خبریں

حجاب کے معاملے پر مس یونیورس ہرناز سندھو نے کہا – لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

مس یونیورس ہرناز سندھو نے ایک تقریب میں حجاب سمیت مختلف ایشوز پر لڑکیوں کو نشانہ بنانا بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو ان کی مرضی سے جینے دیجیے، انہیں ان کی منزل تک پہنچنے دیجیے، انہیں اڑنے دیجیے۔ ان کے پر مت کاٹیے۔

ہرناز سندھو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Facebook/@officialmissdiva)

ہرناز سندھو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Facebook/@officialmissdiva)

نئی دہلی: مس یونیورس 2021  ہرناز سندھو نے معاشرے سے اپیل کی ہے کہ وہ حجاب سمیت مختلف معاملوں پر لڑکیوں کو نشانہ بنانا بند کرے۔ سندھو نے کہا، وہ جیسا چاہتی ہیں انہیں جینے دیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ایک کلپ میں ایک صحافی نے سندھو سے حجاب کے معاملے پر ان کے خیالات پوچھے تھے۔ یہ ویڈیو 17 مارچ کو مس یونیورس 2021 کی وطن واپسی کے اعزاز میں منعقد تقریب کا ہے۔

اس سے پہلے کہ سندھو سوال کا جواب دیتیں،آرگنائزر نے مداخلت کی اور صحافی سے کہا کہ وہ کوئی بھی سیاسی سوال پوچھنے سے گریز کریں۔ آرگنائزر نے میڈیا کو سندھو کے سفر، کامیابی اور لوگوں کےلیےتحریک بننے کے بارے میں سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔

صحافی نے جواب دیا، ہرناز کو بھی یہی بات کہنے دیجیے۔

اس کے بعد سندھو نے سماج میں لڑکیوں کو نشانہ بنائے جانے پر ناراضگی ظاہر کی۔

انہوں نے کہا، مجھےایمانداری سے بتائیے، آپ ہمیشہ لڑکیوں کو کیوں نشانہ بناتے ہیں؟ اب بھی آپ مجھے نشانہ بنا رہے ہو۔جیسے، حجاب کے ایشو پر لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں (لڑکیوں) ان کی مرضی سے جینے دیجیے، انہیں ان کی منزل تک پہنچنے دیجیے، انہیں اڑنے دیجیے ۔ ان کے پر مت کاٹیے۔ کاٹنے ہی  ہیں تو اپنے پر  کاٹیے۔

سندھو نے اس کے بعد صحافی سے ان کے سفر، اس میں درپیش رکاوٹوں اور اس سال کے شروع میں منعقد ہونے والے مقابلہ حسن میں ان کی کامیابی کے بارے میں سوال کرنے کو کہا۔

معلوم ہوکہ کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے حال ہی میں تعلیمی اداروں میں کلاس رومز میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کی درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسلام میں حجاب ضروری مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے اور تعلیمی اداروں میں لباس کے طے شدہ ڈریس کوڈ پر عمل کیا جانا چاہیے۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے کرناٹک کے اُڈوپی ضلع کے ایک گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا جب پچھلے سال دسمبر میں حجاب پہنے چھ لڑکیاں ایک کلاس میں داخل ہوئیں اور انہیں کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔

ان کے حجاب پہننے کے ردعمل میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف پہن کر کالج آنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔

اس تنازعہ کے درمیان ان چھ طالبات میں سے ایک نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)