فکر و نظر

اخوت اور بھائی چارے کے بغیر آزادی اور مساوات ناممکن ہے

ذات پات  ایک ایسی رخنہ اندازی  ہے جو معاشرےکی تعمیر وتشکیل نہیں ہونے دیتی۔ ملک بن کر بھی نہیں بن پاتا کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے جوابدہ نہیں ہوتے۔ اتحادیااخوت کی عدم موجود گی میں سماجی ورثےکی تعمیر بھی نہیں ہو پاتی۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

بابا صاحب بھیم راؤامبیڈکر کے ساتھ ایماندارانہ رشتہ کیسے استوار کیا جائے؟ ایسا رشتہ جو موقع پرست  نہ ہو، نعرے بازی کا نہ ہو؟ وہ ان کی اس پکار کو سن کر ہی بنایا جا سکتا ہے جو ‘ذات پات کا خاتمہ’ہے۔ اس پکار کا جواب دینے لائق خود کو بنانے کی کوشش کرکے۔

وہ  کان جو اس پکار کو سن سکیں، ہندوستانی سماج اب تک بنا نہیں پایا، اس سے بابا صاحب کی پکار کی شدت میں کوئی کمی ثابت نہیں ہوتی بلکہ سننے والے کی تنگ دلی ہی ظاہر ہوتی ہے۔دل بڑا ہو تو دوسرے کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ تنگ دلی کا ثبوت بابا صاحب کے مجسمے ہیں جو گاؤں میں ابھی بھی جہاں دکھائی پڑیں، مان لیجیے دلت بستی شروع ہونے والی ہے۔

بابا صاحب نے لکھا صرف دلتوں کے لیے نہیں یا زندگی بھی صرف دلتوں کے لیے نہیں بسر کی تھی ۔ انہوں نے تو آواز لگائی تھی، ہاتھ بڑھایا تھا دوستی کا۔ اس ہاتھ کو تھامنے کا جوش کیا ہندوستان  کے ان لوگوں میں ہے جو خود کو روایتی طو رپرمہذب  کہتے ہیں؟

اس سوال سے بدکنے کی ضرورت نہیں۔ یہ الزام  نہیں، مایوسی ہے۔ تو وہ پکار تھی‘ذات پات کا خاتمہ ۔’آپ اس آواز کو پہچانیے۔ تلخی  اس میں ہے لیکن تکلیف  بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘مجھے حیرانی نہ ہوگی اگر ذات پات  کے افسوسناک اثرات کے بارے میں سنتے ہوئے آپ میں سے کچھ لوگ اوب گئے ہوں۔ اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ اس لیے میں اس معاملے کے مثبت،تخلیقی پہلو کی طرف رجوع کرتا ہوں۔’

تنقیدکو اکثر منفی مانا جاتا ہے۔ناقدین  سے مثبت تجاویز طلب  کی جاتی ہیں۔ بابا صاحب تخلیقی  پیش کش رکھتے ہیں۔ اور دھیان رہے، یہ بنیادی طورپر‘اشرافیہ’کمیونٹی کے لیے ہے:

‘اگر آپ ذات پات نہیں چاہتے تو پھر آپ کا آئیڈل سماج کیا ہوگا…؟ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ معاشرہ  ہوگا آزادی،مساوات اور اخوت پر مبنی۔ اور کیوں نہ ہو؟’

یہ سننے میں جتنا آسان لگتا ہے، بابا صاحب کو معلوم ہے اتنا آسان  اسے عمل میں لانا نہیں ہے۔ اس لیے وہ  سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں،

‘اخوت کو لےکر آخر اعتراض  ہی کیا ہو سکتا ہے؟ میں تو کچھ نہیں دیکھ پاتا۔ کسی بھی آئیڈیل سماج کو متحرک ہونا چاہیے۔ ایسےکئی نبضوں  سے مشترک جو ایک حصے میں ہو رہی تبدیلی کو دوسرے حصوں تک پہنچا سکیں۔’

اخوت اور بھائی چارہ کسی بھی سماج کو صحت مندرکھتا ہے۔ ‘ایک آئیڈیل سماج میں کئی مفادات کو شعوری طور پر دوسروں تک پہنچانا اور شیئر  کیا جانا چاہیے۔ ایک دوسرے سے رابطہ  کے متعدد اور آزاد پہلو ہونے چاہیے اور ایک دوسرے سے جڑنے کے بھی کئی طریقے ہونے چاہیے۔

اخوت کو اکثر نظراندازکیا جاتا رہا ہے۔ صرف ہندوستان  میں نہیں پوری دنیا میں آزادی اور مساوات کے آگے یہ کچھ دب سا گیا ہے۔ اس کے لیے شک و شبہ کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ایک دوسرے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کرنے سے افراد کی آزادی میں دخل کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ یکجہتی اس دلچسپی کے بنا کیسے ہو سکتی ہے؟

لیکن امبیڈکر اور متعدد مفکرین  مانتے ہیں کہ بنا ایک دوسرے پر یقین کیے اور ایک دوسرے کا خیال رکھے آزادی اور مساوات کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔

امبیڈکر تو کئی قدم آگے جاکر کہتے ہیں:یہی اخوت ہے جو صرف جمہوریت  کا دوسرا نام ہے۔’یہ اس لیے کہ جمہوریت  صرف ایک طرح کی حکومت کا نظام نہیں ہے…یہ بنیادی طو رپر سے باہمی شرکت والی زندگی کا ایک طریقہ ہے۔ اس میں سب کے تجربات  کو محسوس کرنا ضروری ہے۔ یہ دراصل اپنے ساتھی شہری(انسان )کے لیے عزت اور احترام کا رویہ ہے۔’

احترام ہی نہیں عقیدت، یہ لفظ محض زبانی نہیں ہیں۔ آپ اس مخاطبہ  کو پڑھیں گے تو یہ دل کی گہرائیوں سے ابھرتی ہوئی ایک آواز معلوم ہوگی۔ ہمیں غیر حقیقت پسندانہ بھی جان پڑےگی کیونکہ ہم اکثر باہمی اشتراک سے محروم  ہوتے ہیں۔

دوسروں کی زندگی میں شرکت کرنا اور دوسرے کی دعوت قبول کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ بابا صاحب یہ دعوت سارے ہندوستانیوں کو دیتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں ذات پات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ وہ ہمارے بیچ میں آ جاتا ہے۔

وہ انسان کو محض  انسان نہیں رہنے دیتا اور آزاد بھی نہیں۔ انسان  مکمل انسان  تبھی بن سکتا ہے جب وہ دوسرے سے بنا کسی‘مفاد’ کے رشتہ بنا سکے۔روحانیت  اورمحبت  کا۔

یہ خطاب  ہندوؤں کو تھا اور آج بھی انہی کو ہے۔ ذات پات  ایک ایسی رخنہ اندازی ہے جو ایک سماج کی تعمیر وتشکیل نہیں ہونے دیتی۔ ملک بن کر بھی نہیں بن پاتا کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے جوابدہ نہیں ہوتے۔ یکجہتی یااخوت کی عدم موجودگی  میں سماجی ورثےکی تعمیر  بھی نہیں ہو پاتی۔

یہ شکایت امریکہ میں اخوت اور سماجی  ورثےکے رشتہ پرغور  کرتے ہوئے ولسن کیرے میکولیمس نے اپنی کتاب میں کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ اخوت کا جذبہ  پیدا کیسے کریں۔ کیا اس کا دائرہ محدود  ہوگا یا اسے بڑھایا جا سکتا ہے؟

ولسن کہتے ہیں کہ بہت سے نیٹ ورک  بنائے جا سکتے ہیں جو کمیونٹی  کو ایک دوسرے سے جوڑیں۔

ہندوستان کے تناظر میں بابا صاحب کا کہنا ہے کہ جب تک ذات پات کا تصور بچار رہےگایہ حلقے ایک دوسرے سے کٹے رہیں گے۔ جبکہ ان کا ایک دوسرے سے مربوط ہوناضروری  ہے اگر ہم ایک سماجی  احساس  کا تصور کرنا چاہتے ہیں۔

بابا صاحب، لیکن اس خطاب  کے لکھے جاتے وقت ہی ہندو سماج سے اپنی امید ختم کر چکے تھے۔ ہندو سماج میں اصلاحات  کی جتنی تحریکیں  ہوئی  ہیں  انہوں نے اس سوال  کوغیرواضح ہی  رہنے دیایا اس کے لیے کسی نہ کسی طرح کی دلیل ڈھونڈ کر اس کو مناسب  ٹھہرایا۔

باہمی تعاون اور خیر سگالی کا جذبہ تمام تہذیبوں  میں موجود ہے۔ اسے اپنے تناظر میں فروغ  دینے کی ضرورت ہے۔ عیسائی دھرم نے پڑوسی کاتصور پیش کیا۔ جو اس دھرم کو کسی اور سرزمین  کا مان کر پرایاٹھہراتے ہیں ان کے لیے بابا صاحب نے بودھ روایت  سے دوستی  کی تجویز پیش  کی۔

یہ محض انسان کے لیے نہیں بلکہ سارے حیوانات کے لیے ہیں۔ صرف دوست کے لیے نہیں بلکہ دشمن کے لیے بھی۔ یہ دوستی شفقت کے بغیرممکن نہیں اور نہ بنامفادکےقربانی کے۔ یہ سب کچھ روحانیت  جان پڑتی ہے۔ لیکن امبیڈکر کے مطابق یہ لازمی  ہے اگر ہم بھلائی  کا تجربہ اسی دنیا میں کرنا چاہتے ہیں۔

(مضمون نگاردہلی یونیورسٹی  میں پڑھاتے ہیں۔)