خبریں

ایم پی: اے بی وی پی کی مخالفت اور پولیس کی وارننگ  کے بعد ویبی نار کے انعقاد سے پیچھے ہٹی یونیورسٹی

مدھیہ پردیش کے ساگر شہر واقع ڈاکٹر ہرسنگھ گور یونیورسٹی  کا معاملہ۔ یونیورسٹی کاشعبہ بشریات، امریکہ کی  ایک یونیورسٹی کے ساتھ 30 اور 31 جولائی کو ایک ویبی نار کی میزبانی کرنے والا تھا۔ اے بی وی پی نے ویبی نار میں مقررین کے طور پر سابق سائنسدان گوہر رضا اور پروفیسر اپوروانند کو شامل کیے جانے کی مخالفت  کی تھی، جس کے بعد پولیس نے یونیورسٹی کو ایک خط لکھا تھا۔

علامتی تصویر،(فوٹو: پی ٹی آئی)

علامتی تصویر،(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی)کی مبینہ وارننگ اور پولیس کے ایک خط کے بعد مدھیہ پردیش کی ایک سینٹرل یونیورسٹی اپنے آن لائن پروگرام سے دستبردار ہوگئی ہے۔ اس کے بعد یہ پروگرام ہوا، حالانکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس میں شرکت نہیں کی۔

معاملہ مدھیہ پردیش کے ساگر شہر واقع ڈاکٹر ہرسنگھ گور یونیورسٹی کا ہے۔ اے بی وی پی نے آن لائن پروگرام میں مقررین  کے طور پر شامل ہو رہے سابق سائنسداں  گوہر رضا اور پروفیسر اپوروانند پر ملک مخالف ذہنیت  کا الزام  لگاکر ان کی مخالفت  کی تھی۔

یونیورسٹی کے شعبہ بشریات کی جانب سےمنعقد ایک بین الاقوامی  ویبی نار کے شروع ہونے سے کچھ ہی گھنٹے پہلے انتظامیہ  اس سے پیچھے ہٹ گئی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مدھیہ پردیش پولیس نے 29 جولائی کو ڈاکٹر ہرسننگھ گور یونیورسٹی کی وی سی کو خط لکھ کر وارننگ دی تھی کہ اگر اس بین الاقوامی  ویبی نار سے مذہب اورکمیونٹی کے جذبات  مجروح ہوئے تو ان کے خلاف ممکنہ  کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اس وارننگ کے اگلے دن یونیورسٹی اس پروگرام  کے شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہی اس کے انعقاد سے پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے بعد کنوینر کے طور پر ڈا ہرسنگھ گور یونیورسٹی کے بنا ہی یہ پروگرام  جمعہ  کو طے وقت (30 اور 31 جولائی)پر ہوا۔

رپورٹ کے مطابق، اس سے پہلے 22 جولائی کو اس ویبی نار میں شامل ہونے والے مقررین  کی مخالفت  میں اے بی وی پی نے پولیس کو ایک میمورنڈم سونپا تھا۔

ساگرضلع کے ایس پی اتل سنگھ نے 29 جولائی کو وی سی  کو خط لکھ کر کہا تھا کہ انہیں اس ویبی نار میں شامل ہو رہے مقررین کے ماضی  میں ملک مخالف  ذہنیت  اور کمیونٹی مخالف  بیانات کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔

انہوں نےخط میں کہا تھا کہ ویبی نار میں جن موضوعات  پر چرچہ ہونی ہے اور جن خیالات  کااظہار کیا جانا ہے، ان پر پروگرام  شروع ہونے کے پہلے سے رضامندی  بنا لی جانی چاہیے۔

اتنا ہی نہیں ایس پی نے وارننگ دی تھی کہ آئی پی سی کی دفعہ505 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اس ویبی نار میں سی ایس آئی آر کے سابق سائنسداں گوہر رضا، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند، امریکہ کے میساچوسٹس کی برج واٹر اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرعاصم حسنین اور آئی آئی ٹی حیدرآباد کے پروفیسر ہرجندر سنگھ مقرر تھے۔

ویبی نار کا موضوع‘کلچر اینڈ لنگوسٹک ہرڈلس ان دی  اچیومینٹ آف سائنٹفک ٹیمپر’ یعنی سائنسی مزاج کے حصول میں ثقافتی اور لسانی رکاوٹیں ،تھا، جس کی میزبانی یونیورسٹی کا شعبہ بشریات ، امریکہ کے مونٹ کلیئر اسٹیٹ یونیورسٹی کے ساتھ 30 اور 31 جولائی کو کرنے والا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، ایس پی نے جس دن (29 جولائی) وی سی  کو خط لکھا تھا، اسی دن یونیورسٹی انتظامیہ  نے شعبہ بشریات سےوزارت تعلیم  کوخط لکھ کر ان سے پروگرام  کی منظوری لینے کو کہا تھا۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار سنتوش سوہگورا نے (شعبہ بشریات)پروفیسر گوتم کو لکھے خط میں کہا تھا کہ اگر وزارت نے منظوری نہیں دی تو آن لائن ویبی نار کو رد کیا جائےگا۔

اس خط میں پروفیسر گوتم اور ان کی ٹیم سے پروگرام کے لیے یونیورسٹی کے لوگو، نام یا اس کے کسی پلیٹ فارم کا استعمال کرنے سے بچنے کو کہا گیا تھا۔

ذرائع  کا کہنا ہے کہ شعبہ بشریات نے وزارت کو خط لکھا تھا، لیکن وزارت سے کسی طرح کا ردعمل نہیں ملنے پر پروفیسر گوتم اور ان کی ٹیم کو ویبی نار شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے اس سے پیچھے ہٹنا پڑا۔

انڈین ایکسپریس نے اس بارے میں وی سی  جےڈی اہی سے رابطہ  کرنے کی کئی کوشش کی ، لیکن ان سے رابطہ  نہیں ہو سکا۔

اس سے پہلے اس ویبی نار میں شامل ہونے والے مقررین کی مخالفت کر رہے اے بی وی پی نے 22 جولائی کو پولیس کو ایک میمورنڈم سونپا تھا، جس میں مقررین کے نام پرمخالفت کی  گئی  تھی۔

اے بی وی پی کے ساگر ضلع کے کوآرڈی نیٹرشری رام ریچاریا نے ایس پی سنگھ کو لکھے خط میں کہا تھا، ‘ویبی نار میں شامل ہونے والے دو مقررین گوہر رضا اور پروفیسر اپوروانند ملک مخالف ذہنیت  کے ہیں اورملک مخالف سرگرمیوں  میں شامل رہے ہیں۔ اپوروانند کی شمولیت  دہلی فسادات  میں پائی گئی تھی اور ان سے اس بارے  میں پوچھ تاچھ بھی ہوئی تھی۔ گوہر رضا نے دہشت گرد افضل گرو کے لیے‘افضل پریم’ نام سے ایک نظم لکھی تھی۔’

اس سلسلے میں ساگر ایس پی سنگھ سےرابطہ کرنے پر انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی سے صرف ویبی نار کو ریکارڈ کرنے اور یہ یقینی  بنانے کو کہا گیا تھا کہ اس کے انعقاد سے پہلے کالج کے اندر سبھی طبقوں  کے بیچ آپسی اتفاق  بن جائے۔

ایس پی سنگھ نے کہا، ‘سیمینار کی مخالفت کرنے والا خط  ایک خاص تنظیم  کا تھا، جبکہ ہماری خود کی خفیہ رپورٹس بھی تھیں، جس میں کہا گیا کہ کئی لوگ اس ویبی نار سے نالاں تھے۔ ایسا مانا جا رہا تھا کہ اس ویبی نار سے ایک خاص کمیونٹی  یاطبقے کو نشانہ بنایا جائےگا اور اسے دھیان میں رکھتے ہوئے یہ خط لکھا گیا تھا، جس میں آرگنائرس  سے محتاط  رہنے کو کہا گیا، کیونکہ ویبی نار ایک عوامی پلیٹ فارم ہے۔’

گزشتہ  30 جولائی کو ویبی نار میں پروفیسر اپوروانند کے اپنی بات رکھنے کے بعد جیسے ہی سوال جواب کا سیشن شروع ہوا۔

اس دوران اے بی وی پی کے شوم سونی نے پوچھا، ‘افضل گرو پریمی کے طور پر پہچانے جانے والے لوگوں کو اس طرح کے پروگرام میں بولنے کے لیے کیوں بلایا جاتا ہے۔ کیا یونیورسٹی میں دانشوروں  کی کمی ہو گئی ہے۔’

اس پر سیشن کی نظامت  کر رہے امریکہ کے مونٹ کلیئراسٹیٹ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر نیرج ویدوان نے کہا، ‘یہ چرچہ کا موضوع نہیں ہے اور میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ اس طرح کے الزام مختلف  لوگوں پر لگے ہیں، لیکن ہم ان پر تبصرہ کرنے کے لیے یہاں نہیں ہیں۔ ویبی نار کےموضوع پر ہی رہیں۔’

انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں پروفیسر اپوروانند نے بتایا،‘اے بی وی پی کو چپ کرانے کے بجائے پولیس آرگنائزرس کے خلاف ہو گئی، جو افسوس ناک ہے۔ اے بی وی پی نامناسب  طریقے سے مشینری کو متاثر کر رہی ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی نے اس دباؤ کی مخالفت کرنے کی کوشش کی۔ وی سی پولیس کو واپس خط  لکھ کر کہہ سکتی تھیں کہ یہ ان کا معاملہ ہے۔’

پروفیسر گوہر رضا نے اس واقعہ  کو پریشان کن بتایا۔

انہوں نے کہا، ‘ہندوستان  اسی کا سامنا کر رہا ہے جو 15ویں اور 16ویں صدی  میں یورپ نے کیا تھا، جب چرچ کے جذبات مجروح کرنے کے لیے گلیلیواور برنو جیسے لوگوں کو مار دیا گیا تھا۔ آئین  میں فراہم سائنسی مزاج کے خلاف اسٹیٹ کیسے کام کر سکتا ہے؟ میرے جذبات  کا کیا جو اس واقعہ  سے مجروح ہوئے ہیں۔’