فکر و نظر

بھگت سنگھ کے فکر و فلسفہ کو نہیں ماننے والا رائٹ ونگ ان کو اپنا ہیرو کیوں بنانا چاہتا ہے؟

بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو بنانے کی کوشش وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے اسلاف ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بھگت سنگھ جیسے انقلابی لیڈروں کے فلسفے سے نہ صرف خود کو الگ تھلگ رکھا تھا بلکہ ان کی پھانسی کے وقت مجرمانہ خاموشی بھی اختیار کر لی تھی۔

بھگت سنگھ، فوٹو: وکی میڈیا کامنس

بھگت سنگھ، فوٹو: وکی میڈیا کامنس

ہم اپنے  مجاہدین آزادی کو ان کی سالگرہ  اور  برسی پر رسمی خراج عقیدت ضرور پیش کر تے ہیں۔  اور  سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری سے بری ہو گئے۔ رسمی خراج عقیدت (اور جذباتی نعروں ) سے صرف رسم ہی ادا ہوسکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر ہم اپنے لیڈران کی تعلیمات سے نا واقف ہیں، تو پھر ہما را ان پر فخر کرنا اور نعرے بلند کرنا  ایک بھونڈی اداکاری سے زیادہ  کچھ نہیں۔

آج بھگت سنگھ کا یوم پیدائش ہے۔ آج ا ن کی 113ویں سالگرہ ہے۔ آج بھی رسم  کا بازار گرم ہے۔ البتہ آج ایک بات اور ہے جو پریشان کن ہے۔ آج رسم کے ساتھ ساتھ ڈھونگ بھی ہے۔ یہ مضحکہ خیز بھی ہے اور تکلیف دہ بھی۔ بھگت سنگھ کو آج وہ لوگ بھی خراج عقیدت پیش کر رہے  ہیں جن کا بھگت سنگھ کی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ رائٹ ونگ گزشتہ کئی سالوں سے بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو  بنا نے کی کوشش  میں لگا ہے۔

مجھے نہیں معلوم اس بات کے لئے کسے ملزم ٹھہرا یا جانا چاہیے کہ بھگت سنگھ کے حوالے سے عام لوگوں کا علم  بھگت سنگھ کے ذریعے  جان ساؤنڈرز پر گولی چلائے جانے  اور سینٹرل لیجیسلیٹو اسمبلی ،  نئی دہلی ( 8 اپریل، 1929)  میں بم پھینکنے  تک کیوں کر محدود ہے(اور جس کے نتیجہ میں انہیں 23 ما رچ 1931 کو  پھانسی ہوئی)۔ جان ساؤنڈرزانگریز ی حکومت کے ایس ایس پی جیمس اسکاؤٹ کا نائب تھا۔

جیمس اسکا ؤٹ  نے  ساؤنڈرز کو لالہ لاجپت رائے پر لاٹھی چارج کرنے کا حکم دیا تھا ۔  لالہ لاجپت رائے 30 اکتوبر 1928 کو سائمن کمیشن کے خلاف نکالے گئے ایک جلوس کی سربراہی کر رہے تھے۔ لالہ ،ساؤنڈرز  کے لاٹھی کی تاب نہیں لا سکے تھے۔ ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ بھگت سنگھ اس موت کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ وہ جیمس اسکاؤٹ کو مارنا چاہتے تھے۔ مگر 17 دسمبر 1928 کوغلطی سے ان کے ساتھی راج گرو نے اسکاؤٹ کی بجائے ساؤنڈرز پر گولی چلادی۔ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ انہوں نے بھی اپنے بندوق کی گولیاں ساؤنڈرز کے جسم میں پیوست کر دیں۔

بھگت سنگھ نے ساؤنڈرز  پر گولیاں چلائی تھیں۔ بھگت سنگھ نے د    ہلی کی اسمبلی ہال میں بم پھینکے تھے۔مگر کیا بات  یہیں ختم ہو جاتی ہے؟ کیا یہی ان کی خدمات تھیں؟ ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں، بھگت سنگھ کی خدمات محض ان دو واقعات تک محدود ہیں؟

بھگت سنگھ   ہندوستان کے عظیم مجاہد آزادی تھے۔ وہ انقلابی سوشلسٹ تھے، اور مارکسی نظریات کے مفکر بھی۔  بپن چندرا نےبھگت سنگھ : میں ملحد کیوں ہوں ؟ کی تمہید میں لکھا ہے کہ “بدقسمتی سے  اس  پہلو پر (مارکسی نظریات کے مفکر) نسبتاً بہت کم بات ہوئی ہے۔  نتیجتاً ہر طرح کے رجعت پسند، قدامت پسند اور فرقہ پرست، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں (چندر شیکھر آزاد وغیرہ) کے نام کا استعمال اپنے مفاد اور سیاست کے لئے کرتے رہے ہیں۔”  استحصال ، انقلاب اور آزادی کے حوالے سے  جو مارکسی نظریات ہیں، ان کی بنیاد پر بھگت سنگھ نے قوم پرستی (نیشنلزم) کی تعریف وضع کی ، اور جس کے حصول کے لئے   سیاسی  بیداری کو لازمی قرار دیا ۔

نیرا چنڈوک لکھتی ہیں کہ بھگت سنگھ  پر جب بات ہو تو بات تشدد کے ایک آدھ واقعات پر ختم نہ ہو۔ہمیں بھگت سنگھ کی ان خدمات کو ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے جن کی بدولت تحریک آزادی کو معنوی اور نظریاتی وسعت نصیب ہوئی۔ نظریاتی اساس ہی کسی بھی تحریک کے لئے لوگوں کو متحرک کرتا ہے۔بھگت سنگھ نے ہندوستان  کو  ‘انقلاب زندہ باد'( اصل میں حسرت موہانی کا)اور ‘سامراجیہ واد کا نا ش ہو’ جیسے سیاسی نعرے   دیے۔  ان نعروں نے  کئی نسلوں کو  متحرک کیا۔

غور طلب ہے کہ کئی  حلقوں میں انقلاب زندہ باد نے وندے ماترم کی جگہ لے لی تھی۔ لہذا یہ بھی  نوٹ کرنے کی بات ہے کہ بھگت سنگھ نے تحریک آزادی کو سیکولر  (مذہب کے عمل دخل سے دور)بنانے میں   بھی اہم رول ادا کیا۔

آپ ہی بتائیے، کہاں مارکسی نظریات اور کہاں  ہندوتوا ۔ ایک طرف رائٹ تو    دوسری طرف  لیفٹ۔ نہ کوئی میل نہ کوئی مما ثلت۔ دو ٹوک کہا جائے تو بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو بنانے کی  رائٹ ونگ کی کوشش  ایک قبیح عمل کے مترادف ہے۔

 رائٹ ونگ کے  علاوہ بھگت سنگھ کو خالصتانیوں نے بھی ‘اپنا نے’ کی پوری کوشش کی، مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ نیوز کلک کو دیے گئے انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں چمن لال بتا تے ہیں کہ تقسیم کے بعد آر ایس ایس کی شاخ سمجھی جانے والی جن سنگھ نے ہر انقلابی لیڈر کو اپنے ‘رنگ’ میں ‘اپنانے’ کی پوری کوشش کی، اور اس عمل میں بھگت سنگھ کے خاندان کا آریہ سماج سے رشتہ اور بھگت سنگھ کی فیملی کے چند افراد کا جن سنگھ سے تعلق مدد گار بھی ثابت ہوا۔  خالصتانیوں نے بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو بنانے کی سعی تو ضرور کی، مگر انہوں نے پھر زیا دہ جوش نہیں دکھا یا، کیونکہ اس وقت تک بھگت سنگھ کے کفر پر بہت بات ہو چکی تھی اور یہ ان کے لئے ایک رکاوٹ ثابت ہوا۔

خیر، یہ بات اہم ہے کہ شاید خالصتانیوں نے دوبارہ پھر کبھی کوشش نہیں کی، مگر  رائٹ ونگ نے ابھی بھی ہار نہیں  مانی ہے۔

بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو بنانے کی کوشش وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے اسلاف ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں شامل تک نہیں ہوئے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بھگت سنگھ جیسے انقلابی لیڈروں کے فلسفے سے نہ صرف خود کو الگ تھلگ رکھا تھا بلکہ ان کی پھانسی کے وقت مجرمانہ خاموشی بھی اختیار کر لی تھی۔ شمس الاسلام نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ایسے ڈھیروں دستاویز  د ستیاب ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ آر ایس ایس نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی تحریک کو مسترد کر دیا تھا۔  اس حوالے سے ایم ایس گولوالکر کا جو بیان ہے، اسے آپ خود ملاحظہ کرلیں:

“اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ جو شہادت کو گلے لگا تے ہیں وہ عظیم بھی ہیں اور ہیرو بھی…مگر، ایسے لوگ سماج کے لئے آئیڈیل نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ ہم ان کی شہادت کو عظیم ترین نہیں گردانتے ہیں…آخر کار وہ اپنے مقصد میں نا کام  ہو گئے۔ ان کی ناکامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے اندر کچھ نہ کچھ خامیاں تھیں۔”

اس میں کوئی شک نہیں کہ سردار پٹیل اب کانگریس کے نہیں بی جے پی کے ہیرو ہیں۔  یہ بات اب ہمیں تسلیم کر لینی چاہئے۔کیا ایسا بھی دن آئے گا جب ہمیں یہ تسلیم کرنا  ہو گا کہ بھگت سنگھ  بی جے پی کے ہیرو ہیں؟خیر، بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو بنانے والوں (وہ لوگ جو مذہب کے نام پر سیاست کرنے میں یقین رکھتے ہیں)کو یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ بھگت سنگھ  کا مذہب سے کتنا لینا دینا تھا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں ملحد کیوں ہوں ؟ میں مذہب سے اپنی بیزاری کا  جس طرح اظہار کیا ہے، وہ دلچسپ ہے۔

اپنے منکر (منکر خدا) ہونے کا ذکر کرتے ہوے بھگت سنگھ لکھتے ہیں:

“ایسا نہیں ہے    کہ میرا الحاد     حالیہ دنوں میں پنپا ہے۔ خدا پرسے میرا  ایمان  تب ہی  اٹھ گیا تھا جب میں نو عمر لڑکا تھا…1926 کے اخیر تک مجھے یہ یقین ہو چلاتھا کہ خدا کے وجود کا  جو نظریہ ہے وہ  بے بنیاد ہے، اور یہ بھی کہ اسی نے اس کائنات کو بنا یا ہے، اور وہی اس پوری کائنات کو چلاتا اور کنٹرول کرتا ہے۔ میں نے اس اعتقاد کو پو ری طرح ترک کر دیا تھا۔ میں اس بابت اپنے دوستوں کے ساتھ مباحثہ بھی کرتا تھا۔ میں اب اعلانیہ طور پر ایک ملحد تھا…”

اگر کسی شخص کا بہر صورت خدا کی ذات میں کامل یقین آپ کو اثر انگیز لگتا ہے، تو بھگت سنگھ  کا خدا کی ذات سے انکار اور پھر اسی یقین پر آخری سانس تک ڈٹے رہنا بھی آپ کو متاثر کرنا چاہئے۔  بھگت سنگھ کا مندرجہ بالا مضمون نہ صرف معلوماتی اور دلچسپ ہے، بلکہ کئی معنوں میں (خاص کر مذہب کے حوالے سے) چشم کشا  ہے۔

ان باتوں سے قطع نظر ہندوستان کے رائٹ ونگ کے پاس کوئی ہیرو نہیں ہے۔ یا یہ کہیے کہ ان کے پاس ایسا کوئی چہرہ نہیں ہے جو عوام کے بیچ مقبول بھی ہو اور اس کی شخصیت     تنازعہ سے پاک بھی ہو۔ اس لیے بھگت سنگھ کا ایک نیا چہرہ بنانے کی ان کی اپنی کوشش  جاری  ہے۔

 لہذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ  یہ را ئٹ ونگ کی یہ بے بسی بھی ہے اور چالاکی بھی جو وہ بھگت سنگھ کو ، اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ ان کا ایمان بھگت سنگھ کے فکرو فلسفہ میں نہیں ہے، اپنا ہیرو بنانے پر آمادہ ہے۔