خبریں

اتر پردیش ’لو جہاد قانون‘ کے تحت ’پہلی سزا ہونے والی خبریں‘ فرضی ہیں

فیکٹ چیک:  کانپور کی ایک مقامی عدالت کی جانب سے ریپ کے ایک معاملے میں سنائے گئے حالیہ فیصلے کو میڈیا میں’لو جہاد’قانون کے تحت پہلی سزا کے طور پر نشر کیا جا رہا ہے، جو ایک غلط  دعویٰ ہے۔ یہ معاملہ سال 2017 کا ہے جبکہ یہ قانون 2020 میں نافذ ہوا تھا۔

(تصویر: شٹر اسٹاک)

(تصویر: شٹر اسٹاک)

نئی دہلی: 20 دسمبر کواتر پردیش کے کانپورکی ایک مقامی عدالت نے ایک فیصلہ سنایا، جس میں انہوں نے ایک شخص کو ایک17سالہ لڑکی کے ریپ کا مجرم قرار دیا اور اسے دس سال قید اور 30000 روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

حالاں کہ، کچھ میڈیا اداروں نے اس معاملے کو اترپردیش تبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قانون،جس کو عام طور پر ‘لو جہاد’ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے کے تحت پہلی سزا کے طور پر رپورٹ کیا ہے۔

لائیو لاء کے مطابق، کئی میڈیا پورٹل اس فیصلے کی غلط رپورٹنگ کر رہے ہیں کیونکہ ریپ کے مجرم جاوید عرف منا پر یوپی لو جہاد ایکٹ کے تحت الزام بھی نہیں لگایا گیا تھا۔ غور طلب ہے کہ ‘لو جہاد’ قانون پہلی بار سال 2020 میں نافذ کیا گیا تھا۔ جبکہ یہ معاملہ سال 2017 سے متعلق ہے۔

دراصل تعزیری قوانین ماضی میں نافذ نہیں ہو سکتے۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 20(1)بالخصوص اس طریقے سے فوجداری قوانین کے نفاذ پر روک لگاتا ہے۔

اس لیے سال 2020میں آئےیوپی لو جہاد قانون کو سال 2017 میں ہوئے جرم پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے اس حوالے سے ایسی تمام میڈیا رپورٹ فرضی ہیں، جن میں اس کو لو جہاد ایکٹ کے تحت پہلی سزا بتایا گیا ہے۔

سی این این نیوز نے بھی اس کی  غلط رپورٹنگ کی ہے۔ اس کے علاوہ نیوز18انڈیا نے اپنے ‘ڈنکے کی چوٹ’پروگرام میں اسی موضوع پر چرچہ کی تھی، جس میں اینکر امن چوپڑہ نے غلط دعویٰ کیا تھا کہ یوپی کے لو جہاد ایکٹ کے تحت سزا پانے والے پہلے شخص جاویدہیں۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے بہت سے صارفین بھی اسی دعوے کے ساتھ ٹوئٹ کر رہے ہیں۔

جاوید عرف منا کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 363، 366اے،376، پاکسو ایکٹ کی دفعہ 3/4 اورایس سی ایس ٹی ایکٹ، 1989 کی دفعہ 3(2)(v) کے تحت چارج شیٹ داخل کی گئی تھی۔

یہ واقعہ2017 کا ہے، جس میں متاثرہ لڑکی کے والد نے جاوید عرف منا کے خلاف بہلاپھسلا کران کی  بیٹی کو لے جانے کی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ پولیس نے ایف آئی آر کی بنیاد پر تفتیش شروع کی اور دو دن بعد متاثرہ کا سراغ لگایا تھا۔

Rape

عدالت کے سامنے اپنے بیان میں، جو پورے معاملے کا اہم حصہ ہے، لڑکی نے کہا کہ مجرم جاوید اس کے دوست کا بھائی تھا اور وہ اسے اچھی طرح سے جانتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 15 مئی2017 کو مجرم نے ان سے ساتھ میں چلنے کو کہا تھا ،انہوں نےشروع  میں انکار کر دیا تھا۔حالاں کہ ، بعد میں وہ چلی گئی کیونکہ وہ اس کے دوست کا بھائی تھا۔مجرم نے انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے اور انہیں خوش رکھے گا۔

لڑکی نے پھر دعویٰ کیا کہ منا نے اسی دن  گھر واپس لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔ حالاں کہ وہ  انہیں واپس نہیں لے گیااور ایک  جنگل میں لے جا کر ریپ کیا اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اس نے واقعہ کے بارے میں کسی کو بتایا تو وہ ان کے چہرےپر تیزاب پھینک دے گا اور ان کے والدین کو بھی مار ڈالے گا۔

اپنے پولیس بیان میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ جاوید اور اس کے درمیان جسمانی تعلقات رضامندی سے بنائے گئے تھے۔ حالاں کہ، بعد میں اس نے مجسٹریٹ کے سامنے 164 سی آر پی سی کے تحت بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ بیان ڈرکی وجہ سے دیا تھا اور حقیقت میں جاوید نے اس کے ساتھ ریپ  کیا تھا۔

خاص بات یہ ہے کہ نہ تو ایف آئی آر میں اور نہ ہی والدین کے بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ لڑکی کو شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے کو مجبور کیا گیا تھا۔

اس معاملے کی رپورٹنگ کرنے والے زیادہ تر میڈیا پورٹل نے دعویٰ کیا ہے کہ مجرم نے منّا نامی ایک ہندو کے طور پر خود کو پیش کیاتھا۔ حالاں کہ، یہ معاملہ نہیں ہے.

عدالت کے فیصلے میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جاوید پر یوپی کے ‘لو جہاد’ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)