فکر و نظر

رشی سنک کا عہدہ ہندوپن یا ہندوستانیت کی شان نہیں، برطانیہ کی تنوع پسندی ہے

رشی سنک کا وزیر اعظم بننا برطانیہ کے لیےضرور ایک قابل فخر لمحہ ہے، کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ‘بیرونی لوگوں’ کے ساتھ دوستی میں بڑی ترقی حاصل کرلی ہے۔ اس میں ہندو مذہب یا اس کے پیروکاروں کا کوئی خاص کمال نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ برطانیہ کو بھی ہندو مذہب کا لوہا ماننا پڑا، احساس کمتری کا اظہار ہی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم رشی سنک اپنی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر۔ (تصویر: رائٹرس)

برطانوی وزیر اعظم رشی سنک اپنی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر۔ (تصویر: رائٹرس)

ہندوستانی خبر رساں ایجنسیوں اور ایک بڑے انگریزی اخبار نے اطلاع دی ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے طور پر رشی سنک کے نام کے اعلان کے بعد ہندوستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے ان کے ہندو پن کو نشان زد  کرنے کے لیے ہندی کا استعمال کیا۔ ہندو-ہندی کے اس باہمی انحصار پر صرف ہندوستانی ہی زور دے سکتے ہیں۔ کیا ہندی ہندوؤں کی زبان ہے؟

آپ یہ سوال اس طرح بھی پوچھ سکتے ہیں: کیاہندوؤں کی زبان ہندی ہے؟ کیا ان  کی بھی جن کے  ہندو آباؤ اجداد آج سے سو سال پہلے گوجرانوالہ سے افریقہ چلے گئے تھے؟ ان پنجابی کھتریوں کی زبان اس وقت بھی ہندی تھی؟

برطانوی ہائی کمشنر بول رہے تھے تو انہیں یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا کہ کیسے لکھیں: رشی(ऋषि) یا رشی (रिशि)؟ غالباً سنک صاحب یا برٹش ہائی کمیشن کو صحیح ہجے بتا کر بہت سے ہندی والوں کا یہ مخمصہ دور کرنا ہو گا۔

رشی  سنک اپنے ہندو ہونے پر عوامی  طور پرزور دیتے ہیں۔ گائے کی پوجا کرتے ہوئے، اسکان مندر کے پجاری کے پاؤں چھوتے ہوئے ان کی تصویریں  دیکھی جا سکتی ہیں۔ عیسائی، سفید فام اکثریت والے برطانیہ میں ایک سیاست دان یہ کر سکتا ہے۔ کیا یہ ہندو دھرم کی عظمت ہے یا برطانوی معاشرے کی مثبت رواداری کہ اسے یہ خواہ کتنا ہی عجیب کیوں نہ لگے، ان کے لیے ناقابل قبول نہیں ہے؟

گائے کا گوشت کھانے والے لوگ گئوپوجن (گائے کی پوجا)کو قدرے حیرت اور طنز کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں، اس  سے نہ تو گائے کی برتری ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی اس ایک ‘ہندو’ رواج کی۔ اور یہ کہ سنک کو خود اپنے کھانے کے عمل اور گائے کی پوجا میں کوئی تضاد نظر نہ آئے، اسے بھی فطری ہی سمجھا جانا چاہیے۔

ہندوستانی نژاد یا ہندو شخص برطانیہ کا وزیر اعظم بن گیا ہے،اس میں بہت سے لوگوں کو انتقام کالطف مل رہا ہے۔ ٹوئٹر پرفقرہ بازی کے شوقین اور سیاستدان لکھ رہے ہیں، ‘لگان سے لگام تک!’

ہندو ہندوستانی ذہن اسے برطانیہ پر ہندوستان کی فتح کے طور پر بھی دیکھ رہا ہے۔ کچھ لوگ لکھ رہے ہیں کہ اب چرچل کو جواب مل گیا ہے، جنہوں نے شک کیا تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستانی اپنے ملک کو قانون کے مطابق سنبھال سکیں گے۔ وہ برطانیہ کےگورے لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ آخرکارجس دلدل میں تم  پھنس گئے ہو،  اس سے نکلنے کے لیے تمہیں ایک بھورے ‘ہندوستانی’ ہندو کی پناہ میں آنا پڑا۔ بہت سے لوگ 10، ڈاؤننگ سٹریٹ کی دہلیز پر جلتے دیوں کو دیکھ کر بھی بہت خوش ہیں۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ ٹھیٹ برطانویت کے تحفظ کے لیے برطانیہ نے جب  بریگزٹ کو قبول کیا، اس کے بعد جو  معاشی عمل  شروع ہوئے انہوں نے برطانیہ کو اس مقام پر پہنچا دیا، جہاں ایک بھورے، ایشیائی نژاد آدمی کو اہل مانا گیا کہ وہ برطانیہ کی برطانویت کی حفاظت کرے اور اسے مالیاتی تسلی بھی دے۔ وہ بھی اس ٹوری پارٹی نے یہ کیا جو دائیں بازو سے تعلق رکھتی  ہے۔

لیکن اس سے پہلے بورس جانسن کی کابینہ میں بھی بہت سے سیاہ فام اور ایشیائی تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی لیڈر منتخب کیا جا سکتا تھا۔ سنک والد اور والدہ کے تعلق سے ہندوستان سے تین نسلوں کے فاصلے پر ہیں۔ لیکن ان کے بچے اپنی ماں کی وجہ سے ہندوستان سے صرف ایک نسل کے فاصلے پر ہیں، جن کا مائیکہ بنگلورو ہے۔

سنک نے کہا ہے کہ انہیں اپنے ہندوستانی نژاد ہونے پر فخر ہے۔ اس کے جواب میں، ہم نے کسی برطانوی سیاست دان کو اس قسم کی قوم پرستانہ دھمکی دیتے ہوئے نہیں دیکھا جیسا کہ مہذب ہندو ہندوستانی سشما سوراج نے دی تھی جب اطالوی نژاد ہندوستانی سونیا گاندھی کو ان کی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی کی طرف سے اپنا لیڈر منتخب کیے جانے کا امکان تھا۔

سونیا گاندھی نے یہ بھی نہیں کہا تھاکہ انہیں اطالوی ہونے پر فخر ہے۔انہیں ویسے ہی لیڈر منتخب کیا جارہا تھاجیسے ٹوری پارٹی نے سنک کا انتخاب کیا۔اس پر کسی سفید فام عیسائی سیاستدان نے ریٹائر ہونے یا خودکشی کرنے کی دھمکی نہیں دی۔ کیوں؟

کچھ ہندو کہتے ہیں کہ یہ موازنہ درست نہیں ہے۔ ہندو ہندوستانی جہاں جاتے ہیں، اس جگہ کے لیے پوری طرح وفادار ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندو ہندوستانی جہاں بھی جاتا ہے، ہندوستان کو اپنے دل میں رکھتا ہے۔ یعنی دو وفاداریاں ایک ساتھ رکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں کوئی باہمی تضاد نہیں ہے۔

کیا یہ بات غیر ہندوؤں پر بھی لاگو ہوگی؟ ہندوتوادی یہ چھوٹ خود لینا چاہتے ہیں، لیکن دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یا یہ بات باہر کے ممالک کے ہندوؤں پر لاگو ہوگی، لیکن ہندوستان میں نہ تو غیر ہندوؤں پر لاگو ہوگی اور نہ ہی غیر ہندوستانی نژاد لوگوں پر۔ جو مواقع ہندوستانی نژاد ہندوؤں کو باہر ملنے چاہیے وہ ہندوستان میں ہندوؤں کے علاوہ کسی کو نہیں ملیں گے۔

ہندوؤں کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جو ہندو مذہب کو خصوصی اختیار والامذہب مانتے ہیں اور خود کو منتخب انسان ۔ اس لیے وہ باقیوں کو ان حقوق کا مستحق نہیں سمجھتے جو اسے ملناچاہیے۔ جو احساس برتری سفید فام عیسائیوں میں ہے، ہندو بھی اس کا شکار ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔

برطانیہ میں اتفاق سے جو اقتدار کی کرسی ایک ہندو کے ہاتھ لگ گئی ہے اسے ہندو پن یا ہندوستانیت کی شان سمجھنے کے بجائے برطانوی معاشرے میں تنوع اور تنوع پسندی کی ترقی پذیر قبولیت کا نتیجہ ماناجانا چاہیے۔ بہت ممکن تھا کہ ٹوری پارٹی سنک کے بجائے ساجد جاوید کو اپنا لیڈر منتخب کرتی۔ پاکستانی نژاد مسلمان ساجد کو داخلہ اور خزانہ جیسی اہم وزارتیں سنبھالنے کا اہل سمجھا جا سکتا ہے تو انہیں اعلیٰ قیادت کے لیے کیوں موزوں نہیں سمجھا جا سکتا تھا؟

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان میں برطانیہ کے مترادف سمجھے جانے والے شہر لندن کے میئر پاکستانی نژاد مسلمان ہیں۔ سنک کے انتخاب پر ہندو جوش کے نشے میں ان حقائق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ایک اور بات ہندوؤں کو ذہن میں رکھنی چاہیے۔ سنک کو برطانیہ میں ہندو پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست کرنے میں کسی رکاوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔ لیکن ہندوستان میں عبدالکلام کی عزت ان کے ‘ہندو’ طرز عمل کی وجہ سے تھی۔ سونیا گاندھی کو کبھی بھی عوامی طور پر عیسائی کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔ ان کے مداح بھی ان کی تعریف یہ کہتے ہوئےکرتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر ہندوستانی یا ہندو رنگ میں رنگ گئی ہیں۔ سونیا گاندھی کے احترام کی ایک وجہ  یہ بھی ہے کہ : سر پر پلو یا ہندو تہواروں پر ہندو بہو جیسا برتاؤ۔

مسلم یا عیسائی اظہار کو ہندو اظہار کے ساتھ فوری طور پر متوازن کرنا پڑتا ہے۔ اس کی تازہ مثال اس وقت دیکھنے کو ملی جب ایک مسلم ٹی وی اینکر لڑکھڑا گئی ۔ گرتے گرتے بچ جانے کی راحت کا اظہار ‘اللہ کا شکر’ سے ہوا۔ لیکن وہ فوراً چوکنا ہو گئی۔ اللہ کا شکر ادا کرنا کافی نہیں تھا۔ انہوں  نے اس کے بعد رام کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا۔

رشی سنک کا وزیر اعظم بننا برطانیہ کے لیےضرور ایک قابل فخر لمحہ ہے کیونکہ اس سے معلوم  ہوتا ہے کہ اس نے ‘بیرونی لوگوں’ کے ساتھ دوستی میں بڑی ترقی کی ہے۔ اس میں ہندو مذہب یا اس کے پیروکاروں کا کوئی خاص کمال نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ آخرکار برطانیہ کو بھی ہندو مذہب کا لوہا ماننا پڑا احساس کمتری کا اظہارہی  ہے۔

ہندوؤں کے لیے ایک اور بات سوچنے کی ہے۔ یہ لمحہ ہندو اور ہندوستانی کو مترادف سمجھنے کی عادت سے چھٹکارا پانے میں مدد کر سکتا ہے۔ ہندوستان ہندو مذہب کا گہوارہ ہے اور اس لیے ہندو کے لیے چاہے وہ برطانوی ہو یا امریکی یا افریقی، ہندوستان ایک مقدس سرزمین ہے۔ جس طرح ایک مسلمان کے لیے چاہے وہ برطانوی ہو یا امریکی یا ہندوستانی، مکہ یا مدینہ ایک مقدس سرزمین ہے۔ اس سے ان کی قوم سے وفاداری پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

رشی سنک کابرطانیہ کا وزیر اعظم ہونا ونائک دامودر ساورکر کے ‘پتر بھومی-پونیہ بھومی’ کے اصول کو مکمل طور پر منہدم کر دیتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندو ازم کو ہندوستان کی علاقائیت سے آزاد کیا جائے۔ لیکن یہ ہندو بالادستی کے خاتمے کی ضمانت نہیں دیتا۔ یہ سفید فام بالادستی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرسکتا ہے اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مسلم مخالف نفرت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)