فکر و نظر

مسجدوں سے نکلتے ’بھگوان‘ یا قبضے کا ’مذہبی‘ طریقہ؟

گیان واپی مسجد میں شیولنگ کے نمودار  ہوجا نے  کو جو معجزہ سمجھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ ‘بابا پرکٹ ہوئے مسجد میں’، ایسا کہنے والے مذہبی ہوں نہ ہوں، وہ تجاوزات کےمجرم لازماًہیں۔

کاشی وشوناتھ مندر اور گیان واپی مسجد کمپلیکس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

کاشی وشوناتھ مندر اور گیان واپی مسجد کمپلیکس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ہم بچپن سے  زمین یا کسی کا گھر ہتھیانے کے بہت سے حربے دیکھتے آئے  ہیں۔

ایک دفعہ ایک صاحب مشکل میں پڑ گئے۔ دراصل ان کے گھر کی دیوار میں پڑی شگاف سے پیپل کا پودا نکل آیا  تھا۔ وہ اسے ہٹا دینا چاہتے تھے تاکہ دیوار کمزور نہ ہو اور اس کی جڑیں اتنی گہرائی میں نہ چلی جائیں کہ پورے گھر کو ہی نقصان ہو جائے۔

ان کے ایک پڑوسی کو اس کی بھنک لگ گئی ۔ پھرآس پاس سے عقیدت مند آئے اور پیپل کے پودے کی پوجا کرنے لگے۔مکان مالک کے سامنے ان کے گھر کے ایک حصے پر عقیدت میں ڈوبے دوسرےہندو آہستہ آہستہ دعویٰ کر رہے تھے۔آخر وہ اس مقدس درخت کو کیسے چھو سکتے ہیں!

بھجن کیرتن شروع ہوگیا اور گھر ہاتھ سے  نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ پڑوسیوں کی فطری حسد کی تسکین ہو رہی تھی۔ مقامی پولیس اس کا مزہ لے رہی تھی اور مکان کے اس تقدیسی عمل  کو روکنے میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

اپنا گھر بچانے کے لیے پولیس کو کچھ لے دے کر  ایک رات انہوں نے پودے کو نکال ہی  دیا۔ میں جس وقت کی بات کر رہا ہوں، اس وقت بجرنگ دل جیسے مذہبی طور پر عزم سےپُرکارکنان نہیں تھے، ورنہ وہ رات کے اندھیرے میں پیپل بھگوان کو وہاں سے ہٹانے کا گناہ نہ کر پاتے۔

نجی پراپرٹی کو پبلک پراپرٹی میں تبدیل کرنے کا یہ مذہبی طریقہ،  جو ہندوؤں کی خاص ایجاد ہے، مارکس کو اس کے بارےمیں معلوم نہ تھا۔ ورنہ وہ یہ نہ کہتے کہ مذہب عوام کے  لیے افیون ہے۔وہ یہ  لکھ جاتے کہ ذاتی املاک کے درخت کی تباہی کے لیے دھرم مٹھا ہے۔

اچانک کسی جگہ شیولنگ کے نمودار ہو جانے کی ‘حیران کن لیکن سچی’ خبریں ہم بیچ بیچ میں سنتے رہتے تھے۔بچپن کے معصوم ذہن پر اس معجزے کا راز کھل نہیں پاتا تھا۔

ایک دن ایک گاؤں والے نے بتایا کہ کسی کی زمین پر قبضہ کرنے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ زمین میں اتھلا گڑھا کھودو، اس میں ڈھیر سارے  چنے ڈالو اور اس کے اوپر ننھی سی مورتی رکھ دو، آہستہ آہستہ پانی دیتے رہو۔ چنے پھولنے لگیں گے اورمورتی  ایک دن اوپر اٹھتی  ہوئی نمودار ہوجائے گی۔

پھر آس پاس کے گاؤں  میں شور مچ جائے گا۔پوجا شروع ہو جائے گی۔ پنڈت اپنا گمچھا  سنبھالتے ہوئے دیوتا کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے۔ معجزات کے بھوکے لوگ اپنی عقیدت کے ساتھ، جو ان کے پاس بکثرت ہے، ہاتھ جوڑے ، بھجن کرتے ہوئے جمع ہو جائیں گے۔

سستا اور مؤثر! زمین کے حصول کا اس سے زیادہ غیر متشدد طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ جس کی زمین ہے، کیا وہ اس روحانیت کے لیے اتنی زمین بھی نہیں دے سکتا؟  غیر مَزروعَہ زمین ہوئی  تو پھر بات ہی کیا؟

قبرستان کی زمین پر ایک کونے میں درخت پر مقدس دھاگوں کو باندھنے سے اس پر قبضہ کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یا چھوٹی مورتی کو رکھ کر اس پر پانی چڑھا کر بھی یہ کیا جا سکتا ہے۔ آج کل یہ کام ترنگے سے بھی لیا جا رہا ہے۔ یعنی مسلمانوں کی زمین کو  قومیایا جا رہا ہے۔

ابھی راجستھان میں سڑک سے سفر کرتے ہوئے ایک پہاڑی پر ایک بڑے  رنگین پتھر کو دیکھا۔اس میں  ہنومان کی شکل نکال دی گئی تھی۔ تصوراتی نظروں سے دیکھنے پر وہ ہنومان لگ رہے  تھے۔ پھر کہیں وہاں ہنومان کا مندر بنا دیا جائے!

ہم نے بادلوں میں بھی کئی بار ایسی صورتیں دیکھی ہیں۔ وہ تو بھلا  ہوہوا کا کہ وہ ٹکتی نہیں ورنہ عقیدت مند آسمان میں بھی ہنومان کا مندر بھی بنا لیتے!

ایسے موقعوں پر شالی گرام جی یا شیولنگ کے نمودار ہونے کو دیکھا جاتا تھا۔ اس سے آسان کچھ نہیں ہے۔ کرشن جی  کی تو ‘تربھنگی مدرا’ ہی ہمیں یاد ہے، حالانکہ ادھر  کے لوگ شاید سدرشن چکردھاری کرشن کو ہی قابل پرستش مانتے ہوں گے۔جیسے ہمیں بھولے بھالے ہنومان  پیارے لگتے تھے، با ل ہنومان کے سورج کو نگل جانے کے کھیل پر ماں انجنا کی ڈانٹ سے بھی لطف آتا تھا!

ہنومان کی بات چلی تو مؤرخ رام شرن شرما یاد آگئے۔ دراصل جب بابری مسجد کی جگہ کو رام جنم بھومی کہہ کر ہتھیانے کی مہم چل رہی تھی، اس وقت کا سنا ہوا ان  کا ایک لیکچر حافظے میں محفوظ  ہے۔

اپنے جانے پہچانے مزاحیہ انداز میں انہوں نے بہار میں کمیونسٹوں کی طرف سے چلائی گئی زمین پر قبضہ کی تحریک کو یاد کیا اور کہا کہ انہیں اپنے جھنڈے پرہنومان کو جگہ دینی  چاہیے تھی، تب ان کی کامیابی یقینی تھی۔

پھر انہوں نے عصری مادی مقاصد کے لیے ہنومان کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ وہ لیکچر جس سے ہندو سامعین خوب لطف اندوز ہوئےتھے، آج ممکن نہیں ہے۔ لیکن اب شرما جی بھی تو نہیں رہے۔

آج جس زمین پر رام کا عظیم الشان مندر بن رہا ہے وہ اسی طریقہ سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کو سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا۔

سن 1949 میں بابری مسجد کے اندر رات کے اندھیرے میں چوری چوری بھگوان کی مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ سنگین جرم تھا۔ لیکن یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ عدالت نے جس چیز کو چوری چوری مسجد میں مورتی گھسانا کہا اسے سماج کے سامنے رام للا کا نمودار ہونا کہا گیا۔ اور ہندو سماج نے اس کو قبول بھی کیا۔

سب جانتے تھے کہ وہ مسجد میں چوری سے مورتی رکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ مسجد پر اپنا دعویٰ پیش کرنے اور پھر اس پر قبضہ کرنے کا پرانا آزمایا ہوا ہندوستانی نسخہ تھا۔

پھر یہ کہنا شروع کیا گیا کہ یہ تومندرہی  ہے اور اگر ہم اپنے مندر کو توڑ کر نیا مندر بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں کوکیا! اس جھوٹ کو بڑی ڈھٹائی سے پھیلایا گیا اور ہندو سماج نے مان بھی  لیا۔

یہ بات دوسرے مذاہب کے لیے بھی درست ہے لیکن ابھی  ہم ہندو سماج کی بات کر رہے ہیں۔ آخر مٹھوں میں مہنتوں کی جانشینی کا سوال بعض اوقات ہتھیاروں کی مدد سے کیوں طے کیا جاتا ہے؟

کیا وارث  کے یے موجودہ مہنت کو راستے سے ہٹانا اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کی خدمت کا جذبہ اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ گرو کی فطری،قدرتی  مدت ختم ہونے کا انتظار نہیں کر سکتا؟ کیا یہ روحانی بے چینی  ہے یا دنیاوی؟

مہنتوں کے سماج  میں ایسی خونی کہانیوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لیے تقریباً ہر مہنت کو اپنے جانشین پر شک رہتا ہے۔

بابری مسجد پر قبضے کی شروعات مورتیوں کو چوری سے مسجد میں رکھنے سے ہوئی تھی۔ عدالت چاہتی تو اس کو جرم ماننے کے بعد  سزا طے کرسکتی تھی۔ لیکن اس نے اس جرم کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو مسجد کی زمین دے کر انعام دیا۔ اس طرح اس نے ایک روایت کی بنیاد ڈال دی۔

آج گیان واپی مسجد میں شیولنگ کے نمودار  ہوجا نے  کو جو معجزہ سمجھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ ‘بابا پرکٹ ہوئے مسجد میں’، ایسا کہنے والے مذہبی ہوں نہ ہوں، وہ تجاوزات کےمجرم لازماًہیں۔

وضوخانے میں جسے وہ شیولنگ کہہ رہے ہیں، وہ مسلمانوں کے مطابق وضوخانہ کا فوارہ ہے۔ لیکن دونوں میں مماثلت دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر جھگڑالو پیپل  کا درخت ہو سکتا ہے تو فوارہ شیولنگ کیوں نہیں؟

ہندوؤں کے پاس یہ سہولت ہے کہ وہ پتھر میں جان رکھ کر اسے اپنے مطلوبہ بت میں بدل سکتے ہیں۔ پھر اس فوارے کو اگر مجھے شیولنگ ماننے کی عقیدت ہے  تو مسلمان  کی مانی جائے گی یا میری۔

سوال عقیدت  کا ہے۔ اور عقیدت اسی  کی قابل قبول  ہے جس کے پاس لوگوں تعداد اور ریاست کی طاقت ہے!

(اپوروا نند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)