خبریں

ٹیرر فنڈنگ: عدالت نے کشمیری فوٹو جرنلسٹ کو بری کرتے ہوئے کہا – ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں

این آئی اے نے 2017 میں ٹیرر فنڈنگ کا یہ معاملہ درج کرکے کشمیر کے 17 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔ عدالت نے کشمیری صحافی کامران یوسف، وینڈر جاوید احمد اور علیحدگی پسند رہنما آسیہ اندرابی کو بری کر دیا ہے۔ باقی 14 ملزمان کے خلاف آئی پی سی اور یو اے پی اے کے تحت الزامات طے کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

جموں و کشمیر کے فوٹو جرنسلٹ کامران یوسف۔  (فوٹو بشکریہ : فیس بک)

جموں و کشمیر کے فوٹو جرنسلٹ کامران یوسف۔  (فوٹو بشکریہ : فیس بک)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے 16 مارچ کو اپنےفیصلے میں کشمیری فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف، وینڈر جاوید احمد اور علیحدگی پسند رہنما آسیہ اندرابی کو ٹیرر فنڈنگ کیس میں بری کر دیا۔ انہیں 2017 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ٹیرر فنڈنگ کیس میں ملزم بنایا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، عدالت نے کہا کہ ان کے خلاف خاطرخواہ ثبوت نہیں تھے۔

اس کیس میں 17 ملزمین تھے جن میں لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید، حزب المجاہدین (ایچ ایم) کے سربراہ سید صلاح الدین، جے کے ایل ایف کے سابق سربراہ یاسین ملک، شبیر شاہ، مرحوم سید علی شاہ گیلانی کے داماد الطاف احمد شاہ، ظہور احمد شاہ وتالی اور فاروق احمد ڈار شامل تھے۔

تاہم، عدالت نے باقی 14 کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات  اور یو اے پی اےکے تحت الزامات عائد کرنے کا حکم دیا۔

این آئی اے نے الزام لگایا تھا کہ یوسف اور بھٹ پتھراؤ کے کئی واقعات میں ملوث تھے اور ان کے کچھ دہشت گرد تنظیموں کے زمینی کارکنوں سے تعلقات تھے۔ حالاں کہ، خصوصی جج پروین سنگھ نے اپنے 16 مارچ کے حکم میں کہا  کہ یہ شک پیدا کرنے کے لیے کافی ثبوت نہیں ہیں کہ دونوں ملزمین کسی بڑی سازش کا حصہ تھے۔

عدالت نے کہا کہ،  عدالت کے سامنے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ علیحدگی پسند ایجنڈے کو پھیلانے کی سازش کا حصہ تھے۔

بتادیں کہ دونوں ملزمین 2018 سے ضمانت پر باہر ہیں۔

این آئی اے نے 2017 میں مقدمہ درج کیا تھا اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے تمام 17 ملزمان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ دہشت گرد تنظیموں جیسے کہ لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کے ساتھ ملی بھگت کر کے عام لوگوں کو تشدد کے لیے اکسانے کی سازش کر رہے تھے، تاکہ وہ اپنے علیحدگی پسند ایجنڈے کو پھیلا سکیں۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق، این آئی اے نے الزام لگایا کہ پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیمیں ملزمان کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہروں کو فنڈ دینے کے لیے غیر قانونی چینلوں کے ذریعے مقامی طور پر اور بیرون ملک سے فنڈز اکٹھے کر رہے تھے۔

یوسف اور بھٹ کے خلاف الزامات لگاتے ہوئے این آئی اے نے اننت ناگ کے ڈی آئی جی کی رپورٹ سمیت مختلف دستاویزات پر انحصار کیا تھا، جس میں یوسف کی شناخت ‘پلوامہ ریبیلس’ نامی ایک وہاٹس ایپ گروپ کے ممبر کے طور پر کی گئی تھی اور ایک اور دستاویزکے مطابق یوسف نے فریڈم کمنگ سون کے کیپشن کے ساتھ دہشت گردوں کی تصاویر پوسٹ کی تھیں۔

ایک اور دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوسف عادل نامی شخص کے رابطے میں تھا جو دہشت گرد تنظیموں کا سرگرم رکن تھا اور بھٹ حزب المجاہدین کا سرگرم رکن تھا۔

تاہم عدالت نے کہا کہ یہ صرف بے بنیاد اندازے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچنے کی کوئی بنیاد ریکارڈ پر نہیں رکھی گئی ہے۔ لہٰذا یہ صرف ثبوت کی عدم موجودگی میں بے بنیاد اندازے ہیں۔

ساتھ ہی، اس معاملے میں دو گواہوں کے بیانات سننے کے بعد عدالت نے کہا کہ دونوں کے بیانات لفظ بہ لفظ  ایک جیسے تھے اور روٹین طریقے سے دیے گئے تھے۔

تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ملزمان نمبر 11 اور 12 کے خلاف شواہد بہت کمزور تھے اور ان کے واقعات میں ملوث ہونے کے بارے میں صرف ایک ہلکا سا شک پیدا کرتے تھے، سنگین شک نہیں۔