خبریں

نوٹ بندی کو لے کر حکومت نے کبھی بھی آر بی آئی کو  لوپ میں نہیں رکھا: رپورٹ

ایک میڈیا رپورٹ میں نوٹ بندی کے فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ رہے اہلکار کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے سینٹرل بورڈ میں اس موضوع پر ڈھنگ سے تبادلہ خیال نہیں کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سوموار کو مودی حکومت کے 2016 میں لیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف دائر کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے اس فیصلے کو 4:1 کی اکثریت سے درست قرار دیا تھا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے سوموارکو 4:1 کی اکثریت سے مرکزی حکومت کے چھ سال قبل کیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کو درست قرار دیا، لیکن انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے مرکزی بورڈ کو کبھی بھی نوٹ واپسی کے بارے میں لوپ میں نہیں لیا  گیا تھا۔

فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ رہے ایک افسر نےاس جانب اشارہ کیا کہ آر بی آئی کے بورڈ میں اس مسئلے پر صحیح طریقے سے بحث نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا، ‘ایسا کہا جاتا ہے کہ حکومت چھ ماہ تک  آر بی آئی کے ساتھ مشاورت کے عمل میں تھی۔ (آر بی آئی) بورڈ کبھی لوپ میں نہیں تھا۔ شاید آر بی آئی کےایک یا دو لوگوں کو پتہ ہوگا۔ اچانک آدھے گھنٹے یا ایک گھنٹے کے اندر آپ نوٹس جاری کرتے ہیں اور ایجنڈے کے بارے میں  بتائے بغیر میٹنگ بلا لیتے ہیں۔

آر بی آئی  بورڈ نے مئی 2016 میں نوٹ بندی سے چھ ماہ قبل 2000 روپے کے نوٹوں کو متعارف کرانے کی منظوری دی تھی، لیکن جولائی اور اگست 2016 میں بورڈ کی میٹنگوں میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی واپسی پر تبادلہ خیال نہیں کیا تھا۔

اس سے پہلے انڈین ایکسپریس کی جانب سے آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری میں آر بی آئی نے کہا تھا کہ سینٹرل بورڈ نے 19 مئی 2016 کو 2000 روپے کے نوٹ متعارف کرانے کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا اور اسے منظوری دے دی۔

تاہم، آر بی آئی نے پچھلے سال کہا تھا کہ مئی 2016 میں ہونے والی اس کی بورڈ میٹنگ میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی قانونی ٹینڈر کے طور پر ممکنہ واپسی پر کوئی بحث نہیں ہوئی تھی۔ آر بی آئی نے کہا ہے کہ اس کے بعد 7 جولائی اور 11 اگست 2016 کو سینٹرل بورڈ کی میٹنگ میں بھی اس پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔

غورطلب  ہے کہ جب اس سال مئی میں 2000 روپے کے نئے نوٹ متعارف کرانے کی تجویز کو منظوری دی گئی تھی، تب رگھورام راجن آر بی آئی کے گورنر تھے۔

واضح ہو کہ نوٹ بندی کا اعلان 8 نومبر 2016 کو کیا گیا تھا۔

اس سوال پر کہ کیا آر بی آئی سینٹرل بورڈ کو حکومت کی طرف سے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کی کوئی تجویز موصول ہوئی تھی، آر بی آئی نے ایک اور آر ٹی آئی کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا، ‘ریزرو بینک آف انڈیا کے سینٹرل بورڈ نے 8 نومبر 2016 کو  اپنی میٹنگ میں، مرکزی حکومت کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی قانونی ٹینڈر کو واپس لینے کی تجویز کی  سفارش کی تھی۔

تاہم، آر بی آئی نے 8 نومبر 2016 کو ہونے والی سینٹرل بورڈ میٹنگ کے منٹس فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ مانگی گئی جانکاری  کو آر ٹی آئی ایکٹ-2005 کی دفعہ  8(1)(اے) کے تحت چھوٹ حاصل ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا تمام پہلوؤں پر  تفصیل سے بحث کی گئی۔

ذرائع نے رازداری کی شرط پر کہا، ‘ممکنہ طور پر عدالت مستقبل کے لیے کچھ تبصرہ کر سکتی تھی کہ جب کوئی خود مختار ادارہ یا ماہر اکائی  ہے، جس نے اس پہلو کو دیکھنا ہے، اس کے نقطہ نظر کو اہمیت دی جانی چاہیے تھی۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نوٹ بندی کے عمل نے آر بی آئی کی خود مختاری کو نقصان پہنچایا، آر بی آئی کے سابق ڈپٹی گورنر آر گاندھی نے کہا،مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں آر بی آئی کی خودمختاری سے متعلق کوئی بنیادی سوال ہے۔ عوامی پالیسی ہمیشہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تشکیل دی جاتی رہی ہیں ، جن میں حکومت بھی شامل ہے۔ صرف اس لیے کہ آر بی آئی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آزادانہ فیصلے لے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے حکومت سے بالکل بھی مشورہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اس کی تشریح کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔

کچھ بینکر اس بات سے پریشان تھے کہ نوٹ نکاسی کا عمل اتنی جلدی میں کیا گیا کہ اس سے لوگوں اور بینکروں کو نقصان ہوا۔

اس سلسلے میں علم رکھنے والے ایک اور شخص نے کہا، ‘اعلان کیا گیا تھا کہ ایک ونڈو فراہم کی جائے گی تاکہ لوگ ریزرو بینک میں پرانی کرنسیوں کا تبادلہ کر سکیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ وہ معاملہ  ہے جہاں سپریم کورٹ تبصرہ کر سکتی تھی۔

غور طلب  ہے کہ سپریم کورٹ نے سوموار (02 جنوری 2023) کو مودی حکومت کے 2016 میں لیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد کالا بازاری ، ٹیرر فنڈنگ کو ختم کرنا تھا۔ وغیرہ۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ ان  مقاصد کو حاصل کیا گیایا نہیں۔

اس بنچ میں جسٹس بی آر گوئی، جسٹس بی وی ناگ رتن، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم شامل ہیں۔ تین ججوں کو چھوڑ کر جسٹس بی وی ناگ رتن نے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ 26 (2) کے تحت مرکزی حکومت کے اختیارات کے نکتہ پر اختلافی فیصلہ سنایا تھا۔

واضح ہو کہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی کے ساتھ مشورے کے بعد ‘سوچ سمجھ کر’لیا گیا  فیصلہ تھا۔

تاہم دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 8 نومبر کو وزیر اعظم کی طرف سے فیصلے کا اعلان کرنے سے چند گھنٹے قبل آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ کے منٹس کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

وہیں گزشتہ دنوں ، دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کالے دھن سے نمٹنے کے لیے  جونوٹ بندی کی تجویز دی گئی تھی، اس کو آر بی آئی نے خارج کر دیا تھا۔

وہیں معلوم ہو کہ جب رگھورام راجن آر بی آئی کے گورنر  ہوا کرتےتھے، تب مرکزی بینک نے مرکزی حکومت کے نوٹ بندی کے اقدام کو خارج   کر دیا تھا۔ تاہم،راجن کے 4 ستمبر 2016 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد حکومت نے نوٹ بندی  کی کارروائی کو آگے بڑھایا تھا۔

وہیں، دی وائر نے وینکٹیش نایک کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ کی میٹنگ کے منٹس کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ بورڈ کو اس بارے میں علم نہیں تھا۔ وزیر اعظم کے نوٹ بندی کے فیصلے کا اعلان کرنے سے چھ گھنٹے سے بھی کم وقت پہلے اس موضوع پر ڈپٹی گورنر کی ریلیز کوبورڈ کے سامنے رکھا گیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)