خبریں

مہاراشٹر: مسلم نوجوان کی لنچنگ کے معاملے میں ہندوتوا تنظیم سے تعلق رکھنے والے تمام ملزمان بری

پونے کے ہدپسر واقع انتی نگر مسجد کے باہر 2 جون 2014 کو 24 سالہ تکنیکی ماہر محسن شیخ کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا،  جب وہ نماز پڑھ کر لوٹ رہے تھے ۔ تمام 21 ملزمان ہندو راشٹر سینا نامی ہندوتوا تنظیم کا حصہ تھے۔

اس معاملے میں ایک ملزم ہندو راشٹرا سینا کے رہنما دھننجے دیسائی ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اس معاملے میں ایک ملزم ہندو راشٹرا سینا کے رہنما دھننجے دیسائی ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

پونے کی ایک مصروف سڑک پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک مسلم نوجوان کی ہلاکت کے نو سال بعد جمعہ (27 جنوری) کو  سیشن کورٹ نےدنگا کرنے اور اسے بے دردی سے قتل کرنے کے تمام 21 ملزمان کو بری کر دیا۔

تمام ملزمان ہندو راشٹرسینا (ایچ آر ایس ) نامی شدت پسند ہندوتوا تنظیم کا حصہ ہیں۔ 2 جون 2014 کو پونے کے ہدپسر  واقع انتی نگر مسجد کے باہر 24 سالہ تکنیکی ماہر محسن شیخ کو اس وقت قتل کر دیا گیاتھا،  جب وہ مغرب کی نماز پرھ کر لوٹ رہے تھے۔

پونے سیشن جج ایس بی سالونکے نے جمعہ کو ایچ آر ایس  لیڈر دھننجے دیسائی سمیت تمام ملزمین کو بری کر دیا۔ شیخ کے قتل کے الزام کے علاوہ، ضلع میں دیسائی اپنی نفرت انگیز مسلم مخالف تقاریر اور سرگرمیوں کے لیے کئی دیگر مجرمانہ مقدمات کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔

پونے میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن اور مقدمے میں مداخلت کرنے والوں میں سے ایک اظہر تمبولی نے کہا کہ اہم گواہوں کے اپنے بیانات پر قائم رہنے میں ناکامی کے بعد معاملہ بکھر  گیا۔اس معاملے میں ہجوم کے تشدد کا شکار بنا ایک اہم گواہ بھی اپنے بیان سے مکر گیا۔ واقعے کے دن وہ اور شیخ دونوں نے ٹوپیاں پہن رکھی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی مذہبی شناخت ظاہر ہوتی تھی۔

جہاں حملے کے دوران ہاکی اسٹک سے سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے شیخ نے دم توڑ دیا، وہیں  اس گواہ کو متعدد فریکچر اور چوٹیں آئی تھیں۔ گواہ نے قریب کی ایک  دکان میں پناہ لی تھی اور ملزمین کو ہاکی اسٹک سے شیخ کو مارتے ہوئے دیکھا تھا۔

تمبولی کہتے ہیں،جب گواہ عدالت  پہنچا تو اس نے کہہ دیا کہ اس وقت وہاں اندھیرا تھا، اس لیے اسے کوئی چہرہ یاد نہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ  واقعہ کے فوراً بعد گواہ نے پولیس کو جو بتایا تھا یہ اس کے بالکل برعکس تھا۔

ایک اور گواہ جو شیخ کے ساتھ مسجد گیا تھا،اس پر بھی ہجوم نے حملہ کیا تھا، وہ واقعہ کے فوراً  بعد لاپتہ ہو گیا۔ شیخ کے خاندان، تمبولی اور پونے سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس کا سراغ لگانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ نہیں مل سکا۔

تمبولی کو لگتا ہے کہ گواہوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ‘یہ ریاست کا فرض تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ گواہوں کو عدم تحفظ کا احساس نہ ہو۔اس معاملے میں تمام ملزمین طاقتور ہندوتوا لیڈر ہیں اور تشدد کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں گواہوں سے ایک بار پھر اپنی جان خطرے میں ڈالنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

بنیادی طور پرسولاپور کے رہنے والے شیخ کام کے سلسلے میں پونے میں رہنے لگے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی سطح پر اقتدار میں آنے اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد پونے میں ہونے والے فسادات میں انہیں مار دیا گیا تھا۔ یہ حملہ مبینہ طور پر شیواجی مہاراج اور شیوسینا لیڈر بال ٹھاکرے کے خلاف کچھ قابل اعتراض پوسٹ کی وجہ سے ہوا تھا۔

شیخ کے قتل نے ملک بھر میں ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا اور ریاست میں اس وقت کی کانگریس-نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) حکومت نے اس معاملے کو سختی سے سنبھالنے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم، مقدمے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور ملزمان کو شہر میں اسی طرح کے فرقہ وارانہ جرائم میں ملوث ہونے کے لیے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ 2019 میں، جب دیسائی کو بامبے ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کیاتھا تو ان پر ضمانت کی سخت شرائط عائد کی گئی تھیں۔ لیکن، جیسے ہی انہوں نے یرودا سینٹرل جیل سے قد م باہر رکھا، ان کے حامیوں کا ہجوم  جیل کے باہر جمع ہو گیا، جس نے  سڑک کو بلاک کر دیا اور ‘جئے  شری رام’ کے نعرے لگائے ۔

دیسائی کے علاوہ اس کیس میں نامزد ملزمان میں وشال سوتروے، اتل اگم، رنجیت یادو، ساگر ستار، شبھم بردے، دادا عرف شیکھر مودک، آکاش لشکرے، پرشانت عرف بالا تھوراٹ، اجے لالگے، وجے گمبھیر، وکی کھنڈالے، اکشے کھنڈالے ،روی ساٹھے، آکاش کاکڑے، روہن بوبڈے، پرتیک سانگلے، پرساد پنسارے، راہل کرولے، ابھیشیک چوہان اور مہیش کھوت شامل ہیں۔

سال 2019 میں دیسائی کی ضمانت پر رہائی کے فوراً بعد دی وائر نے شیخ کے چھوٹے بھائی مبین شیخ سے بات کی تھی۔ مبین نے کہا تھا کہ وہ بہت پہلے ہی انصاف کی امید کھو چکے تھے۔ فیصلے کے بعد مبین نے میڈیا سے بات کرنے سے بچنے کے لیے اپنا موبائل بند کرلیا۔

تمبولی نے کہا کہ مبین پریشان ہے۔ انہوں نے کہا، ‘گزشتہ 10 سالوں میں انہوں نے بہت کچھ کھویا ہے۔ ان کے پاس دنیا کو بتانے کے لیے کیا رہ گیا ہے۔

شیخ کی ہلاکت کے چند سالوں کے اندر ہی ان کے والد محمد صادق جو اس مقدمے کی قریب سے نگرانی کر رہے تھے، دل کی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ اپنی انجینئرنگ کی ڈگری اور اچھی تنخواہ کے ساتھ خاندان کا خیال رکھتے تھے۔ ان کی موت کے ساتھ ہی  خاندان کے سامنے معاشی بحران پیدا ہو گیا۔

شیخ کی موت پر ریاستی حکومت نے خاندان کے لیے معاوضے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس واقعے کے فوراً بعد مہاراشٹر میں کانگریس کی حکومت گر گئی اور دیویندر فڈنویس کی قیادت والی  نئی بی جے پی حکومت معاوضہ دینے کو تیار نہیں تھی۔ خاندان کو معاوضے کے لیے بامبے ہائی کورٹ جانا پڑا۔

خاندان کے مطالبے کے بعد ریاستی حکومت نے وکیل اجول نکم کو کیس میں خصوصی سرکاری وکیل مقرر کیا تھا۔ لیکن 2017 میں انہوں نے بغیر کسی وضاحت کے خود کو اس سے الگ کر لیا۔ تب سے یہ معاملہ ایک مقامی وکیل دیکھ رہا تھا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)