خبریں

ہنومان جینتی پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات، کرناٹک کے ہبلی میں دفعہ 144 نافذ

دہلی، آندھرا پردیش اور اتراکھنڈ سے ہنومان جینتی کے جلوسوں کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے متعدد واقعات سامنےآئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ کرناٹک کے ہبلی شہر میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ کو لے کر پولیس اہلکاروں، ایک ہسپتال اور ایک مندر پر حملہ کیا گیا۔ اس میں 12 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ معاملے میں تقریباً 40 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

کرناٹک کے ہبلی میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

کرناٹک کے ہبلی میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی، آندھرا پردیش اور اتراکھنڈ سے ہنومان جینتی کے جلوسوں کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس دوران بتایا جا رہا ہے کہ بھیڑ نے اتوار (17 اپریل) کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ کو لے کر کرناٹک کے ہبلی میں پولیس اہلکاروں، ایک ہسپتال اور  مندر پر حملہ کیا۔

پولیس نے بتایا کہ تشدد کے بعد ہبلی شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی  گئی ہے۔ اس معاملے میں تقریباً 40 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور کچھ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ واقعے میں 12 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

ہبلی دھارواڑ پولیس کمشنر لبھو رام نے کہا کہ کسی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کیا تھا، جس پر دوسروں نے اعتراض کیا اور پولیس میں شکایت درج کرائی۔ اس کے بعد مقدمہ درج کر کے اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کارروائی سے مطمئن نہ ہونے پر کچھ لوگ تھانے کے آس پاس جمع ہونے لگے۔ انہیں سمجھایا گیااور بعد میں وہاں سے ہٹا دیا گیا۔

افسر نے بتایا کہ کل رات ایک بار پھر بڑی تعداد میں لوگ پولیس اسٹیشن کے پاس  جمع ہونے لگے اور انہوں نے زبردست پتھراؤ کیا جس میں تقریباً ایک درجن پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔

پولیس نے بتایا کہ پولیس کی کئی گاڑیوں، ایک قریبی ہسپتال اور ایک ہنومان مندر کو نقصان پہنچایا گیا۔

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے اسے ایک ‘منظم حملہ’ قرار دیا اور کہا کہ ریاست میں اس طرح کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے لوگوں سے اس واقعہ کو سیاسی رنگ نہ دینے کی بھی اپیل کی اور کہا کہ اسے لاء اینڈ آرڈر کے نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔

کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا گیانندرا نے کہا، یہ منصوبہ بند حملہ تھا۔ ہبلی میں شرپسند دیورا جیون ہلی اور کڈوگنڈہلی جیسے واقعات کو انجام دینا چاہتے تھے۔

وزیر داخلہ بنگلورو میں 2020 میں ہوئے فسادات کا حوالہ دے رہے تھے، جہاں ہجوم نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر بنگلور میں پلکیسی نگر اسمبلی حلقہ سے کانگریس ایم ایل اے آر اکھنڈ سری نواسا مورتی اور ان کی بہن کے گھر میں آگ لگادی تھی۔

اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی نے کہا کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنا مناسب نہیں ہے۔

آندھرا پردیش کے کرنول میں ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران دو برادریوں کے درمیان تصادم

آندھرا پردیش کے کرنول ضلع کے ہولاگنڈہ گاؤں میں ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران دو برادریوں کے درمیان تصادم کے بعد پتھراؤ ہوا۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ یہ تصادم سنیچر  (16 اپریل) کی رات اس وقت ہوا جب ہنومان جینتی کے موقع پر ایک مذہبی جلوس نکالا جا رہا تھا۔ جب جلوس گاؤں کی ایک مسجد کے پاس  پہنچا تو رمضان کے پیش نظر جینتی کے منتظمین نے مائیک بند کر دیا، لیکن مبینہ طور پر کچھ عقیدت مندوں نے ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگائے۔

اس سے ناراض ہو کر ایک برادری کے لوگوں نے ہنومان جینتی کے جلوس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس نے بتایا کہ اس کے بعد جلوس میں شامل لوگوں نے بھی پتھراؤ  کیا۔

اتراکھنڈ: ہری دوار کے گاؤں میں ہنومان جینتی کے جلوس پر پتھراؤ کے بعد کشیدگی، نو گرفتار

اسی طرح اتراکھنڈ میں سنیچر کی شام ہری دوار ضلع کے روڑکی کے قریب بھگوان پور علاقے کے ایک گاؤں سے ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس پرپتھراؤ کیا گیا، جس میں چار لوگ زخمی ہوگئے۔

ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس پر پتھراؤ کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی، جس کے بعد وہاں پولیس کی بھاری تعینات کر دی گئی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ بھگوان پور علاقے کے دادا جلال پور گاؤں میں سنیچر کی شام پیش آنے والے اس واقعے کے سلسلے میں اب تک نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔

اس واقعہ کے سلسلے میں 13 افراد کے خلاف نامزد ایف آئی آر اور کئی دیگر نامعلوم افراد کے خلاف آئی پی سی کی سنگین دفعہ 153 اے ، 295اے، 147، 148، 149، 323، 506 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

واقعہ کے بعد ریاست کے اعلیٰ حکام نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا۔ ہری دوار کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس یوگیندر سنگھ راوت نے کہا کہ جلوس پر شر پسندوں نے پتھراؤ کیا جس سےحالات خراب ہوئے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پولیس نے وہاں پہنچ کر حالات کو قابو میں کیا۔ راوت نے کہا کہ علاقے میں کافی پولیس فورس تعینات ہے اور تقریباً 60 پولیس اہلکار گاؤں میں گشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں امن ہے۔

ہری دوار کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (دیہی) پرمیندر ڈوبھال نے کہا کہ دادا جلال پور گاؤں سے گزر رہے جلوس پر چھتوں سے پتھر پھینکے گئے۔ اس سے بھگدڑ جیسی صورتحال پیدا ہوگئی کیونکہ جلوس میں شامل لوگ چھپنے کے لیے بھاگنے لگے۔ تاہم پولیس کو فوری طور پر اطلاع دی گئی اور حالات کو قابو میں کر لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقے میں پولیس اور پرادیشک آرمڈ کانسٹبلری (پی اے سی) کے جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔

غورطلب ہے کہ 2 اپریل کے بعد سے 10 اپریل کو رام نومی سمیت ہندو مذہبی جلوسوں کے دوران فرقہ وارانہ تصادم کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہندو اور مسلم تنظیموں نے ایک دوسرے پر تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا ہے۔

گزشتہ 10 اپریل کو ہندوتوا تنظیم کی طرف سے رام نومی کے موقع پر نکالے گئے جلوسوں کے دوران گجرات، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔

اس کے علاوہ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے ایسے ہی ایک جلوس کے دوران دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس سلسلے میں اب تک 22 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)