خبریں

جھارکھنڈ: آدی واسی شناخت پر انتخابی جیت حاصل کرنے والی سرکار میں بھی آدی واسیوں پر جبر کیوں جاری ہے؟

چاہےمرکز میں یو پی اے کی سرکار رہی ہو یاموجودہ  این ڈی اے کی،نکسلائٹ مہم کے نام پرسینٹرل سیکیورٹی فورسزکی جانب سےآدی واسیوں پرتشدد جاری رہتی ہے۔اس بات کی تردید نہیں کی جا سکتی کہ جھارکھنڈ میں ماؤنوازتشددایک سنگین مسئلہ  ہے، لیکن اسے روکنے کے نام پر بے قصورآدی واسیوں کو ہراساں کرنے  کا کیاجواز ہے؟ کیوں ابھی بھی آدی واسیوں کےروایتی  و ثقافتی نظام  کو درکنار کر سیکیورٹی فورسز ان کے علاقے میں دراندازی کرکے انہیں پریشان کر رہے ہیں؟

گاؤں والوں  سے ایک ملاقات کے دوران جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ  ہیمنت سورین۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

گاؤں والوں  سے ایک ملاقات کے دوران جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ  ہیمنت سورین۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

فادرا سٹین سوامی کےادارہ جاتی قتل کے بعدجھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین سمیت متعددمقتدرہ رہنماؤں نے ان کی موت اورجمہوریت پر مرکزی حکومت  کے بڑھتےحملوں کی مخالفت کی۔وزیر اعلیٰ  نے ان کی گرفتاری کی بھی سخت لفظوں  میں مذمت کی تھی۔ لیکن اسٹین سوامی کی جانب ے اٹھائے گئے مدعوں پر سیاسی خاموشی  ہے۔

اسٹین سوامی کا ماننا تھا کہ نکسل ازم کے فرضی الزامات کے تحت گرفتار کیے گئے زیر سماعت قیدیوں کے مدعے کو اٹھانے کی وجہ سے انہیں بھیماکورےگاؤں معاملے کی آڑ میں نشانہ بنایا گیا۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں و ریاستی جبرکے مدعوں کو بولڈ ہوکر اٹھاتے رہے۔

چاہے مرکز کی یو پی اے سرکار کے دوران جھارکھنڈ کے سارنڈا جنگلوں میں چلایا گیا آپریشن گرین ہنٹ ہو یا رگھوبر داس سرکار کے زمانے میں فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے آدی واسیوں کا مدعا، ان کی مخالفت کرنے میں اسٹین سوامی کبھی پیچھے نہیں رہے۔

رگھوبر داس سرکار کے دوران جھارکھنڈ میں بڑے پیمانے پر جبر ہوا، بالخصوص ریاست کی طرف سے اسپانسر تشدد۔

مثال کے طورپرمقامی اراضی قوانین میں ترمیم کےخلاف  ہوئے عوامی تحریکوں  میں حصہ لے رہے لوگوں پر لاٹھی وگولی چلانا، پتھل گڑی آندولن کے دوران ہوئے پولیس تشدد اورسینکڑوں نامزدو ہزاروں نامعلوم لوگوں پر سیڈیشن سمیت مختلف الزامات پر معاملے درج کرناوغیرہ ۔

اس دوران بےقصورآدی واسی اور اصل باشندوں  کو نکسلائٹ  مہم میں فرضی انکاؤنٹر میں مارنے کے کئی واقعہ  ہوئے، جیسے بکوریا معاملہ، ڈولی مزدور موتی لال باسکے کاقتل  وغیرہ ۔

اس صورتحال پر ہیمنت سورین سمیت مہاگٹھ بندھن کے رہنماؤں و پارٹیوں  نے لگاتار اپوزیشن  کے طور پر سوال اٹھایا تھا۔ حالانکہ ابھی تک مہاگٹھ بندھن سرکار کے دور میں ریاستی اسپانسرتشددنہیں ہوا ہے،لیکن کیا آدی واسی اور اصل باشندوں  کےلیے ہراسانی  کی زمینی صورتحال بدلی ہے؟ پچھلے دو سالوں کے کچھ واقعات  کے تجزیے سے، جن حقائق  میں میں شامل تھا، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نکسلائٹ  مہم کے نام پر آدی واسیوں پرتشدد

پندرہ جون 2020 کو سی آر پی ایف کے جوانوں نے نکسلائٹ سرچ مہم  کے دوران مغربی سنگھ بھوم کے چریابیڑا گاؤں کے ہو بھاشی آدی واسیوں کو گھنٹوں تک ڈنڈوں، بیٹن، رائفل کے بٹ اور بوٹوں سے بےرحمی سے پیٹا۔ یہ آدی واسی اپنی روایت کے مطابق گاؤں کے ایک گھر کی مرمت کر رہے تھے جب سیکیورٹی فورسز نےپہنچ کر ان پر تشدد کیا۔

گاؤں والوں کے مطابق، جنگل پہاڑ میں ان کےچیخنے کی آواز گونج رہی تھی۔ کئی لوگوں کو شدید چوٹ لگی۔ ہندی میں جواب نہ دینے کی وجہ سےبھی ان کی پٹائی ہوئی۔

ٹھیک ایک سال بعد12جون 2021کو سرہل تہوار کے پہلے جنگل میں چھوٹے جانوروں کا روایتی شکار کرنے نکلے لاتیہار کے پری گاؤں کے آدی واسی نوجوانوں پرسیکیورٹی فورسز کی جانب سےفائرنگ ہوئی، جس میں ایک24سالہ نوجوان  کی گولی لگنے سے موت ہو گئی۔

گاؤں والوں نے پولیس کو دیکھتے ہی ہاتھ اٹھا لیا تھا اور چلائے کہ وہ  عام لوگ  ہیں، پارٹی(ماؤنواز)نہیں ہیں اور گولی نہ چلانے کی گزارش  کی، لیکن گولیاں چلتی رہیں۔

غور کرنے کی بات ہے کہ دونوں واقعات کے متاثرہ لوگ  نہ ماؤنواز پارٹی سے جڑے تھے اور نہ ہی ان کی طرف سےسیکیورٹی فورسز پر کسی طرح  کاتشدد کیا گیا تھا۔

تشدد کو فرضی جامہ پہنانا و بے قصوروں  کا تحفظ

پری گاؤں کےواقعات کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی سیکیورٹی فورسز نے میڈیا کو پیغام  بھیجا کہ انکاؤنٹر میں ایک نکسلی مارا گیا ہے۔ مقامی میڈیاکےجائے وقوع پر پہنچنے اورگاؤں والوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے اس جھوٹ کا پردہ فاش ہوا۔ لیکن سچائی باہر آنے کے باوجود پولیس کی جانب سے غلط ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں معاملے کو ایک انکاؤنٹربتایا گیا اور آدی واسیوں پر پہلے گولی چلانے کا الزام لگایا گیا۔

ایف آئی آر میں نوجوان کو گولی لگنے کا ذکر تک نہیں ہے۔مہلوک نوجوان کی بیوی اوردوسرے گاؤں والوں  کے لگاتار درخواستوں  کے باوجود ابھی تک پولیس نےقتل  کی ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔

چڑیابیڑا کےواقعہ  کے بعد بھی پولیس کی جانب سے کچھ ایسی ہی کارروائی کی گئی۔ درج کی گئی ایف آئی آر میں سی آر پی ایف کے تشدد میں رول کا کوئی ذکر نہیں ہے۔یہ لکھا گیا ہے کہ ‘چتکبرا پوشاک’میں آئے لوگوں نے تشدد کیا۔ معاملے کو ماؤنواز کا فرضی جامہ پہنانے کی پولیس کی منشا صاف دکھتی ہے۔متاثرہ آج تک لگاتار بول رہے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز نے تشدد کیا اور انصاف کی فریاد لگا رہے ہیں۔

حالانکہ ضلع کے ایس پی نےمیڈیا میں مانا ہے کہ سیکیورٹی فورسزکی جانب سےغلطی ہوئی تھی،لیکن پولیس نے اس کےبرعکس  جواب عدالت میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز تشدد کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ساتھ ہی،متاثرین  کاباقاعدہ  بیان آج تک درج نہیں کیا گیا ہے۔

دونوں معاملوں میں مقامی مقتدرہ ایم ایل اے و وزیر اعلیٰ  کو کئی بار درخواست دیے گئے ہیں۔ چریابیڑا معاملے میں وزیر اعلیٰ  نے ٹوئٹ کرکےمقامی پولیس کو معاملے کانوٹس لینےاورمناسب  کارروائی کرنے کا حکم  دیا۔لیکن ابھی تک نہ توصحیح ایف آئی آر درج ہوئی ہے، نہ قصورواروں پر کارروائی ہوئی اور نہ ہی متاثرین  کو معاوضہ ملا۔

صرف نکسلائٹ مہم کے دوران ہی نہیں، بلکہ پولیس کی جانب سےآدی واسیوں پر تشدد کے کئی معاملے ہیں،جن میں متاثرہ کے درخواست  پر ایف آئی آرتک درج نہیں کی گئی۔

مثلاً12دسمبر 2020 کو کام کرکے سائیکل سے لوٹ رہے گومیا(بوکارو)کے بنشی ہنسدا کو پولیس نے چیک ناکہ پر روک کر بےوجہ بےرحمی سے پٹائی کی جس سے ان کی ناک پھٹ گئی۔

بنشی کی طرف سے کئی باردرخواست دینے کے باوجود آج تک قصوروار پولیس اہلکاروں  کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔اس میں بھی وزیر اعلیٰ  نے ٹوئٹر پرمقامی پولیس کوقصورواروں  کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کو کہا تھا۔

فرضی معاملوں میں پھنسانا

رگھوبر داس سرکار کے دور میں کئی بے قصور آدی واسی اور اصل باشندوں  پر ماؤ نواز تشدد کےالزام میں یو اے پی اے سمیت آئی پی سی کی کئی دفعات  کے تحت  معاملے درج کیے گئے تھے۔

ان میں سے کئی ابھی بھی جیل میں زیر سماعت قیدی کے طور پر بند ہیں۔ کئی لوگوں کو ضمانت تو ملی ہے، لیکن معاملوں میں ٹرائل بہت دھیمی رفتار سے چل رہا ہے۔ عدالتی خرچ کے لیے متاثرین  ہزاروں روپے کے قرض میں ڈوب گئے ہیں۔

مثال کے طورپر ٹوٹی جھارا گاؤں (بوکارو)کے 24-سالہ ہیرالال ٹڈو اور 20 سالہ سرجمنی کو پولیس نے 2014 کے ایک ماؤنواز واقعہ سے جڑے ہونے کے الزام میں ستمبر 2015 میں گرفتار کیا تھا۔ ہیرالال2.5 سال اور سرجمنی 2.8 سال جیل میں رہے۔

ہیرالال کی پڑھائی چھوٹ گئی۔ سرجمنی بالغ ہونے سے پہلے ہی یو اے پی اے جیسےسنگین الزامات میں پھنس کر جیل کی تجربہ کار ہو گئیں۔ وہ روز جیل میں روتی تھیں۔

عدالتی عمل کے لیے دونوں فیملی نے لگ بھگ 70 سے 80 ہزار روپے قرض لیا۔ دونوں نہ تو ماؤنواز ہیں اور نہ ہی ان کا اس واقعہ سے کوئی تعلق تھا۔ حالانکہ سرکار بدل گئی، لیکن انہیں ابھی تک کوئی راحت نہیں ملی ہے۔

وہ ہمیشہ ڈر میں رہتے ہیں کہ کب انہیں پھر سے گرفتار کر لیا جائےگا، کیونکہ معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔ اس علاقے میں کئی  آدی واسی ایسے ہی فرضی معاملوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

جھارکھنڈ سرکار بنام ریاستی جبر

یہ صرف کچھ مثالیں ہیں جن کی سچائی سامنے آ پائی ہے۔ ایسےمتعددمعاملے ہیں جو جنگلوں اور پہاڑوں میں ہی کھو جاتے ہیں۔ چاہے مرکز میں یو پی اے کی سرکار رہی ہو یاموجودہ  این ڈی اے کی، نکسلائٹ مہم کے نام پر سینٹرل سیکیورٹی فورسزکی جانب سےآدی واسیوں پرتشدد جاری رہتی ہے۔موجودہ مرکزی حکومت نے تو ماؤنواز کو بہانا بناکر مزاحمت کی آواز کو دبانے کی بھی حکمت عملی اپنا لی ہے۔

اس بات کی تردید نہیں کی جا سکتی ہے کہ جھارکھنڈ میں ماؤنوازتشدد ایک سنگین مسئلہ  ہے،لیکن اسے روکنے کے نام پر بے قصورآدی واسیوں کو ہراساں کرنے  کا کیا جواز ہے؟صوبے کے لیے یہ صورتحال کئی سوال کھڑا کر رہا ہے۔

آدی واسی شناخت پر انتخاب جیتی سرکار کےدور میں بھی صرف آدی واسیوں پر جبر جاری ہے؟ کیوں ابھی بھی سیکیورٹی فورسز و پولیس کےتشدد کے خلاف محض ایک ایف آئی آر درج کروانا ممکن نہیں ہے؟ کیوں ابھی بھی آدی واسیوں کے روایتی  و ثقافتی نظام کو درکنار کرکےسیکیورٹی فورسز ان کےعلاقے میں دراندازی کرکے انہیں پریشان کر رہے ہیں؟ کیوں ابھی بھی صوبے میں بےقصور آدی واسیوں کو یو اے پی اے و ایسےدیگر سنگین الزامات سے جوجھنا پڑ رہا ہے؟

یہ صورتحال صرف آدی واسیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ صوبےکے دیگر محروم  و غریب لوگ و گروپ  بھی اس کے شکار ہیں۔

ایسے دور میں جب مرکزی حکومت کے ذریعےآئینی حقوق  و جمہوری اداروں کو لگاتار کمزور کیا جا رہا ہے، ہیمنت سورین سرکار اس کے برعکس مثال پیش کرکے پورے ملک کو ایک راستہ دکھا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے سرکار کو سب سے پہلے محض ٹوئٹر سے آگے بڑھ کر پولیس وسیکیورٹی فورسز پر لگام لگانی پڑےگی اور لوگوں کوجوابدہ بنانا پڑےگا۔

(مضمون نگار سماجی کارکن ہیں۔)