خبریں

 لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر نے صدیق کپن کی ضمانت بھری

گزشتہ ہفتے صحافی صدیق کپن کے وکیل نے بتایا تھا کہ کپن کی ضمانت کی شرط کے مطابق انہیں یوپی سے دو ضمانت داروں  کی ضرورت تھی، لیکن ‘معاملے کی حساس نوعیت’ کی وجہ سے لوگ مدد کے لیے آگے آنے سے ہچکچا رہے تھے۔

صدیق کپن اور روپ ریکھا ورما۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/فیس بک)

صدیق کپن اور روپ ریکھا ورما۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے تقریباً دس دن بعد کیرالہ کے صحافی صدیقی کپن کو بالآخر مقامی ضمانت دار مل گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما اور ایک شخص جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ، انہوں نے کپن کی ضمانت بھر دی ہے۔

اکتوبر 2020 میں ہاتھرس گینگ ریپ اور قتل کیس کی رپورٹ کرنے کے لیے جاتے ہوئے کپن کوگرفتار کیا گیا تھا۔ 10 ستمبر کو انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی ہے۔

کپن کے وکیل محمد دانش نے گزشتہ ہفتے دی کوئنٹ کو بتایا تھاکہ ‘معاملے کی حساس نوعیت’ کی وجہ سے کپن کے لیے مقامی ضامن کے طور پر دو لوگوں کوتلاش کرنا مشکل ہو رہاتھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں یو اے پی اے کیس میں ضمانت ملے نو دن ہوچکے ہیں، لیکن لوگ کپن کی مدد کے لیے آگے آنے سے ہچکچا رہے تھے۔

ضمانت کی شرائط کے مطابق، عدالت نےکہا تھا کہ ان کے وکیل دو لوگوں کو پیش کریں، جن کے اکاؤنٹ  میں یا جائیداد کی قیمت ایک لاکھ روپے ہو،ساتھ ہی اتنے ہی  رقم کانجی مچلکہ بھی بھرنا ہوگا۔

 کپن اور ان کے اہل خانہ کیرالہ کے رہنے والے ہیں اور گرفتاری سے قبل نئی دہلی میں رہتے تھے۔

ان کے وکیلوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ شنوائی کے دوران موجود  کپن کی بیوی اور بھائی کے ناموں پر ضمانت داروں کے طو رپر غور کیا جائے لیکن ضمانت کے لیے شرائط طے کرنے والی لکھنؤ کی نچلی عدالت نے اس سے انکار کر دیا تھا۔

دی ٹیلی گراف کے مطابق، 79 سالہ روپ ریکھا ورما نے منگل کو ایک مقامی عدالت میں اپنی گاڑی  کے کاغذات جمع کروا کر کپن کے ضمانتی بانڈ بھرے۔ اخبار کے مطابق وہ کپن کو نہیں جانتی ہیں۔

انھوں نے بدھ کو اس اخبار کو بتایا، میرا ضمیر کہتا ہے کہ انھیں جیل سے باہرہونا چاہیے اور  اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ کیرالہ سے ان کے ایک دوست نے ان کو فون کیا تھا اور کپن کی ضمانت دینے کے لیے دو لوگوں کو تلاش کرنے کو کہا تھا۔ انہوں نے بتایا،لیکن میں صرف مجھے جانتی تھی اور اسی لیے میں نے اپنی کار کے کاغذات جمع کروا دیے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ لکھنؤ کے ایک اور شخص نے مچلکہ بھرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، لیکن میں نہیں جانتی کہ وہ کون ہیں۔

ورما نے مزید کہا،میرے لیے ایک چیز واضح ہے – وہ (کپن) ہاتھرس گاؤں میں ایک گھناؤنے واقعے کو کور کرنے جا رہے تھے… میں ان سے کبھی نہیں ملی اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیسے انسان ہیں۔ میری سمجھ کے مطابق انہیں ایسے وقت میں گرفتار کیا گیا جب ملک میں جبر کا ماحول ہے۔اس  لڑکی کو بے دردی سےقتل کر دیا گیا، پولیس نے رات ہی میں زبردستی اس کی آخری رسومات ادا کر دیں۔ میں نے ان کی ضمانت بھرکربہت بڑی  مدد نہیں کی ہے، کیونکہ وہ اب بھی ایک بڑی قانونی لڑائی  لڑ ر ہے ہیں۔

تاہم، ضمانت ملنے کے باوجود کپن فی الحال لکھنؤ جیل میں ہی رہیں گے کیونکہ ان کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی طرف سے زیر تفتیش معاملہ ابھی زیر التوا ہے۔

لکھنؤ جیل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آشیش تیواری نے بتایا تھا کہ ای ڈی کیس میں ضمانت ملنے کے بعد انہیں رہا کردیا جائے گا۔

کپن کے وکیل ہیرس بیرن نے بھی دی وائر کو بتایا تھاکہ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ سپریم کورٹ اور لکھنؤ کے جج دونوں نے ان کی رہائی کے لیے شرائط رکھی ہیں، لیکن انھیں رہائی کے لیے پی ایم ایل اے کیس میں بھی ضمانت کی ضرورت ہوگی۔

اس معاملے کی سماعت 19 ستمبر کو ہوئی، جہاں ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ کیس کی اگلی سماعت 23 ستمبر کو ہوگی۔

بتا دیں کہ گزشتہ سال ای ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا ہاتھرس واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ تشددبھڑکا نا چاہتی تھی اور دہشت پھیلانا چاہتی تھی۔ اس کی چارج شیٹ میں دیگر کے ساتھ کپن کا نام بھی درج ہے۔

معلوم ہو کہ کپن، ملیالم نیوز پورٹل  ‘اجیمکھم’ کے نمائندے اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی دہلی یونٹ کے سکریٹری کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

کپن اس وقت ہاتھرس  ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے ریپ کے بعد ہسپتال میں ہوئی موت کی رپورٹنگ کے لیےوہاں  جا رہے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ امن و امان کو خراب کرنے کے لیے ہاتھرس جا رہے تھے۔

یوپی پولیس کا الزام ہے کہ ملزم امن و امان خراب کرنے ہاتھرس جا رہا تھا۔ ان پر پی ایف آئی سے وابستہ ہونے کا بھی الزام ہے۔

پولیس نے تب کہا تھا کہ اس نے چار لوگوں کو متھرا میں شدت پسند تنظیم پی ایف آئی کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں گرفتار کیا اور ان چاروں کی شناخت کیرالہ کے ملاپورم کے صدیق کپن، اتر پردیش کے مظفر نگر کے عتیق الرحمان، بہرائچ کے مسعود احمد اور رام پور کے محمد عالم کے طور پر  ہوئی ہے۔

ان کی گرفتاری کے دو دن بعدیوپی پولیس نے ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت سیڈیشن اور دیگر مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

یو اے پی اے کے تحت درج مقدمہ میں الزام لگایا گیاتھا کہ کپن اور اس کے ساتھی مسافر ہاتھرس گینگ ریپ  اور قتل کیس کے تناظر میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔