فکر و نظر

پی ایم مودی کے دس سالہ دور حکومت میں خواتین کے خلاف جرائم

پچھلے کچھ سالوں میں کسی ریپسٹ کے  نام نہاد ہندو اور بی جے پی یا سنگھ کا حمایتی ہونے پر اس کے حق میں کیا  کیانہیں کیا گیا۔اس کو بچانے کے لیے جلوس نکالے گئے، قومی پرچم کے ساتھ مارچ نکالا گیا، تھانوں پر دباؤ بنائے گئے، میڈیا کو خاموش کرایا گیا۔ یہاں تک کہ متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا، ان کی کردارکشی کی گئی، اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئیں اور سودا کرنے پر مجبور کیا گیا۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: نربھیا کے مجرموں کو سزا دلانے تک ہم اس قدر منقسم نہیں تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ان دس سالوں میں یہ ایک کام کر دیا ہے کہ آپ نہ تو ایک ملک کی طرح سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔

کرناٹک میں بی جے پی کی اتحادی جماعت جنتا دل (سیکولر) کے ایم پی اور لوک سبھا امیدوار پرجول ریونا پر جنسی ہراسانی اور سینکڑوں سیکس ویڈیو ریکارڈ کرنے کے علاوہ دھمکی دینے کے الزام ہیں۔ انتخابات کے دوران نہ صرف بی جے پی کی کرناٹک اکائی اور مرکزی قیادت نے  بلکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ریونا کے لیے پرچار کیا تھا۔ ریونا کے دادا سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا ہیں۔ سوچیے کتنا بڑا معاملہ ہے پھر بھی ملک میں کتنی ہلچل ہوئی؟

وزیر اعظم کی جانب سے خواتین کے لیے کوئی تسلی بخش بیان یا پیغام آیا؟ کیا ایسی توقع بے معنی ہو گئی ہے؟ اب ہم جرائم، کرپشن اور ظلم کے خلاف بولنے کو نہیں بلکہ خاموش رہنے اور آنکھیں بند کرنے کو ہی اپنی انسانیت سمجھتے ہیں۔

ایک پارٹی یا تنظیم کے طور پر بی جے پی یا آر ایس ایس کچھ مسائل پر بولنا اور کچھ پر خاموش رہنا چاہے تو یہ ان کی سیاست ہے۔ لیکن کیا ایک  ملک کے طور پر ہم نے تقسیم کی فرقہ وارانہ پالیسی کو اپنا لیا ہے؟ کیا ریپ کرنے والوں کے خلاف صف آرائی سے پہلے ہم نے کبھی دیکھا تھا کہ ریپسٹ کون ہے، کس ذات کا ہے، کس مذہب کا ہے اور کس علاقے کا ہے؟

پچھلے کچھ سالوں میں ریپسٹ کے نام نہاد ہندو اور بی جے پی یا سنگھ کا حمایتی ہونے پر اس کے حق میں کیا کیا نہیں کیا گیا۔اس کو بچانے کے لیے جلوس نکالے گئے، قومی پرچم کے ساتھ بھی مارچ نکالا گیا، تھانوں پر دباؤ بنائے گئے، میڈیا کو خاموش کرایا گیا۔ پھر ان سب سے آگے بڑھ کر متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا، ان کی کردارکشی کی گئی، ان کے اہل خانہ کو لالچ دیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔ سودا کرنے پر مجبور کیا گیا۔

وہیں مجرم کے مسلمان ہونے پر نہ صرف اس کو اور اس کے خاندان کو بلکہ پوری قوم کو مجرم، ریپسٹ اور جہادی قرار دینے میں سرکار کی پوری طاقت، میڈیا اور وزیروں کی فوج لگا دی گئی۔ سوشل میڈیا، پولیس محکمہ، خواتین کمیشن اور سنگھ کی  تنظیموں کو  لگا  دیا گیا۔ نام نہاد انفلوئنسر، فلمی ہستیاں اور کھیلوں کی شخصیات سے بھی بیان دلوائے گئے۔

مثال کے طور پر، اتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ اور قتل کرنے  کے بعد اس کی لاش کو کھیت میں پھینک دیا گیا  تھا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد لاش اہل  خانہ کے حوالے نہیں کی گئی اور رات کے اندھیرے میں آخری رسومات کی ادائیگی کر  دی گئی۔ متاثرہ خاندان کو تسلی دینا تو دور کی بات، کسی سے ملنے سے روکنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی۔

اسی کی رپورٹنگ سے روکنے کے لیے صحافی صدیق کپن پر یو اے پی اے نافذ کیا گیا اور انہیں دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔ریپسٹ کی حمایت میں پنچایت ہوئی اور کسی کو بھی گرفتار نہ کرنے کا دباؤ بنایا گیا۔ ملک بھر سے آوازیں بھی اٹھیں لیکن ان آوازوں کو تحریک بننے سے روک دیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ایسے واقعات کے خلاف معاشرے میں کوئی صف آرا نہ ہو۔

ملک کے لیے اولمپک میڈل جیتنے والی خواتین پہلوان جب سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوئیں تو ملک کی حکومت اور اس کے پورے نظام نے کیا کیا؟ کیا آپ اس نا انصافی کو بھولنے  کو تیار ہیں؟ کیا آپ بین الاقوامی سطح کی خواتین پہلوانوں کی انصاف کی لڑائی میں ریپسٹ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں؟

ہماری وزارت کھیل، خواتین کی ترقی کی وزارت، خواتین کمیشن، حکومت میں بیٹھی خواتین وزراء سمیت تمام وزراء، پولیس، جانچ  ایجنسیاں، میڈیا اور سوشل میڈیا کیا کر رہے تھے؟ کیا مثال قائم کر رہے تھے؟ مستقبل کے پہلوانوں اور ہماری آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟ بی جے پی نے خواتین پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں برج بھوشن شرن سنگھ کا ٹکٹ کاٹ کر کے ان کے بیٹے کو میدان میں اتار دیا ہے۔

ایک اور دردناک کیس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلقیس بانو نے بڑی جرٲت مندی اور پریشانیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور مجرموں کو سزا دلوائی تھی، لیکن یوم آزادی کے موقع پر 11 ریپسٹ رہا کر دیے گئے۔

جیل سے باہر آنے پر مجرموں کا نہ صرف پھولوں کے ہاروں سے استقبال کیا گیا بلکہ مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ انہیں واپس جیل بھیجنے کے خلاف گجرات حکومت کے وکلاء نے مقدمہ لڑا۔ پوری حکومت نے ریپسٹ کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ حکومت اور معاشرے نے مل کر ریپ کرنے والوں کے لیے عام زندگی گزارنے کا انتظام کیا۔ کیا ملک قتل اور گینگ ریپ کے مجرموں کو اس طرح قبول کرنے کو تیار ہو چکا ہے؟

صحافی چھترپتی کو ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ گرمیت رام رحیم کو ان کے جرائم کی سزا دلانے کے لیے اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ ان کی سزا کے خلاف چندی گڑھ میں دنگے ہوئے تھے، تقریباً 35 لوگوں کی جان گئی تھی۔ ایسا خطرناک مجرم اب تک 9 بار پیرول پر جیل سے باہر آ چکا ہے۔ کیا انصاف پر مبنی مہذب معاشرہ ایسا ہوتا ہے؟ اس مجرم کو بھگوان ماننے والوں کی تعداد میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی طاقت کے سامنے منتخب حکومت جھکی ہوئی ہے اور بے بس ہو رہی ہے۔ایسے  عادی مجرم بابا، گرو، مہاراج، سادھو بہت ہیں۔ سب کے کیس اتنے ہی پیچیدہ اور الجھے ہوئے  ہیں۔

سوشل میڈیا کے لیے تو خصوصی طور پر ایک نئی زبان بنائی گئی ہے، جس میں نئی نئی گالیاں ہیں، دھمکیاں ہیں ، فوٹو شاپ کے ذریعے کردار کشی کی دھمکی ہے۔ ایک پوری ٹرول آرمی کھڑی کی گئی ہے، جن کا کام لڑکیوں کو ذلیل کرنا، ریپ کی دھمکیاں دینا اور لڑکوں کو ماؤں بہنوں کی گالی دینا ہے۔ یہ ان کا روزمرہ کا کام ہے، جس کی انہیں تنخواہ ملتی ہے۔ یہ ایک طرح کا روزگار بن گیا ہے۔

بلی بائی اور سلی ڈیل جیسے ایپ بنا کر خواتین اور خصوصی  طور پر مسلم خواتین کی کی بولی بھی لگائی جا چکی ہے۔ ریپ اور ریپسٹ کو جو حوصلہ افزائی، حمایت اور قبولیت مل رہی ہے یہ سب بڑے خطرے کی صرف ایک جھلک ہے۔ ساورکر نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ ریپ کو ایک سیاسی ہتھیار کی طرح  اپنایا جانا چاہیے۔ یہ سب آج ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مہذب معاشرہ ہونے کے ناطے آج کوئی بھی اس چیلنج کو انتخابی ایشو نہیں بنا پا رہا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آگے بہت مشکل لڑائی کھڑی ہے۔

(نریش پریرنا شاعر اور ڈرامہ نگار ہیں۔)