فکر و نظر

اداریہ: بلقیس کی انصاف کی لڑائی اب ملک کی ذمہ داری ہے

سن 2002 میں سپریم کورٹ نے بلقیس کیس میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ گجرات حکومت مجرموں  کو بچا  رہی ہے۔ بیس سال بعد بھی کچھ نہیں بدلا ہے۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

پندرہ  اگست 2022 کوگجرات حکومت نے 2002 کے بلقیس بانوگینگ ریپ  اور اجتماعی قتل کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 افراد کو رہا کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔

پتہ چلا کہ ریاستی حکومت نے بعض عہدیداروں اور ‘سماجی کارکنوں’ کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے سزا میں رعایت  کی باضابطہ منظوری دی،کمیٹی میں شامل یہ سب لوگ یا تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن تھے یا اس سے وابستہ تھے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ ان میں سے کئی  ملزمین نے عارضی پیرول کے دوران گواہوں کو دھمکایا تھا،  یعنی ان میں  احساس ندامت  کا شائبہ تک نہیں تھا  اور نہ ہی بازآبادی کی کوشش تھی۔

کمیٹی کے ایک ممبراور گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے نے تو گویا وضاحت پیش کرتے ہوئے کہہ دیا کہ  بعض  قصوروار اچھے سنسکاروں  والےبرہمن تھے اور ہو سکتا ہے کہ وہ قصوروار بھی نہ ہوں۔

ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ  ان  میں سے ہر ایک ‘سنسکاری’ کا نام لیتے ہوئے یہ بھی یا دکیا جائے  کہ انھوں نے محض 21 سالہ بلقیس بانو اور اس کے خاندان کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا  تھا۔ ان حقائق سے کوئی پریشان نہ ہو، جیسے  بلقیس کبھی نہیں ہوئی ۔ اس کے بجائے، وہ  اپنے دل پر پتھر رکھ کر بہادری سےایک  عدالت سے  دوسری عدالت تک گئی، تاکہ اس قتل عام  کی واحد بالغ  سروائیور کے طور پر  وہ انصاف کے حصول کا اپنا فرض پورا کر سکیں۔

تین مارچ 2002 کو گیارہ مردوں- 1. جسونت بھائی نئی، 2. گووند بھائی نئی، 3. شیلیش بھٹ، 4. رادھے شیام شاہ، 5. بپن چندر جوشی، 6. کیسر بھائی ووہانیہ، 7. پردیپ موردھیا، 8. بکا بھائی ووہنیا، 9. راجو بھائی سونی، 10. متیش بھٹ، اور 11. رمیش چندنا- تلوار، درانتی اور لاٹھیوں سے لیس دو سفیدگاڑیوں میں سوار ہوئے اور منصوبہ بند شکار پر نکلے – انسانوں کا شکار۔ جب انہیں اپنا شکار مل گیا تو ان گیارہ ‘سنسکاریوں’ نے خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کیا  اور کل 14 افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا۔

خصوصی سیشن عدالت کے 2008 کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے یکے بعد دیگرے ‘حاملہ [بلقیس] کے ساتھ ریپ کیا’۔ انہوں نےبلقیس کی والدہ کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔انہوں نے بلقیس کی پھوپھی زاد بہن شمیم کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔ جب بلقیس کے خاندان کا یہ گروہ جان بچانے کے لیے گاؤں گاؤں بھٹک رہا تھا،اور شمیم نے صرف دو دن پہلے ایک گاؤں میں بچے کو جنم دیا تھا۔

انہوں نے بلقیس کی پہلی اولاد، ساڑھے تین سالہ صالحہ کو قتل کر دیا۔ شیلیش بھٹ نے بلقیس سے بچی کو زبردستی چھین کر پتھر پر پٹک  دیا۔ صالحہ نے موقع پر ہی دم توڑ  دیا۔

انہوں نے بلقیس کی 45 سالہ والدہ حلیمہ پر تلواروں، درانتیوں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا، جس سے  ان کو کئی فریکچر ہوئے، زخم آئے، بے تحاشہ  خون بہا اور انہوں نے بھی موقع پر ہی دم توڑ دیا۔

انہوں نے بلقیس کے دو چھوٹے بھائیوں کو قتل کر دیا۔ عرفان کی عمر صرف 11 سال تھی، اسلم کی عمر 13 سال تھی۔ ان پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا گیاتھا، جس کے باعث ان کے سر پر  شدید چوٹیں آئیں۔ انہوں نے  بھی وہیں دم توڑ دیا۔

Urdu-Editorial1

انہوں نے بلقیس کی چھوٹی بہن منی کو قتل کر دیا۔ وہ صرف 13 سال کی تھی اور سر پر چوٹ لگنےکے باعث اس کی موت ہوگئی۔

انہوں نے بلقیس کی دوسری چھوٹی بہن 20 سالہ ممتاز کوزدوکوب کیا اور اسے بھی قتل کردیا۔

انہوں نے 35 سالہ امینہ پٹیل، جو بلقیس کی پھوپھی تھیں، پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس سے ان کے سر میں فریکچر ہو گیا اور موقع پر ہی  ان کی جان چلی گئی ۔

انہوں نے بلقیس کے ماموں 55 سالہ ماجد پٹیل پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا، جنہوں  شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔

بلقیس کی ایک اور پھوپھی 40 سالہ صغریٰ  بین پر بھی مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا، جس کے باعث ان کے  سر میں چوٹیں آئیں اور انہوں نے دم توڑ دیا۔

انہوں نے صغریٰ بین کے شوہر، بلقیس کے 50 سالہ پھوپھایوسف پٹیل کو بھی نہیں بخشا۔ ان  پر حملے کی وجہ سے ان کا بہت زیادہ خون بہہ گیا اور انہوں نے بھی موقع پر ہی جان دے دی۔

بلقیس کی تین بہنوں یعنی  صغریٰ  بین کی تین بیٹیاں- مدینہ، ممتاز پٹیل اور شمیم – پر حملہ کیا گیا۔ 20 سالہ ممتاز پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا اور اس نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ انہوں نے 18 سالہ مدینہ پر حملہ کیا، جس کے باعث  موقع پر ہی اس کی موت  ہو گئی۔ اپنے دو دن کے بچے کو گود میں چھپا ئے 20 سالہ شمیم پر بھی انہوں نے حملہ کیا۔ سر پر جان لیوا چوٹ لگنے سے اس کی موت ہو گئی۔

اس وقت تک شمیم کی دو دن کی بچی کا  کوئی نام بھی نہیں رکھا گیا تھا، انہوں نے اس معصوم کو بھی قتل کر دیا۔ 2008 میں اسپیشل سیشن کورٹ کی طرف سے دیے گئے فیصلے میں وہ  ایک ‘انام بچی’ کے طور پر درج ہے۔

ان تمام 11 افراد کو تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 149 کے تحت دو دن کی شیر خوار  بچی اور ایک ساڑھے تین سال کی بچی سمیت  14 لوگوں کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔

ان سبھی کو آئی پی سی کی دفعہ 376(2)(ای) اور (جی) کے تحت گینگ ریپ اور جان بوجھ کر ایک حاملہ خاتون کے ساتھ ریپ  کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

تمام 11 افراد کو آئی پی سی کی دفعہ 376 (جی) کے تحت بلقیس کی ماں حلیمہ اور پھوپھی زاد بہن بھائی شمیم کو قتل کرنے سے پہلے ان کے ساتھ گینگ ریپ کرنے کے لیے مجرم قرار دیا گیا۔

ان 11 لوگوں نے بلقیس سے اس کا پورا خاندان چھین لیا۔ وہ عورتیں جو ان کی زندگی کا اہم حصہ تھیں – ماں، بہنیں، پھوپھی اور ان کی بیٹیاں- سب کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا،ان کے ساتھ ریپ کیا گیا۔انہوں نے  گھر کے بچوں تک کو  نہیں بخشا۔ بلقیس کے چھوٹے بہن بھائی مارے گئے۔ ان کے پہلے بچے کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

ان جرائم کو چھپانے کی کوشش بھی اتنی ہی سفاکانہ تھی۔ لاشوں کو گھسیٹ کر جنگل میں لے جایا گیا اور نمک کی تھیلوں کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ سات لاشیں کبھی برآمد نہیں ہوئیں۔ جمع کیے گئے شواہد کے ڈھیر میں سی بی آئی کو تین سالہ صالحہ کی لاش کی ایک تصویر ملی تھی، لیکن اس چھوٹی سی بچی کی لاش  نہیں ملی۔ اسے کبھی دفن نہیں کیا گیا۔ بلقیس اور اس کے شوہریعقوب آج  بھی اس  گمشدہ قبر کے لیےسوگوار ہیں، جہاں وہ کبھی جا کر اپنی بیٹی کے لیے دعا نہیں کر سکے۔

ان 11 افراد نے جو کیا وہ کوئی معمولی جرم نہیں تھا۔ 2008 میں بمبئی  کی سیشن کورٹ کی جانب سےان کی عمر قید کی سزا کو بامبے ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے برقرار رکھا ۔

سپریم کورٹ نے 23 اپریل 2019 کو بلقیس کو معاوضہ دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیسے ‘وحشیانہ، ہولناک تشدد کی کارروائیوں نے ان کے ذہن پر ایک ان مٹ نقش چھوڑ دیا ہے جو انہیں ساری زندگی اذیت دیتا رہے گا۔ کورٹ نے کہاتھا ، اس  معاملے کو الگ طریقے سے نمٹایا جانا چاہیے کیونکہ یہاں نقصان اور تکلیف… عام معاملات سےکہیں زیادہ اور شدید ہے۔

بلقیس کا معاملہ ایک اور وجہ سے غیر معمولی تھا۔ کٹہرے میں نہ صرف گینگ ریپ  اور اجتماعی قتل کے ملزمین تھے، بلکہ گجرات حکومت اور پولیس فورس بھی تھی، جنہوں نے اس گھناؤنے جرم کو چھپانے میں مدد کی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت مہاراشٹر میں ہوئی کیونکہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اس وقت کی نریندر مودی کی قیادت والی گجرات حکومت پر اس کیس میں انصاف دینے کے سلسلے میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

چونکہ اس کیس کی جانچ سی بی آئی نے کی تھی اور ٹرائل بھی اسی نے کیا تھا، اس لیے دی گئی معافی مرکزی حکومت کی رضامندی سے ہی ممکن تھی۔ سپریم کورٹ میں روپ ریکھا ورما، ریوتی لال، سبھاشنی علی اور مہوا موئترا نے ان 11 مجرموں کی قبل از وقت  رہائی کو چیلنج کرتے ہوئے عرضیاں دائر کی ہیں۔ 2002 میں سپریم کورٹ نے بلقیس کیس میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ گجرات حکومت ان مجرموں کوبچارہی ہے۔ بیس سال بعد بھی کچھ نہیں بدلا ہے۔

اس معاملے پر مودی کی خاموشی اقوام متحدہ جیسے معروف عالمی اداروں کے درمیان اس یقین کو مزید تقویت دے گی کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو مذہب اور جنس کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ کھلم کھلا امتیازی سلوک کرتا ہے۔

اس ملک کے لوگوں  اسے صرف بلقیس کی لڑائی  نہیں سمجھنا چاہیے۔ انصاف کے لیے ان کی جدوجہد وہ فرض ہے جسے ہندوستان نے پورا کرنا ہے۔ عدالت عظمیٰ کو بلقیس اور بے دردی سے قتل کردیے گئے ان  کے 14 رشتہ داروں کی حمایت کرنی چاہیے اور مجرموں کو واپس جیل بھیجنا چاہیے۔ سزامعافی کے عمل میں فرقہ وارانہ سیاست اور تعصب کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔

(اس اداریہ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)