خبریں

مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنائے جانے پر اپنا موقف واضح کرے حکومت: مسلم پرسنل لاء بورڈ

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ نے کہا ہے کہ عبادت گاہوں کے بارے میں نچلی عدالتیں جس طرح سے فیصلے کر رہی ہیں، وہ افسوسناک ہے۔ بورڈ نے گیان واپی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کو قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر ہندو فریق نے کہا ہے کہ اگر شیولنگ فوارہ ہے تو اسے چلا کر دکھائیں۔ اس پر مسلم فریق نے کہا کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں۔

گیان واپی مسجد۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

گیان واپی مسجد۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے پر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا موقف واضح کرے۔

بورڈ نے وارانسی میں کاشی وشواناتھ مندر کے قریب گیان واپی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی  انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی اور اس کے وکیلوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بورڈ نے عبادت گاہوں پر تنازعہ پیدا کرنے کی ‘اصل منشا’ کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے ضرورت پڑنے پر ملک گیر ایجی ٹیشن شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

بورڈ کے ممبر قاسم رسول الیاس نے بدھ کو بتایا کہ بورڈ کی ورکنگ کمیٹی کا ہنگامی ورچوئل اجلاس 17 مئی کی رات کو منعقد ہوا، جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

انہوں نے وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی مسجد عیدگاہ کے معاملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میٹنگ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 1991 میں پارلیامنٹ میں سب کی رضامندی سے بنائے گئے عبادت گاہوں کے قانون کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔

الیاس نے کہا، میٹنگ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں خاموش ہیں۔ اس کے علاوہ خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی جماعتیں بھی خاموش ہیں۔ بورڈ نے ان سب سے اس پر اپنا موقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

الیاس نے بتایاکہ بورڈ نے یہ بھی کہا کہ نچلی عدالتیں جس طرح عبادت گاہوں کے بارے میں فیصلے لے رہی ہیں، یہ افسوسناک ہے۔ عدالتیں عوام کو مایوس نہ کریں کیونکہ انصاف کی جو آخری امید ہوتی ہے وہ  کہیں ختم نہ ہو جائے۔

انہوں نے بتایا کہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ گیان واپی مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں بورڈ کی لیگل کمیٹی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیم انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی اور اس کے وکیلوں کی مدد کرے گی۔

الیاس نے بتایا کہ بورڈ نے مسلمانوں سے امن وامان برقرار رکھنے، حوصلے کے ساتھ کھڑے رہنے اور قانونی جنگ کو اپنی پوری صلاحیت کے مطابق لڑنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بورڈ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ مساجد کے حوالے سے اٹھائے جانے والے تمام تنازعات کے پیچھے کی اصل منشا کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ لوگوں کو گمراہ نہ کیا جا سکے۔ الیاس نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اس حوالے سے پورے ملک میں تحریک  بھی چلا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا سچائی یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

الیاس نے کہا کہ بورڈ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں مختلف مذہبی برادریوں، مذہبی رہنماؤں، سول یونین اور سماجی تنظیموں سے رابطہ کرنے کے بعد انہیں سچ بتایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی ایک کمیونٹی کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے۔

اس سے پہلے 16 مئی کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ نے گیان واپی مسجد میں مبینہ طور پر شیولنگ پائے جانے کے بعد عدالت کے فیصلے پر مسجد کے وضوخانہ کو بند کرنے کو نانصافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پیش رفت فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنےکی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

بورڈ کے جنرل سکریٹری خالد سیف اللہ رحمانی نے 16 مئی کو دیر رات جاری ایک بیان میں کہا تھا، گیان واپی مسجد ایک مسجد ہے اور مسجد ہی رہے گی۔ اسے مندر قرار دینے  کی کوشش فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کی سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ آئینی حقوق اور قانون کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا تھا، سال 1937 میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری کے معاملے میں عدالت نے زبانی گواہی اور دستاویزوں کی بنیاد پر یہ طے کردیا تھا کہ یہ پورا کمپاؤنڈ (گیانواپی مسجد کمپلیکس) مسلمانوں کے وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کردیا تھا کہ کتنا حصہ مسجد اورکتنا حصہ مندر  ہے۔ اسی وقت وضوخانہ کومسجد کی ملکیت کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔

بورڈ کے جنرل سکریٹری نے کہا تھا، پھر 1991 میں پیلس آف ورشپ ایکٹ پارلیامنٹ سے پاس ہوا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیں، ان کو اسی  حالت پر برقرار رکھا جائے گا۔سال 2019 میں بابری مسجد کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا تھا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے تحت ہوں گی اور یہ قانون دستور ہند کی بنیاد کے مطابق ہے۔

انہوں نے وارانسی کے سول جج (سینئر ڈویژن) کی عدالت کے کردار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا، قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مسجد کے مندر ہونے کے دعوے کو عدالت فوراً مسترد کر دیتی، لیکن افسوس کہ بنارس کی سول عدالت نے اس جگہ کے سروے اور ویڈیو گرافی کا حکم جاری کردیا۔ اس سلسلے میں وقف بورڈ پہلے ہی ہائی کورٹ سے رجوع کرچکا ہے اور یہ مقدمہ وہاں زیر التوا ہے۔

انہوں نے کہا تھا، اسی طرح گیان واپی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے بھی دیوانی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ وہاں بھی یہ معاملہ زیر سماعت ہے لیکن ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سول کورٹ نے پہلے سروے کا حکم جاری کیا اور پھر اس کی رپورٹ کو منظور کرتے ہوئے وضوخانہ کے حصے کو بند کرنے کا حکم جاری کردیا۔

انہوں نے کہا تھا، یہ فیصلہ زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی بھی ہے، جس کی کسی عدالت سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کر دیا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد فوری طور پر روکے، الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے اور 1991 کے ایکٹ کے مطابق تمام مذہبی مقامات کی حفاظت کرے۔

رحمانی نے مسجد کے اندر مندر ہونے کے ہندو فریق کے دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا، اگر اس طرح کی خیالی دلیلوں پر عبادت گاہوں کی حیثیت تبدیل کی گئی تو پورا ملک افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ کیوں کہ  کتنے ہی بڑے بڑے مندر بودھ اور جین کی عبادت گاہوں کو تبدیل کر کے مندر بنائے گئے ہیں اور ان کے نمایاں آثار بھی موجود ہیں۔ مسلمان اس ظلم کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہر سطح پر اس ناانصافی کا مقابلہ کرے گا۔

دریں اثنا، سپریم کورٹ نے جمعرات کو گیان واپی مسجد تنازعہ کیس میں وارانسی کی عدالت کے احکامات کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر سماعت جمعہ تک ملتوی کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ہی وارانسی کی عدالت ،جس کے سامنے اس کیس کی کارروائی زیر التوا ہے، سے کہا کہ اس وقت تک اس معاملے میں کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

مسجد کی نگرانی کرنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ مختلف مساجد کو ‘سیل’ کرنے کے لیے ملک بھر میں متعدد عرضیاں دائر کی گئی ہیں اور گیان واپی کیس کی سماعت وارانسی میں چل رہی ہے۔

انہوں نے بنچ سے کہا کہ انہیں صرف یہ خدشہ ہے کہ گیان واپی مسجد میں ‘وضوخانہ’ کے پاس ایک دیوار کو گرانے کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے اور اس پر کارروائی جاری ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ ہدایت دی ہے۔

سپریم کورٹ نے 17 مئی کو وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ گیان واپی مسجد کے شرنگار گوری کمپلیکس کے اندر کے اس علاقے کی حفاظت کریں، جہاں ایک سروے کے دوران  ‘شیولنگ’ پائے جانے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دینے کی بھی ہدایت دی تھی۔

تاہم مسلم فریق نے شیولنگ ملنے کے دعوے کی تردید کی ہے۔ گیان واپی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری سید محمد یاسین نے کہا کہ مغلیہ دور میں تعمیر ہونے والی جتنی  مساجد ہیں،  ان سب کے وضو خانےمیں فوارہ  لگایا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دیگر مساجد کی طرح گیان واپی مسجد کےفوارے میں بھی سبز پتھر نصب کیا گیا تھا جسے شیولنگ بتایا جا رہا ہے۔

مسجد کی انتظامی کمیٹی کی جانب سے سینئر وکیل حذیفہ احمدی اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ احمدی نے دلیل دی تھی کہ وارانسی عدالت کا فیصلہ پیلس آف ورشپ ایکٹ 1991 کے خلاف ہے۔

اس ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت اسی طرح برقرار رہے گی جس طرح یہ 15 اگست 1947 کو موجود تھی۔

اس سے قبل، 12 مئی کو وارانسی کی ایک مقامی عدالت نے گیان واپی-شرنگار گوری کمپلیکس کا ویڈیو گرافی سروے کرنے اور 17 مئی کو عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔

غور طلب  ہے کہ وشو ویدک سناتن سنگھ کے عہدیدار جتیندر سنگھ ویسن کی قیادت میں راکھی سنگھ اور دیگر نے اگست 2021 میں عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں گیانواپی مسجد کی مغربی دیوار کے پاس واقع شرنگار گوری کی پوجا اور دیگردیوتاؤں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی گیان واپی مسجد احاطے میں واقع تمام مندروں اور دیوتاؤں کی اصل پوزیشن جاننے کے لیے عدالت سے سروے کی درخواست کی گئی تھی۔

گیان واپی معاملے کو سڑک پر نہ لایا جائے: جمعیت

جمعیت علمائے ہند نے بدھ کو مسلم کمیونٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ گیان واپی جیسے مسائل کو سڑکوں پر نہ لائیں اور ہر طرح کے عوامی مظاہروں سے گریز کریں۔

جمعیت کے صدر مولانا محمود مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ کچھ ‘شرپسند’ اس معاملے کو بہانہ بنا کر دونوں برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے اس میں صبر وتحمل ضروری ہے۔

مدنی نے اپیل کی کہ گیان واپی کے مسئلہ کو سڑک پر نہ لایا جائے اور ہر طرح کے عوامی مظاہروں سے گریز کیا جائے۔

انہوں نے کہا، مسجد کمیٹی اس معاملے میں ایک فریق کے طور پر مختلف عدالتوں میں مقدمہ لڑ رہی ہے۔ ان سے امید ہے کہ وہ اس معاملے کو آخری دم تک مضبوطی سے لڑیں گے۔ ملک کی دیگر تنظیموں سے اپیل ہے کہ وہ اس میں براہ راست مداخلت نہ کریں۔

مدنی نے کہا، علمائے کرام، مقررین اور مفسرین سے اپیل ہے کہ وہ ٹی وی مباحثوں میں حصہ لینے سے گریز کریں۔ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لیے عوامی بحث میں اشتعال انگیزی اور میڈیا پر بیان بازی  کسی بھی طرح سے ملک اور مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

نفرت کی سیاست کر کے لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جار ہی : آئی ایم سی چیف

اتحاد ملت کونسل (آئی ایم سی) کے صدر مولانا توقیر رضا خان نے الزام لگایا ہے کہ نفرت کی سیاست کرکے لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اعلیٰ حضرت درگاہ سے وابستہ خاندان کے رکن مولانا توقیر رضا خان نے 17 مئی کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، جتنا نقصان پاکستان کے بننےپر ہندوستان کو نہیں ہوا اس سے زیادہ نقصان اب ملک کو ہو رہا ہے۔ نفرت کی سیاست کرکے تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اتحاد ملت کونسل ایک علاقائی جماعت ہے جو سال 2001 میں اتر پردیش میں قائم ہوئی تھی۔ خان سنی مسلمانوں کے بریلوی فرقے کے مذہبی رہنما ہیں۔

وارانسی کی گیان واپی مسجد پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب اگر کسی مسجد میں زبردستی کی جاتی ہے تو اس کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ گیان واپی کا سروے بند کمروں کے لیے کیا جانا تھا نہ کہ کھلےحوض کے لیے۔

خان نے کہا کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حوض میں کھڑے فوارے کو شیولنگ بتا کر ہندو مذہب کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور ہندو بھائیوں کو اس کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا۔

ہندو فریق نے کہا-  شیولنگ فوارہ  ہے تو چلا کر دکھائیں، مسلم فریق نے کہا ،تیار ہیں ہم

گیان واپی کیس میں ہندو فریق کے وکیل وشنو جین نے مسلم فریق کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اپنے اس دعوے کو ثابت کرے کہ گیان واپی مسجد کے وضو خانہ میں پایا جانے والا ‘شیولنگ’ ایک فوارہ  ہے۔

گیان واپی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے اس  کو قبول کرتے ہوئے  کہا ہے کہ اسے فوارہ  چلا کر دکھانے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔

بدھ کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے جین نے کہا کہ مسلم فریق گیان واپی مسجد کے وضوخانہ میں پائے جانے والے شیولنگ کو فوارہ  بتا رہا ہے اور اگر یہ واقعی فوارہ  ہے تو اسے چلا کر دکھائیں۔

انہوں نے کہا، اگر یہ فوارہ  ہے تو اس کے نیچے پانی کی فراہمی کا مکمل نظام ہونا چاہیے۔جہاں شیو لنگ ملا ہے اس کے نیچے تہہ خانے کی چھان بین کی جائے اور شیولنگ کے سائز کو بھی ناپنے کی اجازت دی جائے۔

دریں اثنا، گیان واپی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیم انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری سید محمد یاسین نے کہا کہ اس فوارے  کا معائنہ کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے اور وہ اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

انہوں نے کہا، اگر ہمیں اجازت دی جائے تو ہم اس فوارے کے نیچے پائپ ڈال کر پانی نکالنے کو بھی تیار ہیں۔ پہلے حوض میں سرکاری پائپ سے پانی بھرا جاتا تھا، اب جیٹ پمپ کے ذریعے کنویں سے پانی بھرا جاتا ہے۔ فوارے  کا پائپ الگ ہے۔ فوارے کے پاس بھی پائپ لگا ہے تاکہ پانی کا فوارہ  نکلے۔

یاسین نے بتایا کہ فوارے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں اوپر کی طرف چار نشانات بنے ہوئےہیں۔ انہی  میں سے فوارہ  نکلتا تھا۔ ہم اسے چلا کر دکھا دیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ سروے کے دن ان نشانات میں سے ایک میں سلائی ڈالی گئی تھی جو تقریباً 64 سینٹی میٹر اندر چلی گئی تھی۔ یعنی یہ وہ سوراخ ہے جس سے پانی نکلتا تھا۔

یاسین نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جو ویڈیو وائرل ہو رہا ہے وہ حوض کی صفائی کے وقت کا ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران کرائی گئی تھی اور حوض کی صفائی ہر چھ ماہ بعد کرائی جاتی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)