خبریں

ڈی یو کے دو کالج نے اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت پر پروگرام کے دعوت نامے رد کیے: منوج جھا

آر جے ڈی کے راجیہ سبھا ممبر منوج جھا نے کہا کہ وہ پارلیامنٹ کےسیشن کے دوران بھی یونیورسٹی میں باقاعدگی سے کلاس لیتے ہیں۔ ان کی آواز ان کالجوں کے لیے کیسے خطرہ ہو سکتی ہے جب یہ پارلیامنٹ میں خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کالجوں کا نام لیے بغیر کہا کہ دعوت نامہ کو رد  کرنے کے لیے پروگرام کی نوعیت میں تبدیلی کا حوالہ دیا گیا ہے۔

منوج جھا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

منوج جھا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے راجیہ سبھا ممبر منوج جھا نے کہا کہ دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے دو کالجوں نے انہیں ‘اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت’ سے متعلق پروگراموں کے لیے دیے اپنے دعوت نامے رد کر دیے ہیں۔ کالجوں نے اس کے لیے پروگرام کی نوعیت میں ‘تبدیلی’ کا حوالہ دیا ہے۔

جھا ڈی یو میں پروفیسر بھی ہیں۔ انہوں نے دونوں کالجوں کا نام لیے بغیر دعوت نامے واپس لینے کے بارے میں ٹوئٹ کیا ہے۔

انہوں نے جمعرات کو ٹوئٹ کیا، کچھ ایسی بات شیئر کر رہا ہوں کہ جس نے مجھے اپنی ہی یونیورسٹی میں ‘جاری صورتحال’ کے بارے میں مضطرب کر دیا ہے۔ مجھے دو کالجوں نے بطور اسپیکر مدعو کیا تھا۔ تاہم ایک دن پہلے مجھے اطلاع ملی کہ پروگرام کی نوعیت بدل گئی ہے اس لیے دعوت نامہ واپس لے لیا گیا ہے۔ کوئی افسوس نہیں… بس فکر مند ہوں۔

جھا نے جمعہ کو کہا کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور وہ طلبا کے درمیان لڑائی  نہیں چاہتے چاہے وہ بائیں بازو کے ہوں، دائیں بازو کےہوں یا کسی سے وابستہ نہ ہوں۔

انہوں نے سوال کیا،میں پارلیامنٹ سیشن کے دوران بھی اپنی یونیورسٹی میں باقاعدگی سے کلاس لیتا ہوں۔ میری آواز ان کالجوں کے لیے کیسے خطرہ بن سکتی ہے جب پارلیامنٹ میں یہ خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے خیالات کے درمیان دوستانہ بات چیت کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، میر اخیال  ہے کہ ہم راستے سے بھٹک  رہے ہیں۔ خاص طور پر جمہوریت میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دوستانہ مکالمہ ہونا چاہیے کہ چاہے میں لیفٹسٹ ہوں یا رائٹسٹ۔

راجیہ سبھا ممبر نے کہا، کالجوں نے کہا ہے کہ پروگرام کی نوعیت بدل گئی ہے۔ تاہم، مجھے طلبا کی طرف سے ای میل موصول ہوئے ہیں کہ وہ (کالج) جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ آپ کو اور کچھ دیگر مقررین کو بلانانہیں  چاہتے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت سے متعلق پروگرام ہے۔

دعوت نامہ اس وقت ردکیا گیا ہے جب چند روز قبل ڈی یو کے لیڈی شری رام (ایل ایس آر) کالج نے طلبا کے ایک حصے کے احتجاج کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان گرو پرکاش پاسوان کو دیا گیا دعوت نامہ واپس لے لیا تھا۔

ایل ایس آر واقعہ کے بارے میں پوچھنے پر  انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم تیزی سے ایک ایسی جمہوریت بنتے جا رہے ہیں جو ایسے کسی بھی خیال کی طرف سے اپنی آنکھیں اور کان بند کر نے کو کہہ رہی ہے جو آپ کے خیالات مختلف ہے۔

انہوں نے کہا، ہندوستان نے ترقی کی ہے اور ہمارے کچھ پڑوسیوں کے برعکس 1947 سے 2022 تک آگیا ہے کیونکہ ہماری جمہوریت میں کھڑکیاں اور دروازے بند نہیں تھے۔ ہم خیالات کے لیے کھلے تھے۔ اب اگر 75 سال کے بعد ہم نے پچھلے 75 سالوں میں جو کچھ حاصل کیا ہے اسے واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے بھگوان میرے ملک پر رحم کرے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں حالیہ تشدد اور اس کے بعد کی پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، یہ ایک وسیع ٹرینڈ کا حصہ ہیں اور یہ ٹرینڈ جمہوریت کی گیس پائپ لائن کا گلا گھونٹ رہا ہے اور اسے مستقل طور پر بند کر رہا ہے۔

غور طلب ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک ہاسٹل میں رام نومی کے موقع پر نان ویج کھانے کو لے کر تشدد کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ہندو سینا نے یونیورسٹی کے مین گیٹ اور آس پاس کے علاقوں میں پوسٹر اوربھگو اجھنڈے لگا دیے تھے۔

جھا نے کہا، یہ تمام واقعات مختلف نہیں ہیں۔ میں اسے نظریاتی جنگ نہیں کہوں گا۔ انہوں نے ایک ٹرینڈ بنایا ہے اور یہ ٹرینڈ انڈیا کے رجحان یعنی انڈیا کے آئیڈیا سے میل نہیں کھاتا۔

جھا نے اس طرح کے واقعات کے لیےحکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی مدد کرتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سےلوگ نوکری اور مہنگائی پر سوال نہیں پوچھیں گے۔

انہوں نے کہا، حکومت بہت سکون میں ہے۔ ہم لاؤڈ سپیکر، کھانے پینے، عبادت اور پوجا کی مختلف شکلوں پر لڑ رہے ہیں، جبکہ ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی بے روزگاری سے لڑائی ہونی چاہیے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)