خصوصی رپورٹ: جنوری کے اوائل تک راجستھان، جھارکھنڈ اور آندھرا پردیش میں کووڈ-19 سے ہوئی اضافی موت حکومت کی گنتی سے 12 گنا زیادہ تھی۔ قابل ذکر ہے کہ غیر مرتب ریکارڈ اور لال فیتہ شاہی کی وجہ سے ہزاروں خاندان معاوضے سے محروم ہو سکتے ہیں۔
نئی دہلی: گزشتہ سال، جس وقت کورونا وائرس نے حقیقت سے کہیں زیادہ مہلک شکل اختیار کر لی تھی– اورجس کی وجہ سے ہندوستان میں کووڈ19-کی دوسری شدید لہر آئی تھی– اسی وقت شرون سنگھ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے گھر آگئے تھے۔
سنگھ نے محسوس کیاتھاکہ تمل ناڈو کے مقابلے، جہاں وہ کام کرتے تھے، راجستھان کے سیکر میں ان کے کورونا سے تحفظ کے امکانات کہیں زیادہ ہیں ۔
اپنے گاؤں پہنچنے کے ڈیڑھ ماہ بعد 14 مئی کوان میں کووڈ-19 کی علامات ظاہر ہوئیں۔ اہل خانہ نے انہیں سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے سیکر کے سرکاری اسپتال میں داخل کرایا۔ 16 مئی کو ان کی کووڈ رپورٹ مثبت آئی اور اگلے ہی دن ان کی موت ہوگئی ۔
ان کے بھائی جیتو سنگھ نے دی رپورٹرز کلیکٹو سے بات کرتے ہوئے کہا، یہ سب اچانک ہوا۔
لیکن شرون کی گنتی کووڈ سے ہونے والی سرکاری موت میں نہیں کی گئی، جبکہ ان کی موت ایک سرکاری اسپتال میں اسی انفیکشن کی وجہ سے ہوئی تھی۔
جیتو نے کہا، میرے بھائی کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر موت کی وجہ درج نہیں تھی۔ ہمیں ہسپتال سے ایسا کوئی کاغذ نہیں دیا گیا،جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کی موت کووِڈ سے ہوئی ہے۔
کووڈ کی مثبت رپورٹ آنے کے باوجود کووڈ-19 کو ان کی موت کا سبب نہیں ماناگیا، اس لیے ان کی اہلیہ رینا راٹھوڑ کووڈ-19 سے وفات پانے والوں کی بیواؤں کے لیےریاستی حکومت کی طرف سےاعلان کیے گئے ایک لاکھ روپے کے معاوضے کی مستحق نہیں ہیں۔
اس اسکیم کا اعلان جون 2021 میں کیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ کی ‘کورونا سہایتا یوجنا’ کے لیےموصولہ درخواستوں کو چھانٹنے کا کام گرام پنچایت کرتی ہے۔گرام پنچایت کی جانب سے اہل خانہ کو بتایا گیا کہ پرائمری ہیلتھ سینٹر میں شرون کے کووڈ-19 سے متاثر ہونے کے سلسلے میں کوئی ریکارڈنہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے کووڈ-19 سے مرنے والوں کے اہل خانہ کو 50000 روپے کا معاوضہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ راٹھوڑ کو یہ معاوضہ مل سکتا تھا۔ کیوں کہ اس کے لیے مستحق لوگوں میں وہ تمام افراد شامل تھے، جن کی موت جانچ میں کووڈ مثبت آنے یا کلینکل طور پر کورونا وائرس کی تصدیق ہو نے کے 30 دنوں کے اندر ہو ئی تھی۔
اگرچہ ریاستی حکومت نے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے ہر ضلع میں شکایات کے ازالے کے لیے کمیٹیاں قائم کی ہیں، لیکن سنگھ کے اہل خانہ کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
دی رپورٹرز کلیکٹو کے ذریعے ملک بھر کے اضلاع سے جمع کیے گئے موت کے اندراج کے اعداد و شمار سے یہ جانکاری ملتی ہےکہ سنگھ اس معاملے میں اکیلے نہیں ہیں۔ وہ ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہیں، جن کی موت کووڈ سے ہونے والی موتوں کے سرکاری اعدادوشمار میں شمار نہیں کی گئی۔
موت کی تعداد کو چھپانے کا مقصدممکنہ طور پروبائی امراض کی بدانتظامی کےالزامات سے بچنا رہاہو۔ حالاں کہ سپریم کورٹ کے دباؤ میں کووڈ سے ہونے والی موت کی سرکاری تعریف میں تبدیلی ہوسکتی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ہزاروں معاملےمیں کووڈ موت کےسرکاری ریکارڈ یا ضروری دستاویز کی عدم موجودگی یا افسر شاہی کے مکڑ جال کی وجہ سے معاوضے کا دعویٰ خارج ہو سکتا ہے۔
دی رپورٹرز کلیکٹو نے سرکاری اعداد و شمار کے علاوہ موت کی گنتی کے لیے راجستھان، جھارکھنڈ اور آندھرا پردیش کا انتخاب کیا۔ اس کے تحت رپورٹ نہ کی گئی موتوں کی تعداد کا پتہ لگانے کےلیے وبا کے دوران ہونے والی تمام اموات کا موازنہ عام طور پر سال میں ہونے والی اموات سے کیا گیا۔
حالاں کہ، معمول سے زیادہ موت کی وجہ کورونا کو قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سی موت کی ایک وجہ کووڈ 19 بھی ہو سکتی ہے۔
تین ریاستوں میں مارچ 2020 سے جون 2021 کے بیچ 2019 کے انہی مہینوں کے مقابلے 359496 اضافی موت ریکارڈ کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی 13 فیصد آبادی میں ہوئی (سرکاری طور پر)اضافی موت تقریباً آئس لینڈ کی آبادی کے برابر تھی-جبکہ مرکزی حکومت کے حساب سے 4 جنوری تک (صرف) 482107 موت ہوئی ہیں۔
جنوری تک ان صوبوں میں کووڈ-19 سے ہوئی موت کاسرکاری اعدادوشمار 28609 تھا۔ ہمارے جائزے کے مطابق صرف ان کے اہل خانہ کو کل 140 کروڑ روپے کا معاوضہ ملنا چاہیے۔ اگر ہم تمام اضافی موت کو حقیقت میں کووڈ سے ہونے والی موت سمجھیں تو یہ رقم کئی گنا ہو جائے گی۔
اضافی اعدادوشمار
اگست 2021 میں دی رپورٹرز کلیکٹو نے گجرات کی 68 میونسپلٹی میں رجسٹرڈ موت کا تجزیہ ‘وال آف گریف‘ پروجیکٹ کے تحت کیا، جس کا مقصد وبائی امراض کے دوران ہونے والی موت کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا اور ان کو پھیلانا ہے۔
صحت عامہ کے ماہرین کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر تیار کردہ کلیکٹو کے اندازےکےمطابق گجرات میں مئی 2021 کے پہلے ہفتے تک وبا کے دوران 2.81 لاکھ اضافی موتیں ہوئیں۔
اس اعداد و شمار کی بنیاد پر ہارورڈ یونیورسٹی کےمحققین کی ایک تحقیق نے 54 میونسپلٹی،جن میں گجرات کی کل 5 فیصدآبادی رہتی ہے، میں 16000اضافی موت کا اندازہ لگایا۔
دوسری طرف،ریاستی حکومت کے سرکاری اعداد و شمار میں اس مدت میں پورے صوبے میں کووڈ-19 سے صرف 10075 موت کو درج کیا گیاتھا۔
اس کے بعد دی رپورٹرز کلیکٹو اور 101 رپورٹرز نے ملک بھر کے 576 ضلعی حکام کے پاس آر ٹی آئی درخواستیں دائر کیں، جن میں اضلاع، میونسپلٹی اور میونسپل کارپوریشن میں ماہانہ اموات کے اعداد و شمار کا مطالبہ کیا گیا۔
چھ ماہ بعد صرف 71 اضلاع کا ہی جواب مل سکا ہے، اور ان کے جوابات اکثر ناقص تھے – ماہانہ اموات کے بجائے، انہوں نے سالانہ اعداد و شمار دیےتھے اور یہ بھی واضح نہیں تھا کہ یہ اعداد و شمار پورے ضلع کا تھایا شہری/دیہی علاقےکا- جس کے باعث موازنہ کے لیےان کا استعمال کرنا غیرممکن تھا۔ صرف 42 اضلاع کے فراہم کردہ ریکارڈ تجزیہ کے لیے کارآمد ثابت ہوئے۔
ان 42 اضلاع کے اعداد وشمار میں کلیکٹو نے آندھرا پردیش، راجستھان اور جھارکھنڈ کے 20 اضلاع سے اموات کے اعداد و شمار کا تجزیہ ریاستی لحاظ سے اضافی موتوں کا اندازہ لگانے کے لیے کیا۔ ریاستوں کا الگ الگ تجزیہ کیا گیا،کیونکہ ان کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ تھی اور یہ ہر ریاست کی آبادی کے 6 سے 40 فیصدآبادی کی نمائندگی کررہی تھی۔
اعداد و شمار کیاکہتےہیں
مارچ 2020 سے جون 2021 تک ان 20 اضلاع میں اضافی اموات کی کل تعداد 2019 کے انہی مہینوں کے مقابلے 55042 تھی۔ یہ ریاستی حکومت کی طرف سے دیے گئے ان اضلاع میں کووڈ سے ہونے والی اموات کےسرکاری اعداد و شمار سے چھ گنا زیادہ ہے۔
ایسے معاملوں میں، جن میں کسی ضلع کےحصوں کے لیے ڈیٹا دستیاب تھا،ان میں بھی ہم نے ان علاقوں میں 4 جنوری تک ہونے والی اضافی اموات کا موازنہ پورے ضلع میں کووِڈ-19 اموات کی تعداد سے کیا۔ ہم نے 2011 کی مردم شماری کے ڈیٹا کابھی استعمال کیا تاکہ اس ڈیٹا کو پوری ریاست میں ایکسٹرا پولیٹ کیا جا سکے۔
آئیے اس کو سمجھتے ہیں۔
راجستھان میں 7 فیصد سے کم آبادی میں 10438 اضافی موتیں تھیں- جبکہ حکومت کے مطابق پورے صوبےمیں کووڈ سے ہونے والی اموات کی تعداد صرف 8964 ہے۔6.4 فیصد آبادی یعنی چار اضلاع اور ایک میونسپلٹی-پراضافی اموات کوپوری ریاست پر ایکسٹراپولیٹ کرنے پر راجستھان میں اضافی اموات کی کل تعداد 162039نکلتی ہے۔ یہ ریاست کی کووڈ-19 سے ہونے والی اموات کے سرکاری اعداد و شمار کا تقریباً 18 گنا ہے۔
جنوری کے آغاز تک کے سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے ہی دیکھیں تو فی خاندان کے حساب سے 50000 کی شرح سے کووڈ سے وفات پانے والوں کے اہل خانہ کو 44.82 کروڑ روپے معاوضہ کے طور پرادا کرنے ہوں گے۔
لا سینٹر فار لیگل پالیسی میں فیلو اور ہیلتھ لا اینڈ پالیسی کی محقق شریا سریواستو کہتی ہیں،ضلعی سطح پر شکایات کے ازالے کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل ایک صحیح سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں اضافی اموات کا مطلب یہ ہے کہ کووڈ-19 سے ہونے والی اموات کے سرٹیفکیٹ کے لیے ان کمیٹیوں کے پاس آنے والی درخواستوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی…ان کی شکایتوں کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کمیٹیاں لوگوں کی رسائی میں ہو اور شفاف ہوں۔
اس کے علاوہ مرکزی حکومت کے رہنما خطوط (گائیڈلائن)کے مطابق، کووڈ-19 سرٹیفکیٹ کے لیےمتاثرہ خاندان کو جانچ کی رپورٹ پیش کرنی ہوگی یا کلینکل طریقے سے کووڈ کی تصدیق کرنے والا کوئی میڈیکل ریکارڈ دکھانا ہوگا، جس سے یہ پتہ چلنا چاہیے کہ اس شخص کی موت ٹیسٹ رپورٹ/طبی معائنہ کے 30 دنوں کے اندر ہوئی تھی۔
سریواستو کا یہ بھی کہنا ہے کہ،لیکن جس وقت یہ وبا اپنے عروج پر تھی، اس وقت دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں بہت سے مرنے والوں کو نہ تو جانچ کی سہولت میسر تھی اور نہ ہی انہیں اسپتال مل سکا، اسی طرح بہت سے اسپتالوں نے ڈھنگ سےریکارڈ بھی نہیں رکھے۔ ایسے میں یہ واضح نہیں ہے کہ ایسےلوگوں کے اہل خانہ کس طرح سےمعاوضے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
اور اس کے بعد وبا کے دوران ایسی اموات بھی ہوئیں جس کی وجہ راست طور پروائرس نہیں تھی۔ مثال کے طور پر، جب گزشتہ سال کووڈ کےمعاملوں میں تیزی سےاضافہ ہونا شروع ہوا تب مریضوں سے بھرے ہسپتالوں کو دیگر سنگین بیماریوں والے بہت سےمریضوں کو داخل کرنے سے انکار کرنا پڑا، جن میں سے کچھ کی موت گھر میں ہی ہو گئی۔ حکومت کے پاس ان اموات کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول میں ایمرجنسی میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ستچیت بلساری کہتے ہیں،ایک طریقہ یہ ہے کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ میں ایک الگ زمرہ بنایا جائے، جس کے تحت اگر موت کی وجہ براہ راست کووِڈ-19 انفیکشن نہیں ہے، تو بھی اس موت کے لیے مہاماری کو وجہ مانا جاسکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں، وبا میں ہونے والی ہر موت کو شمار کیا جانا چاہیے، لیکن معاوضہ دینا چونکہ ہر حکومت کے لیےایک اقتصادی سوال ہے، اس لیے پالیسی سازوں کو اس بارے میں سوچنا پڑے گا۔ایک سماج کے طور پرہمیں اس بات پر اتفاق رائے ہونا چاہیے کہ وبائی امراض کی وجہ سے ہونے والی بالواسطہ اموات کو کیسے شمار کیا جائے اور کس مقصد کے لیےکیا جائے۔
آندھرا پردیش میں موت کے اندراج کے اعداد و شمار وبا کے دوران— جون 2021 تک، اس کی تقریباً 19 فیصدآبادی میں 33099 اضافی موتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ جنوری کے اوائل تک ریاست کے سرکاری طور پرکووڈ سے مرنے والوں کی تعداد 14449 سے زیادہ ہے - جس کا ہی معاوضہ 72.49 کروڑ روپے بنتا ہے۔
یہ اعداد و شمار چار اضلاع؛ کرنول، نیلور، سریکاکولم اور وشاکھاپٹنم کی شہری آبادی اور کڈپا اور وجیا نگرم کی پوری آبادی سے متعلق ہے۔ اس اعداد و شمار کو پورے آندھرا پردیش میں پھیلائیں تو ریاست میں اضافی اموات کی تعداد 168408 بنتی ہے، جو ریاستی حکومت کے سرکاری اعدادوشمار سے 11 گنا زیادہ ہے۔
یہی حساب جھارکھنڈ کے آٹھ اضلاع اور ایک ضلع کی شہری آبادی، جو کہ کل ملا کرریاست کی آبادی کا 39 فیصد ہے، پر کرنے پر ریاست میں اضافی اموات کی کل تعداد 29049 ہو جاتی ہے، جو کہ 4 جنوری 2022 تک ریاست کی کووڈ اموات کے سرکاری اعداد و شمار 5147 کا پانچ گنا ہے۔ اس اعداد و شمار کے حساب سے قابل ادائیگی معاوضہ 25.73 کروڑ روپے ہوتا ہے۔
معاوضے کی پہیلی
حکومتوں کی طرف سے کووڈ سے ہونے والی اموات کو دبانے یا چھپانے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں: ایک، اپنی شبیہ کو بچانا اور دو، معاوضے کا اقتصادی بوجھ۔
ابتدا میں حکومت ہند نے مالی مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے معاوضے کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ جون 2021 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد،نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)جس کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں ،کو معاوضے کی ادائیگی کے لیےحکومت کو ہدایات جاری کرنی پڑیں۔
ستمبر 2021 میں این ڈی ایم اے کے گائیڈلائن کے مطابق، کووڈ 19 سے مرنے والوں کے خاندانوں کواسٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ سے، جسے کل رقم کا کم از کم 75 فیصد مرکزی حکومت سے ملتا ہے، 50000 روپے ملنے ہیں۔
معاوضے کی یہ رقم خاندان کے طبی اخراجات اور خاندان کے کسی فرد کی موت سے ہونے والے نقصان کے مقابلے بھلے کم ہو، لیکن 4 جنوری 2022 تک کووِڈ سے ہونے والی موت کے سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے دی جانے والی معاوضے کی رقم کم از کم 2410.08 کروڑ ہوگی ۔ اور اگر اس میں اضافی موت کو بھی شامل کیا جائے تو یہ کہیں زیادہ ہوجائے گی۔
اس گائیڈلائن میں مرکزی وزارت صحت اور انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی وہ شرائط شامل ہیں، جنہیں کووڈ-19 سے ہوئی موتوں کو پورا کرنا ہوگا۔
اس کے تحت شرط یہ ہے کہ پی سی آر ٹیسٹ یا مالیکیولر ٹیسٹ یا ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ میں کووڈ پازیٹو آنے کےتیس دنوں کے اندر اس شخص کی موت ہو جانی چاہیے۔ اس کے متبادل کے طور پر پازیٹو ٹیسٹ نتیجہ نہ آنے کی صورت میں اس شخص کو کووڈ-19 ہونے کی طبی طور پر تصدیق کی جانی چاہیے۔ یہاں بھی'کووڈ-19 موت' میں گنتی کے لیے اس تصدیق کے 30 دن کے اندر موت کی شرط ہے۔
اگر کوئی شخص ہسپتال یا ان پیشنٹ فیسلٹی میں ٹیسٹ میں مثبت آنے کے 30 دن بعد بھی فوت ہو جاتا ہے، تب بھی اسے کووڈ کی موت میں شامل کیا جا سکتا ہے، اگر بھرتی کرانے سے لے کر موت تک اس کا علاج اسی جگہ پر ہوا ہو۔
اورسب سے آخری بات، ایسے معاملات میں جن کے لیے موت کی وجہ کا میڈیکل سرٹیفکیٹ دستیاب ہے، انہیں کووڈ موت مانا جائے گا۔
اس گائیڈ لائن میں شکایات کے ازالے کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل کے بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔تکنیکی طور پر ان کمیٹیوں کو 'کووڈ-19 ڈیتھ انویسٹی گیشن کمیٹی' بھی کہا جا سکتا ہے۔
انہیں ایسے معاملوں کو دیکھنا ہوگا، جن میں معاوضہ کے خواہاں افراد کو موت کی وجہ بتانے والا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا ہے یا جو موت کی بتائی گئی وجہ سے مطمئن نہیں ہیں۔
اگرچہ وبائی امراض سے متعلق بہت سی اموات کااس عمل میں چھوٹ جاناطے ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقی نتیجہ-یہاں تک کہ قابل معاوضہ اموات کے لیےبھی - ریاستی اور ضلعی سطحوں پر اپنائے جانے والے طریقہ کار کی میرٹ پر منحصر کرے گا۔
سوشل اکاؤنٹیبلٹی فورم فار ایکشن اینڈ ریسرچ میں نیشنل ریسورس پرسن خوش وچھارجانی نے معاوضے کی تقسیم کے لیے ریاستی حکومتوں کی طرف سے جاری کردہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار کا مطالعہ کیا۔
انہوں نے پایا کہ حکام نے گائیڈلائن کی وسیع تشہیر نہیں کی ہے اور آف لائن اور آن لائن، دونوں ہی صورتوں میں درخواست دینے کا طریقہ کار واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو معاوضے کے دعوے کےطریقہ کارکے بارے میں جانکاری نہیں مل رہی ہیں۔
وچھارجانی کہتے ہیں،جن کے پاس کووڈ-19 کا موت کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے، انہیں کیا کرنا ہے، اس کے بارے میں ریاستی حکومت کے رہنما خطوط کوئی واضح جانکاری نہیں دیتے ۔
وہ مزید کہتے ہیں،جن کی کووڈ 19 سے موت سرکاری طور پر ریکارڈ کی گئی ہے، حکومت کو ان کے اہل خانہ سے رابطہ کرنا چاہیے۔ درخواست دینے کےعمل سے گزرنے کی مجبوری صرف ان لوگوں کے لیے ہونی چاہیے، جن کے پاس کووڈ-19 سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے پاس درخواستیں جمع کرانے کے مزید طریقے ہونے چاہیے۔ اس سے لوگ زیادہ آسانی سے اس اسکیم کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ان کی باتیں زمینی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آندھرا پردیش کے مشرقی گوداوری ضلع کے میڈیکل اورہلیتھ افسر پالیویلا سری نواس راؤ نے جنوری میں کلیکٹو کو بتایا کہ ان کے ضلع میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت معاوضے کے لیے تقریباً 6000 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
ضلع میں کووڈ سے سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 1290 ہے، جس کا مطلب ہے کہ درخواستوں کی تعداد سرکاری اموات سے چار گنا زیادہ ہے۔
راؤ نے کہا، ان میں سے تقریباً 1000 لوگوں کو معاوضہ مل گیا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ معاوضے سے محروم وہ لوگ ہیں،جو کووڈ پازیٹو آنے کے 30 دن بعد فوت ہو گئے یا جن کا پازیٹوریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ رپورٹ کسی پرائیویٹ ہسپتال یا لیب کا ہے۔
(وزارت صحت اور آئی سی ایم آر کے گائیڈلائن کے مطابق ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ کے مثبت نتائج قابل غور ہیں۔)
گزشتہ 19 جنوری 2022 کو سپریم کورٹ نے ریاستی حکومتوں کو معاوضہ دینے میں سست روی کے لیے سخت سرزنش کی۔ عدالت میں جمع کرائی گئی ایک جانکاری کے مطابق 13 ریاستوں میں 5.67 لاکھ دعووں میں سے صرف 3.42 لاکھ دعویداروں کو ہی معاوضہ دیا گیا ہے۔
اس طرح 16 دسمبر 2021 تک، راجستھان نے صرف 8577 لوگوں کو معاوضے کی منظوری دی ہے جبکہ جھارکھنڈ کے لیے یہ تعداد صفر ہے۔
سپریم کورٹ نے معاوضے کے لیے ان کے پاس آئے درخواستوں کی تعداد نہ بتانے کے لیے راجستھان حکومت کی سرزنش کی اور کووڈ 19 موت کے ریاستی حکومت کےاعداد و شمار کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔
صحت اور پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوودڈ 19 اموات کے مرتب دستاویزکے فقدان اور حکومتوں کی طرف سے اپنائے گئے معاوضے کے مختلف طریقوں نے اس عمل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایسے میں مرنے والوں کے لواحقین کو منصفانہ طریقے سے معاوضہ دینے کا کام متاثر ہوتا ہے۔
سریواستو کہتے ہیں،ہندوستان میں صحت عامہ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس قانونی ڈھانچہ نہیں ہے۔ موجودہ وبائی ایکٹ کا تعلق لوگوں کے حقوق سے زیادہ پولیسنگ سے ہے۔ ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ بھی کووڈ 19 جیسی عالمی وبائی بیماری کا تصور نہیں کرتی ہے۔
تجزیہ کے طریقہ کار کےبارے میں نوٹ:
چھوٹی آبادی کے لیے اضافی اموات کو ریاست بھر میں پھیلانے کے طریقہ کار پر صحت عامہ کے ماہر یوگیش جین کہتے ہیں:
اس طرح کے پروجیکشن سے نکلنے والی تعداد اصل سے کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، لیکن 6-9 فیصدآبادی کاایک اچھا نمونہ ہے اور وبائی اموات کے پیمانے کو سمجھنے کے لیےاسے پورے صوبے میں پروجیکٹ کرنا غلط نہیں ہوگا۔
جن ریاستوں کے ڈیٹا کا کلیکٹو نے تجزیہ کیا، ان میں کئی بڑے میونسپل کارپوریشن اور زیادہ کووڈ اموات والی گنجان آبادی والے علاقے (مثلاً جئےپور اور الور)کو شامل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ہمارا اندازہ اصل سے کم رہےگا۔
آندھرا پردیش کے اعداد و شمار میں دیہی آبادی کو شامل نہیں کیا گیا، جن میں زیادہ معاملے ہوں گے، لیکن موتوں کارجسٹریشن اور ان کی رپورٹنگ کم ہوئی ہوگی۔
(اس رپورٹ کو لکھنے والے رپورٹرز کلیکٹو کے ممبر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر