خبریں

یوپی پولیس ایف آئی آر معاملہ: دی وائر کو عبوری راحت

سپریم کورٹ نے دی وائر کو چلانے والےادارے‘فاؤنڈیشن فار انڈیپنڈنٹ جرنلزم ’اور اس کےتین صحافیوں  کے خلاف اتر پردیش میں درج ایف آئی آر کو رد کرانے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ  کے پاس جانے کے لیے کہا اور انہیں گرفتاری سے دو مہینے کاتحفظ فراہم کیا ۔

(السٹریشن: پی ٹی آئی/دی وائر)

(السٹریشن: پی ٹی آئی/دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ وہ نہیں چاہتا کہ پریس کی آزادی کو کچلاجائے، لیکن صحافیوں کے خلاف درج ایف آئی آرکو رد کرانے کے لیے سیدھے اس کے پاس چلے جانے کےلیے وہ ان کے لیےایک الگ نظام  نہیں بنا سکتا ہے۔

عدلیہ نے دی وائرکو شائع کرنے  والےادارے‘فاؤنڈیشن فارانڈیپنڈنٹ جرنلزم’اور اس کےتین صحافیوں  کے خلاف اتر پردیش میں درج ایف آئی آر کو رد کرانے کے لیے دائر عرضی  پرشنوائی کرتے ہوئے یہ تبصرہ  کیا۔

جسٹس ایل ناگیشور راؤ،جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی تین رکنی بنچ  نے عرضی گزاروں  سے ایف آئی آر رد کرانے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ  کے پاس جانے کے لیے کہا اور انہیں گرفتاری سے دو مہینے  کا تحفظ فراہم کیا ۔

بنچ نے کہا، ‘آپ ہائی کورٹ  جائیے اور ایف آئی آر رد کرنے کی گزارش کیجیے۔ ہم آپ کوعبوری  راحت دیں گے۔’

رپورٹ کےمطابق،جسٹس راؤ نے اس بات کا ذکر کیا کہ عدالت نے شیلانگ ٹائمز کی مدیر پیٹریشیا مکھیم کے خلاف درج ایف آئی آر تب خارج کی تھی جب میگھالیہ ہائی کورٹ نے معاملے کو خارج کرنے سے منع کر دیا تھا۔

حالانکہ کورٹ نے یہ بھی کہا، ‘ہم صحافیوں  کے لیے ایک الگ نظام نہیں بنا سکتےکہ وہ  اپنے خلاف درج ایف آئی آرکو رد کرانے کے لیے آرٹیکل 32 کےتحت سیدھے ہمارے پاس آ سکیں۔’

عدالت نے کہا کہ وہ اظہار رائے  کی آزادی  کےحق  کو سمجھتی ہے اور ‘پریس کی آزادی  کو کچلنا نہیں چاہتی ہے۔’

یہ عرضی  دی وائر اور اس کےتین صحافیوں سراج علی، مکل سنگھ چوہان اور عصمت آرا کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ اس میں رام پور، غازی آباد اور بارہ بنکی میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر اور ان پر ہو سکنے والی کارروائیوں کو رد کرنے کی درخواست کی گئی  تھی۔

ایڈوکیٹ شادان فراست کے توسط  سے دائر عرضی میں کہا گیا کہ یہ ایف آئی آر پوری طرح سے مختلف عوامی واقعات  کی رپورٹنگ کی وجہ سے درج کی گئی ہیں۔اس میں کہا گیا کہ رام پور میں ایف آئی آر اس سال جنوری میں درج کی گئی تھی جبکہ دو دیگر ایف آئی آر جون میں درج کی گئیں۔

دی وائر نے اپنی عرضی  میں کہا تھا، ‘شائع شدہ معاملے کا کوئی بھی حصہ دوردور تک جرم  نہیں ہے، حالانکہ یہ سرکار یا کچھ لوگوں کے لیے ناگوار  ہو سکتا ہے۔’اتر پردیش پولیس نے بارہ بنکی میں ایک مسجد کو غیرقانونی  طریقے سے منہدم  کرنے کی رپورٹنگ کو لےکر جون  میں دی وائر اور اس کے دو صحافیوں (سراج علی اور مکل سنگھ چوہان) کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

یہ مسجدمبینہ طور پر مقامی انتظامیہ کے ذریعے17مئی2021 کو منہدم کی گئی تھی، جس کے بارے میں ہندوستان  اوردوسرے ملکوں  میں دی وائر سمیت اور کئی دوسرے میڈیااداروں  نے رپورٹ کی تھی۔

ایف آئی آر آئی پی سی کی دفعہ153(دنگا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں  کے بیچ تعصب  پھیلانا)، 505(1) (بی) (سماج میں ڈر پھیلانا)، 120بی (مجرمانہ طور پر سازش)اور 34(عام منشا سے کئی لوگوں کے ذریعے کیا گیا کام) کے تحت درج کی گئی ہے۔

اس سے پہلے 14 جون کو ایک ٹوئٹ کو لےکر دی وائر کے خلاف غازی آباد میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ دراصل یہ ٹوئٹ غازی آباد میں ایک مسلمان پر حملے کو لےکر تھا۔

وہیں، فروری 2021 میں رام پور پولیس نے 26 جنوری2021 کو کسانوں کے مظاہرے کے دوران ایک نوجوان  کسان کی موت پر ان کے دادا کے دعووں کی رپورٹنگ کو لےکردی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن اور صحافی  عصمت آرا کے خلاف رام پور پولیس نے ایف آئی آر درج کی تھی۔ کسان کے دادا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے پوتے کی موت حادثے میں نہیں بلکہ گولی لگنے سے ہوئی ہے۔

عرضی میں اتر پردیش پولیس کو ان ایف آئی آرکو رد کرنے کے علاوہ عرضی  گزاروں کے خلاف کوئی تعزیری  کارروائی سے روکنے کے آرڈر دینے کی بھی درخواست  کی گئی ہے۔

جہاں رام پور پولیس نے دی وائر کےمدیر اور اس کے رپورٹر کے بیانات کو ای میل کے ذریعے قبول کر لیا تھا، وہیں بارہ بنکی پولیس نے باربار سمن بھیجا اور کہا کہ بیان درج کرانے کے لیے ان کے رام سنیہی گھاٹ تھانے آنا ہوگا۔

اسی وجہ سے دی وائر کو عرضی  دائر کرنی پڑی تھی۔ دی  وائر نے بارہ بنکی کے ایس پی کو اتر پردیش کے چیف سکریٹری  کے اس سرکولر کی بھی یاد دلائی تھی، جہاں سال 2017 میں انہوں نے تمام  جانچ افسروں  کو ہدایت دی تھی کہ ملزمین کے بیان اسپیڈ پوسٹ یا ای میل کے ذریعے بھی قبول  کیے جائیں۔

عرضی  میں عدالت سے آئی پی سی  کےاہتماموں کےمبینہ غلط استعمال  کو روکنے کے لیےہدایت  دینے کی  بھی گزارش کی گئی  ہے، جن میں دفعہ153-اے (مذہب، نسل وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینا) اور 505 (عوامی طور پر شرارتی بیان) شامل ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ میڈیا کی خبروں کو لےکر‘فیصلہ سنانے کا کام’پولیس کا نہیں ہے۔

دی وائر نے اپنی عرضی  میں سپریم کورٹ کے اس حالیہ آرڈر کا حوالہ دیا تھا، جو آندھر اپردیش واقع  دو میڈیا پلیٹ فارم کی عرضی  پر جاری کیا گیا تھا۔ عدلیہ  نے کہا تھا کہ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے تناظر میں آئی پی سی کی دفعہ124اے، 153اے اور 505 کے دائرے پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔

دی وائر نے کہا کہ وہ مجرمانہ پروسس اور آئی پی سی کی دفعہ153, 153اے، 153بی، 295اے اور 505 کے غلط استعمال  کی شکارہے۔ خود عدلیہ  نے نیوز میڈیا کےتناظر میں ان دفعات کی تشریح  کرنے پررضامندی دی  ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)