی تھی۔

حالانکہ اب تک کل29.25 لاکھ ٹن دال اور تلہن کسانوں سے خریدی  جا سکی ہے۔اس میں سے تقریباً21 لاکھ ٹن دال اور آٹھ لاکھ ٹن تلہن کی خریداری ہوئی ہے۔ یہ کل طے شدہ ہدف کا تقریباً50 فیصدی ہی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اس منصوبہ کے تحت کل 9 ریاستوں آسام، بہار، چھتیس گڑھ، ہماچل پردیش، کیرل، اتراکھنڈ اورمغربی بنگال سے بالکل بھی خریداری نہیں ہوئی ہے۔ ان ریاستوں کو 6.24 لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدنے کی منظوری دی گئی تھی۔

وہیں جن11ریاستوں میں خریداری شروع کی گئی، وہاں کی بھی حالت بےحدخراب ہے۔ ان ریاستوں کو کل52.47 لاکھ ٹن خریداری کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ لیکن یہاں صرف 29.25 لاکھ ٹن ہی خریداری ہوئی جو ہدف کےمقابلے 23.22 لاکھ ٹن کم ہے۔معلوم ہو کہ دال، تلہن اور کوپرا پیداوارکی ایم ایس پی پر خریداری کے لیے لمبے وقت سے چلی آ رہی مانگ کے بعد وزارت زراعت نے اکتوبر، 2018 میں پردھان منتری ان داتا آئے سنرکشن ابھیان(پی ایم آشا)کو لانچ کیا تھا۔

اس منصوبہ میں پہلے سے ہی چلی آ رہی پرائس سپورٹ سسٹم(پی ایس ایس)کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد کسانوں کو ایم ایس پی دلانا ہے۔ اس کے تحت مرکزکی ایجنسی این اے ایف ای ڈی ان زرعی پیداواروں کی خریداری کرتی ہے۔کووڈ19کو دھیان میں رکھتے ہوئے کسان، کارکن اور ماہرین یہ مانگ کر رہے تھے کہ اس وقت حکومت کو زیادہ سے زیادہ خریداری کر کےکسانوں کو مناسب منافع دینا چاہیے، تاکہ وہ اس شدیدبحران  کا سامنا کر سکیں۔

حالانکہ اعدادوشماردکھاتے ہیں کہ حکومتوں نے ایسے وقت میں بھی زرعی بحران  کے لیے سنجیدگی  کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔

اتر پردیش

اس فہرست میں سب سے خراب حالت والی ریاستوں میں اتر پردیش ایک ہے، جہاں ہدف کےمقابلےمحض6.43 فیصدی کی خریداری ہوئی ہے۔مرکز کی جانب  سے اتر پردیش میں کل 6.02 لاکھ ٹن چنا، مسور، سرسوں، سورج مکھی، اڑد اور مونگ خریدنے کی منظوری ملی تھی۔ لیکن ریاست میں محض38817 ٹن کی ہی خریداری کی گئی ہے۔

مرکزی حکومت نے ریاست میں2.01 لاکھ ٹن چنا خریدنے کی منظوری دی تھی، لیکن اس میں سے صرف 38,498.18 ٹن چنے کی ہی خریداری کی گئی۔وہیں حکومت نے اتر پردیش میں1.21 لاکھ ٹن مسور اور 2.64 لاکھ ٹن سرسوں خریدنے کا ہدف رکھا تھا، لیکن ریاست میں صرف 0.20 ٹن مسور اور 319.20 ٹن سرسوں کی خریداری ہوئی۔

اس کے علاوہ 340 ٹن سورج مکھی،9040 ٹن اڑد اور 6880 ٹن مونگ خریدنے کی منظوری ملی تھی، لیکن حکومت نے یہاں پر ایک کوئنٹل بھی ان زرعی پیداواروں کو نہیں خریدا۔اتر پردیش مسورپیداوار کے معاملے میں دوسری، سرسوں پیداوار میں چوتھی اور چنا پیداوار میں پانچویں سب سے بڑی ریاست ہے۔

راجستھان

کانگریس مقتدرہ راجستھان میں بھی ہدف کےمقابلے کافی کم خریداری ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت نے ربیع 2020 سیزن کے لیے یہاں پر کل16.70 لاکھ ٹن چنا، سرسوں اور مسورخریدنے کا ہدف رکھا تھا، لیکن حکومت نے یہاں پر صرف 9.61 لاکھ ٹن ہی ان زرعی پیداواروں  کو خریداجو طے شدہ ہدف کےمقابلے 57.54 فیصدی ہی ہے۔

مرکز نے ریاست میں6.15 لاکھ ٹن چنا اور 10.46 لاکھ ٹن سرسوں خریدنے کا ہدف رکھا تھا۔ حکومت نے اس کے مقابلے چنے کی خریداری اپنے ہدف کے برابر کر لی ہے، لیکن سرسوں کی خریداری صرف 3.45 لاکھ ٹن ہی ہو پائی، جو کہ سرسوں کی خریداری کے ہدف کے مقابلے تقریباً33 فیصدی ہی ہے۔

اسی طرح حکومت نے 8380 ٹن مسورخریدنے کا بھی ہدف رکھا تھا۔ لیکن اس میں سے بالکل بھی خریداری نہیں ہوئی۔راجستھان سرسوں پیداوار میں سب سے بڑی ریاست ہے۔ وہیں یہ چنا پیداوار میں دوسری اور مسور پیداوار میں چھٹی سب سے بڑی ریاست ہے۔

تمل ناڈو

پی ایس ایس منصوبہ کے تحت حکومت ہندنے تمل ناڈو میں1.15 لاکھ ٹن اڑد، مونگ، چنا، سورج مکھی اور مونگ پھلی خریدنے کا ہدف رکھا تھا، لیکن حاصل اعدادوشمار کے مطابق اس میں سے صرف 100.55 ٹن کی ہی خریداری ہو پائی جو طے شدہ ہدف کےمقابلےمحض 0.086 فیصدی ہے۔

حکومت نے ریاست میں15000ٹن اڑد، 10000 ٹن مونگ، 1110 ٹن چنا، 1020 سورج مکھی اور 88610 ٹن مونگ پھلی خریدنے کی منظوری دی تھی۔ حالانکہ اس میں سے محض100.55 فیصدی مونگ کی ہی خریداری ہو پائی، باقی ان میں سے کوئی بھی زرعی پیداوار نہیں خریدی جا سکی۔

گجرات

وزارت زراعت نے بی جےپی مقتدرہ گجرات ریاست میں پی ایس ایس منصوبہ کے تحت کل 2.39 لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدنے کی منظوری دی تھی۔ حالانکہ اس میں سے 1.55 لاکھ ٹن ہی خریداری ہو پائی۔حکومت نے ریاست میں1.36 لاکھ ٹن چنا خریدنے کو کہا تھا، جس میں سے کل1.22 لاکھ ٹن چنے کی خریداری ہوئی۔ وہیں 85,225 ٹن سرسوں خریدنے کی بھی منظوری ملی تھی۔اس میں سے 32742.90 ٹن ہی سرسوں اب تک خریدی جا سکی ہے۔ سرسوں پیداوار کے معاملے میں گجرات چھٹی سب سے بڑی ریاست ہے۔

اسی طرح 4910 ٹن مونگ، 12370 ٹن مونگ پھلی اور 560 ٹن اڑد خریدنے کی منظوری دی گئی تھی۔ حالانکہ حکومت ان میں سے ایک بھی پیداوار ایک کوئنٹل بھی نہیں خرید پائی۔

مہاراشٹر

مرکزی حکومت نے مہاراشٹر میں پی ایس ایس منصوبہ کےتحت 4.24 لاکھ ٹن چنا خریدنے کا ہدف رکھا تھا۔ حالانکہ اس میں سے 3.43 لاکھ ٹن کی ہی خریداری ہو پائی۔ چنا پیداوار کے معاملے میں مہاراشٹر ملک کی تیسری سب سے بڑی ریاست ہے۔اس کے علاوہ 520 ٹن سرسوں، 7570 ٹن مونگ پھلی،2470 ٹن سیف فلاور(کسم)اور 330 ٹن سورج مکھی بھی خریدنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ حالانکہ دیگرریاستوں کی طرح یہاں بھی ان میں سے کوئی بھی پیداوار بالکل بھی نہیں خریدا جا سکا۔

مہاراشٹر سیف فلاورپیداوار کے معاملے میں ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔

مدھیہ پردیش

مدھیہ پردیش حکومت نے اس بار گیہوں خریدنے میں کافی تیزی دکھائی ہے اور ملک میں سب سے زیادہ گیہوں کی خریداری کی ہے۔ حالانکہ دال اور تلہن خریداری میں اس ریاست کی حالت دیگرریاستوں کی طرح ہی خراب ہے۔وزارت زراعت نے یہاں پر کل13.01 لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدنے کا ہدف رکھا تھا۔ لیکن حکومت نے اس میں سے 8.22 لاکھ ٹن کی ہی خریداری کی جو طے شدہ ہدف کےمقابلےتقریباً پانچ لاکھ ٹن کم ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

حکومت نے یہاں پر تین اہم فصلیں8.76 لاکھ ٹن چنا، 1.37 لاکھ ٹن مسور اور 2.58 لاکھ ٹن سرسوں خریدنے کامنصوبہ بنایا تھا۔ لیکن اس میں سے 7.06 لاکھ ٹن چنا، 1433.68 ٹن مسور اور 1.15 لاکھ ٹن سرسوں کی ہی خریداری ہو پائی۔اس کے علاوہ 25280 ٹن مونگ اور 2750 ٹن مونگ پھلی خریدنے کی بھی منظوری دی گئی تھی لیکن یہ زرعی پیداوارد بالکل بھی خریدے نہیں گئے۔

چنا اور مسور پیداوار کے معاملے میں مدھیہ پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ ملک میں ان دونوں زرعی پیداواروں کے کل پیداوار میں40 فیصدی سے زیادہ اس ریاست کی حصہ داری ہے۔ وہیں سرسوں پیداوار کے معاملے میں مدھیہ پردیش ملک کی تیسری سب سے بڑی ریاست ہے۔

تلنگانہ

مرکزی حکومت نے تلنگانہ میں کل1.03 لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدنے کی منظوری دی تھی، لیکن حکومت اس کا تقریباً50 فیصدی یعنی کہ 49300 ٹن ہی زرعی پیداوارخریدپائی۔حکومت نے یہاں پر 47600 ٹن چنا خریدنے کا ہدف رکھا تھا جو کامیابی سےانہوں نے پورا حاصل کر لیا۔ حالانکہ دیگر فصلوں کی بالکل بھی خریداری نہیں ہوئی۔

مرکز نے یہاں پر 51400 ٹن مونگ پھلی،1010 ٹن مونگ اور 1530 ٹن اڑد خریدنے کامنصوبہ بنایا تھا۔ لیکن اس میں سے ایک کوئنٹل کی بھی خریداری نہیں ہوئی۔اس کے علاوہ حکومت نے ہدف کے مطابق یہاں پر 1700 ٹن سورج مکھی خریدی ہے۔ان سب کے علاوہ دیگرریاستوں میں کرناٹک میں2.31 لاکھ ٹن خریداری کا ہدف تھا، جس میں سے 1.01 لاکھ ٹن ہی خریدا گیا۔ وہیں آندھر پردیش میں 1.85 لاکھ ٹن خریدنے کی منظوری ملی تھی، جس میں سے حکومت نے 1.27 لاکھ ٹن خریدا۔

اسی طرح اڑیسہ میں36126ٹن دال اور تلہن خریدنے کا ہدف رکھا گیا تھا، جس میں سے حکومت 5943.10 ٹن ہی خریداری کر پائی۔

ہریانہ حکومت کا مظاہرہ دیگرریاستوں کےمقابلے  پھر بھی بہتر ہے۔ یہاں پر کل 3.08 لاکھ ٹن سرسوں خریداری کا ہدف رکھا گیا تھا جو حکومت نے کامیابی سے حاصل کر لیا تھا۔باقی کی نو ریاستوں جہاں پر بالکل بھی خریداری نہیں ہوئی ہے، اس میں سے آسام میں 64710 ٹن، بہار میں 1.07 لاکھ ٹن، چھتیس گڑھ میں85930 ٹن، ہماچل پردیش میں1380ٹن، جھارکھنڈ میں1.12 لاکھ ٹن، کیرل میں90 ٹن، پنجاب میں26600 ٹن، اتراکھنڈ میں8410 ٹن اورمغربی بنگال میں2.17 لاکھ ٹن دال اور تلہن کی خریداری کی منظوری دی گئی تھی۔

این اے ایف ای ڈی کا کہنا ہے کہ ان ریاستوں سے خریداری اس لیے نہیں ہو پائی کیونکہ ریاستی حکومتوں نے اس کو لےکر کوئی پیش کش نہیں بھیجی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایجنسی نے ان ریاستوں کو خط لکھ کر خریداری سے متعلق  جانکاری مانگی تھی، لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

ایجنسی  کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور دال-تلہن خریداری کا کام دیکھ رہے این رمیش نے بتایا،‘ریاستی حکومتوں کی جانب سے خریداری کی پیش کش آنی چاہیے تھی، لیکن وہ نہیں آئی، اس لیے خریداری نہیں ہوئی۔’رمیش نے بتایا کہ ریاستی حکومتوں کو اپنی پیش کش میں خریداری کا شعبہ، پیداوار کا اندازہ، سوسائٹی یا کوآپریٹو کی تفصیلات جو کہ خریداری کرےگی، بجٹ مختص وغیرہ  جانکاری دینی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا،‘ملک میں اب ہر جگہ خریداری بند ہو چکی ہے۔صرف گجرات اور اڑیسہ کے ایک چھوٹے سے علاقےمیں کچھ خریداری ہو رہی ہے۔ چونکہ اب سیزن بھی ختم ہو گیا ہے اس لیےیہاں خریداری نہیں ہو پائےگی۔ ہم نے ان ریاستوں کو خط بھی لکھا، لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔’

پی ایس ایس  کے تحت این اے ایف ای ڈی ریاست کی ایجنسی یعنی کہ کوآپریٹو سوسائٹی کے ساتھ معاہدہ کرکے خریداری کرتا ہے۔ ایف سی آئی کی طرح این اے ایف ای ڈی کا اپناکوئی خریداری مرکز نہیں ہے۔اس منصوبہ کے تحت ریاست کی نوڈل ایجنسی کسانوں کا رجسٹریشن کرواتی ہے۔ این اے ایف ای ڈی کا رول تب آتا ہے جب خریداری کرکے ویئرہاؤس پر پیداوارآ جاتی ہے۔

یہاں پر آنے کے بعد ایک این اے ایف ای ڈی کا افسر اس کو چیک کرتا ہے کہ اس کا معیارٹھیک ہے یا نہیں، جس کے بعد این اے ایف ای ڈی اس کو اپنے قبضے میں لےکرریاستی حکومت کو ادائیگی کر دیتی ہے۔خریداری کی بنیادی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہی ہوتی ہے۔اس بار کوروناکی وجہ سےریاستی حکومت کی پیش کش کا انتظار کیے بنا وزارعت زراعت  نے خریداری کا ہدف طے کر دیا تھا۔

خریداری نہ ہونے کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کہ بازار کی قیمت ایم ایس پی کے برابر یا اس سے زیادہ رہنا، خریداری مرکزوں کا مناسب انتظام نہ ہونا، خریداری ایجنسیوں کا طرزعمل ٹھیک نہ ہونا، پیداوارکا معیاراچھا نہ ہونا، خریداری کے لیے کسانوں کا رجسٹریشن نہ کیا جانا، ایم ایس پی کا اشتہارنہ کیا جاناوغیرہ۔

حکومت کی جانب سےخریداری کارول وہاں پر کافی اہم ہو جاتا ہے جب بازارکی قیمت ایم ایس پی سے نیچے چل رہی ہوتی ہے اور کسانوں کو کم قیمت پر کاروباریوں کو اپنی پیداوار بیچنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔اس معاملے کی جانکاری رکھنے والے وزارت زراعت کے ایک افسر نے بتایا کہ اس بار پورے سیزن میں چنا اور سرسوں اہم پیداوارتھی اور ان دونوں کی ہی بازار قیمت نیچے چل رہی تھی۔ مسور، اڑد اور مونگ کی قیمت ٹھیک ٹھاک حالت میں تھی۔

دالیں اور تلہن کا پیداواراورخریداری

وزارعت زراعت کی جانب سے15 مئی2020 کو جاری کیے گئے پیداواری اعدادوشمار کے مطابق ربیع2019-20 سیزن میں 149.70 لاکھ ٹن دالیں اور 104.95 ٹن تلہن کی پیداوار ہوئی ہے۔ کل ملاکر 254.65 لاکھ ٹن دالیں اور تلہن کی پیداوار ہوئی ہے۔چونکہ مرکز نے 20ریاستوں میں کل58.71 لاکھ ٹن خریداری کا ہدف رکھا تھا، اس طرح دالیں اور تلہن کے کل پیداوارکے مقابلے تقریباً23 فیصدی پیداوار کی خریداری کے لیے کہا گیا تھا۔

حالانکہ اس میں سے بھی 29.25 لاکھ ٹن کی ہی خریداری ہو پائی ہے، اس طرح کل پیداوار کے مقابلے 11.48 فیصدی دالیں اور تلہن کی خریداری ہوئی ہے۔